پاکستان پر چاہے کسی بھی جماعت کی حکومت ہو ہر حکمراں نے ہی دنیا بھر میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں کی اہمیت کو سراہا ہے، خاص طور پر وہ پاکستانی جنہوں نے اپنے ملک میں ناکام ہو کر بیرون ملک بسنے کا فیصلہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کرکے دنیا میں اپنا مقام بنایا اور اپنا اور پاکستان کانام روشن کیا ان ہی چند پاکستانیوں میں سنگا پور مین مقیم سینر پاکستانی عبدالطیف صدیقی بھی ہیں۔
جنہیں پاکستان میں کئی مواقعوں پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مجبور ہر کر پاکستان سے باہر سنگاپور منتقل ہوگئےاور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شپنگ سیکٹر کے شعبے میں ایک اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور آج وہ پاکستان کے قومی ادارے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن سے بڑے ادارے گلوبل ریڈینس گروپ نامی شپنگ ادارے کے سربراہ ہیں ۔ عبدالطیف صدیقی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے اور انھیں پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان میں شپنگ سیکٹر میں پچاس بڑے بحری جہازوں کے ساتھ مرچنٹ نیوی کی صنعت کو نئی زندگی فراہم کرنے کا منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔
عبدالطیف صدیقی تین دہائیوں سے شپنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور پاکستان کے شپنگ سیکٹر اور مرچنٹ نیوی میں جانے کے خواہش مند نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہیں ۔ اس سفر کا آغاز انہوں نے بحیثیت میرین انجینئر 1989 میں کیا۔ دنیا کی نامور جہاز راں کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہوئے مختصر مدت میں اعلیٰ ترین عہدوں تک ترقی حاصل کی اور اپنے اثر و رسوخ کو ہر ممکن حد تک پاکستانیوں کے لئے ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا۔ یاد رہے کہ جہاز رانی کے شعبہ میں پاکستان سنہ 80 کی دہائی میں نیشنلائیزیشن کے بعد سے مسلسل زوال کا شکار رہا ہے اور پاکستانی فلیگ شپس کی تعداد کم ہوتے ہوتے اب صرف بارہ جہازوں تک رہ گئی ہے جوکہ 1980 کی دہائی تک پاکستانی فلیگ شپس اور گوکل شپنگ کو ملا کر چار سو سے زائد ہوا کرتی تھی۔
نتیجتاً اس شعبے سے منسلک بے شمار افراد بے روزگار ہوئے اور نئی پود نے اس جانب رخ کرنا چھوڑ دیا۔ اس حوالے سے لطیف صدیقی پچھلی تین دہائیوں میں ہزاروں پاکستانیوں کو بین الاقوامی جہازرانی میں روزگار فراہم کرنے کا باعث بنے۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے انہوں نے ذاتی حیثیت میں کئی نقصان بھی اٹھائے اور مسلسل انڈین لابی کا ہدف بھی رہے مگر انہوںنے ہمت نہ ہاری اور یہ سفر جاری رکھا۔2015میں لطیف صدیقی نے گلوبل ریڈئینس شپ مینجمنٹ کےنام سے سنگاپور میں اپنی کمپنی کھولی اور اس کے متوازی گلوبل ریڈئینس پاکستان کا کراچی میں آغاز کیا۔
اس طرح انہیں اب پاکستانی میرینرز کو نوکریاں فراہم کرنے کا براہ راست موقع مل گیا۔ چنانچہ پانچ سالوں کی مختصر مدت میں گلوبل ریڈئینس نے دو کمپنیوں سے بڑھ کر گلوبل ریڈئینس میری ٹائم گروپ کی شکل اختیار کر لی، جس کے ماتحت مین پاور مینجمنٹ، آف شور مینجمنٹ، پروجیکٹ مینجمنٹ، لائیو سٹاک مینجمنٹ اور ٹریول مینجمنٹ وغیرہ کے حوالے سے کئی نئی کمپنیاں وجود میں آئیں۔
نتیجتاً سیکڑوں پاکستانیوں کو روزگار کے مواقعے ملے اور تاحال مل رہے ہیں۔ فی الوقت گلوبل ریڈئینس کے زیر نگرانی جہازوں پر چھے سو سے زائد پاکستانی ملازمت کررہے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر سیکڑوں افراد سنگاپور اور پاکستان کے دفاتر میں بر سر روزگار ہیں۔ گلوبل ریڈئینس سے منسلک بیرون ملک پاکستانی سالانہ چھے ملین امریکن ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں اور اس سب کا سہرا لطیف صدیقی کے سر ہے۔نئےپاکستان کے خواب نے کروڑوں پاکستانیوں کو امید کی کرن دکھلائی۔
بالخصوص بیرون ملک پاکستانیوں نے اس خواب سے بے شمار امیدیں وابستہ کیں۔ لطیف صدیقی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور جائزہ لیا کہ وہ اس خواب کی تکمیل کے لیےکیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بنیادی جائزے اور مشاورت کے بعدوہ پاکستان میں بیرون ملک سرمایہ کاری لانے کے حوالے سے متحرک ہوئے اور پچھلے ایک سال میں اس مقصد کے لئے بے شمار وقت اور پیسہ صرف کیا۔
اس سرمایہ کاری میں انہوںنے جہازرانی کے علاوہ لائیو سٹاک اور پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لئے بھی دنیا بھر میں کوششیں کیں اور اپنی کاروباری حیثیت کا موثر استعمال کرتے ہوئے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔ اس حوالے سے گزشتہ سال کئی حکومتی وزرا بشمول وزیر جہازرانی علی زیدی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ماہ اپریل میں ان کی ملاقات وزیر اعظم عمران خان سے ہوئی۔
اس ملاقات کے دوران انہوںنے وزیر اعظم کو ڈیم فنڈ کے لئے ایک لاکھ ڈالر کا چیک پیش کیا اور ساتھ ہی شعبہ جہاز رانی میں دو بلین ڈالر انوسٹمنٹ کی آفر بھی کی۔ بنیادی طور پر اس سرمایہ کاری کا مقصد اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کے لئے پچاس بحری جہازوں کی خریداری تھا جو کہ شعبہ جہاز رانی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔
جہاز رانی کے علاوہ لطیف صدیقی نے اپنے کاروباری تعلقات کو استعمال میں لاتے ہوئے شعبہ لائیو اسٹاک میں سرمایہ کاری میں معاونت کا عندیہ بھی دیا۔ وزیر اعظم نے لطیف صدیقی کی کوششوں کو سراہا اور ہر ممکن معاونت کی یقین دہانی کرائی۔ البتہ اس ملاقات سے لے کر اب تک لطیف صدیقی اس آفر کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر قانونی پیچیدگیوں اور نوکر شاہی رخنوں کے باعث ان کی کوششیں بارآور نہیں ہو سکیں۔ اس کے باوجود وہ پر امید ہیں کہ انشااللہ پاکستان میرین انڈسٹری کو دوبارہ زندہ اور فعال بنانے کا خواب ایک دن ضرور پورا ہوگا اور اس سلسلے میں وہ ہر ممکن حد تک جانے کو تیار ہیں۔