سائنس داں خلا سے نت نئی چیزیں دریافت کرنے کے لیے مختلف تحقیقات کرتے رہتے ہیں ۔گزشتہ دنوں آسڑیلوی اور امریکی سائنس دانوںنے مشتر کہ طور پر ایک تحقیق کی ہے ،جس میںزمین سے 3000 نوری سال کی دوری پر ایک ایسا ستارہ دریافت کیا ہے جو اپنے پڑوسی ستارے سے اُٹھنے والی گیس کو مسلسل ہڑپ نے میں مصروف ہے ۔یہ برج عقرب کے بالکل قریب ہے ۔بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور ایک دوسرے کے گرد چکر بھی لگا رہے ہیں۔
ماہرین نے اس نئے ستارے کو ’’ڈریکولا ستارے‘‘ کا نام دیا ہے ۔خلا میں ایسا نظام جو دوستاروں پر مشتمل ہو ،وہ ’’بائنری سسٹم ‘‘(ثنائی نظام) کہلاتا ہے ۔ماہرین کے مطابق یہ دریافت معمول کے ثنائی نظام والے ستاروں سےکچھ مختلف ہے ۔اس میںزیادہ کمیت والا ستارہ ’’سفید بونا ‘‘ ہے ۔
جو دراصل ہمارے سورج جتنا ہی ستارہ ہے لیکن یہ اپنا سارا نیوکلیائی ایندھن پھونکنے کے بعد اب بوڑھا ہوچکا ہے اور اس سے خارج ہونے والی روشنی بھی بہت کم پڑ چکی ہے ۔اس کے پڑوسی ستارے کو ’’بھورا بونا ‘‘ ( برائون ڈرواف) کہا جا تا ہے۔ اس بھورے بونے ستارے کو ’’ناکام ستارہ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ صحیح معنوں میں ستارہ نہیں ہوتا ۔ لیکن پھر بھی یہ ستارے کے مقابلے میں ایک قدرے کم گرم گیسی گولے کے طور پر کروڑوں سال تک اپنا وجود بر قرار رکھتا ہے۔
سائنس دانوں نے اب تک جتنے بھی ڈریکولا ستارے دریافت کیے ہیں ،ان سب میں گیس ہڑپ کرنے والے ستارے کی کمیت ،گیس سے محروم ہونے والے ستارے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی تھی جب کہ دونوں ہی باضابط ستارے ہی ہوتے تھے ۔یہ پہلی وفعہ ہوا ہےجب کسی سفید بونے کو ایک بھورے بونے کی گیس نے ہڑپ لیاہے اور بھورابونا بہت تیزی سے اپنے مرکزی ستارے یعنی سفید بونے کے گرد چکر لگا رہا ہے۔
بعض اوقات یہ گیس کم بھی ہو جاتی ہے ۔باقاعدہ وقفے سے بار بار کم اور زیادہ ہوتی روشنی کے باعث ایسے ستاروں کو ’’ کیٹاکلزک ویر ی ایبل ‘‘ (پر تشدد متغیر ستارے ) بھی کہا جاتا ہے۔ماہرین نے ان ستاروں کا دوسرا نام ’’ویمپائر اسٹار ‘‘ بھی رکھا ہے ۔