• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستر سال کسی بھی ملک کی تاریخ میں واضح حکمتِ عملی کے رنگ بھرنے کرنے کے لئے کم نہیں ہوتے۔ معیشت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی کا پٹرول دماغ کے پاس، جس کی خوراک تصورات، نظریات اور علمی تجربات ہوتے ہیں۔

ہمارا حال ہمیشہ سے ایسا بےحال نہیں تھا۔ کبھی ہماری معیشت اتنی مستحکم تھی کہ موجودہ دور میں معاشی قوت سے دنیا کو زیر نگوں کرنے والے دوست ملک کی یادگار دیوارِ چین کی مرمت ہم نے کروائی۔

تب سعودی عرب پر بھی نعمتوں کی بارش نہیں ہوئی تھی اس لئے حج اور عمرے پر جانے والوں کے علاوہ حکومت بھی اپنے اس مقدس مقام کی دیکھ بھال اور تزین کا خیال کرتی تھی۔ ہم دنیا کی طرح ہی دوڑ رہے تھے مگر ہمارا رستہ الجھا ہوا تھا۔ اس لئے بےسمت ہو گئے۔

چند لوگ سرکھپاتے رہے مگر کسی نے یہ نہ سوچا کہ ہماری اکثر پالیسیاں ناکام کیوں ہوئیں۔ منصوبے دھرے کے دھرے کیوں رہ گئے۔ وہ اسکیمیں جن پر برسوں کاغذی کام ہوا، جنہیں ہماری خوشحالی کا ضامن کہا گیا وہ عمل کی سیڑھی پر قدم نہ رکھ سکنے کے باعث ہمارے حصے کے نوٹ بھی نگل گئیں۔ ہمارا بجٹ ان شاہ خرچیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

اس لئے قرضے بڑھتے گئے۔ ان تمام مسائل کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی اور مسائل کی عدم تفہیم تھی۔ ہم سنتے رہے کہ نظامِ تعلیم کو درست کرنے کے لئے بہت سارے کام کیے جارہے ہیں۔

اقدامات کی لمبی فہرست ٹائپ ہوتی رہی مگر فائلوں سے تعمیری نقشے تک پہنچنے سے قبل نچلے دراز میں گم ہو گئیں۔ آج تک ہم پر وہ نظام تعلیم مسلط ہے جو ہمیں غلام بنانے کے لئے بدیسی حکمرانوں کا ڈیزائن کردہ ہے۔ اس نظام تعلیم میں ہرممکن کوشش کی گئی کہ لوگوں کی ذہنی صلاحیتیں اور تخلیقی قوتیں اجاگر نہ ہونے پائیں۔ نصاب میں مقامی ہیرو کا تذکرہ نہ ہو، بدیسی حاکم سے وفاداری ایمان کی طرح لازم ہو، پڑھائی کے طریقے بھی ایسے کہ جو سوال اور غور وفکر کرنے کے بجائے صرف یادداشت کا خانہ پُر رکھیں۔ طلبہ مکالمے اور بحث کے بجائے بلا چوں و چراں صرف سننے تک دھیان کو باندھے رکھیں تاکہ ایک حد سے آگے نہ دیکھیں، اونچا اڑنے کے سپنے دیکھنے کی جستجو سے کنارہ کش ہو جائیں۔ صرف ایک لگے بندھے رستے پر چل کر زندگی گزاریں۔ استاد جو کہے اسے سچ مان کر اس پر یقین کریں اور اس کے علاوہ اپنی سوچ کو کہیں بھٹکنے کیلئے کھلا نہ چھوڑیں۔

گورا چلا گیا مگر آزاد ملک کے حاکم نے روش نہ بدلی۔ پرانے نظام کی باقیات نے چند سرپھروں کی بہتری کی ہر کوشش ناکام بنادی۔ نتیجتاً وہ نظام تعلیم اس ملک کی جڑوں میں سرایت کر گیا۔

آپ جتنے مرضی نئے رجحانات کی بات کریں اصل معاملہ زبان اور زمین سے جڑی دانش کو نظر انداز کرنے کا ہے جو آج بھی پوری قوت سے موجود ہے۔ غلامانہ نظام نے تخلیقی اور تحقیقی اذہان کے بجائے غلاموں کی ایک ایسی نئی نسل متعارف کرائی ہے جس پر ہنس اور کوے کی مثال صادق آتی ہے۔ اس نظامِ تعلیم نے والدین اور بچوں کے درمیان ناقابل بیان تفریق اور فاصلہ پیدا کیا ہے۔

یوں درپردہ اجنبی نظام نے دیمک کی طرح ہمارے تخلیقی جوہر کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے تبھی ہم کسی میدان میں سرفہرست نہیں۔ ایجادات اور تحقیق میں کہیں ہمارا نام نہیں۔ مادری زبانیں تو ایک طرف پورے ملک کے رابطے کی زبان بھی خطرے میں ہے لیکن کیا کریں وہ انگریزی زبان جو یورپ اور چین کا کچھ نہ بگاڑ سکی ہماری ترجیحات سے باہر نہیں نکلتی۔

چلو عالمی زبان ضرور پڑھیں مگر کوئی حد تو ہو، صرف بدیسی زبان میں مہارت کو زندگی کا مقصد کیا بنایا ہم سے ہمارا وجود، ہماری خواہشات، ہماری شناخت، ہماری روایتیں، ہمارا کلچر، ہماری زبان سب کچھ چھن گیا۔

اس نظام کو بدلنے کی پہلے بھی سعی ہوئی مگر مختلف مافیاز نے حکومتوں کو فیصلے واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اس جماعت میں کچھ چہرے فہم وفراست اور آگہی کی علامت ہیں جو حکمرانی کے بجائے ملک میں رائج فرسودہ نظام کو بدلنے کا عزم لے کر سیاست میں آئے ہیں اس لئے خاموشی سے مقصد کے حصول کے لئے متحرک بھی ہیں۔

انہی چند لوگوں میں شفقت محمود وزیر تعلیم کا نام سرفہرست ہے جو وزیراعظم عمران خان کے یکساں نظامِ تعلیم کے نعرے کو سچ ثابت کر سکتے ہیں۔

یکساں نظامِ تعلیم کی صورت ہمارا کل روشن، محفوظ اور آزاد ہو سکتا ہے۔ اسی سے ہمارا مورال بھی بلند ہو گا اور ہماری شناخت کے پکے رنگے بھی سامنے آئیں گے۔ یاد رہے پوچھ کر کوئی کام نہیں ہوتا۔

شفقت صاحب! یکساں نظامِ تعلیم کا اعلان کر دیں، یقین کریں آنے والی نسلیں آپ کی اور عمران خان کی قرض دار رہیں گی۔

تازہ ترین