• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں سال کے 365دن عوام کی پریشانیوں اور حکمرانوں کی یقین دہانیوں میں گزر جاتے ہیں۔ یہ صورتحال ہر دہائی میں بد سے بدتر ہوتی اور پریشان کن حد تک بڑھتی جا رہی ہے، لیکن ملک کا نظام چلانے والے چاہے ماضی کے حکمران ہوں یا موجودہ‘ کسی کے بھی ریڈار پر عوام کی حقیقی مشکلات کے احساس کا عکس نظر نہیں آتا جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے ہم خود یا مجموعی طور پر عوام ہی اس کے ذمہ دار قرار دیے جا سکتے ہیں جو 70سال سے وعدوں کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے بیس پچیس سالوں میں میڈیا کے شعبوں میں جدت سے عوام کو کچھ ملا یا نہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ہر حکومت کے طرح طرح کے اعلانات اور دعوے تو نمایاں ہوتے رہے لیکن کبھی کوئی مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو سکا۔ خاص طور پر گورننس اور اکنامک گورننس کے مسائل۔ اِن دونوں کا بنیادی تعلق عوام کی معاشی پریشانیوں سے ہے، جس میں مہنگائی کا جن بھی شامل ہے، جو صرف گورننس بالخصوص اکنامک گورننس کے ذریعے قابو کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ آج کل آٹے اور چینی کا بحران کوئی ایسا مسئلہ نہیں، جسے حل نہ کیا جا سکتا ہو۔ اس حوالے سے ذخیرہ اندوزوں اور کاروباری شعبہ کے اہم کردار یعنی ’’مڈل مین‘‘ پر گرفت کرنے کے اعلانات ہر دور میں عوام سنتے چلے آ رہے ہیں، اس کے باوجود ہر انتخابات میں عوام جانے والے اور آنے والوں کی باتوں پر اعتبار کر لیتے ہیں، تو پھر بعد میں وہ پچھتاتے بھی ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ اب موجودہ حکومت کے بارے میں سفارتی حلقوں اور معتبر کاروباری حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ حکومت گورننس اور پرفارمنس بہتر بنانے پر کب توجہ دے گی۔ اب پاکستان کا ہر طبقہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس پر قابو نہ پانے کی وجہ سے پریشان نظر آ رہا ہے، دوسرا یہ کہ حکمرانوں کو اب ٹی وی، اخبارات پر بیان بازی سے زیادہ عملی طور پر عوام کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ انہیں ایک دوسرے کی عزت اور اعتماد کی پالیسی اپناتے ہوئے بیورو کریسی میں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے حکومتی وزرا یہ شکوہ کرنے کے بجائے کہ بیورو کریسی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتی، بار بار یہ راگ الاپنے کے بجائے ان سے فرینڈلی ریلیشن شپ کے فارمولے پر عمل درآمد کریں۔ اس وقت مایوسی اور ڈپریشن کی وجہ سے عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ رہا ہے اور اِس حوالے سے ہر سطح پر بدگمانیاں اور طرح طرح کی افواہیں جنم لے رہی ہیں، یہ وزیراعظم کا فرض ہے کہ وہ عوام کو یہ احساس دینے کے بجائے کہ گھبرانا نہیں، میں نہیں چھوڑوں گا، عملی طور پر عوام کو مطمئن کرنے کے لیے تمام اداروں میں اعتماد کی بحالی پر توجہ دیں۔ اپنے وزرا کو اپنے اپنے حلقوں میں جا کر عوام کو مطمئن کرنے کا ٹاسک دیں۔ اس کے لیے خواتین اور ریٹائرڈ افراد اور نوجوانوں کی کمیٹیاں بناکر انہیں شہر شہر، قصبہ قصبہ متحرک کریں۔

اگر حکومت یا ریاست کے پاس ان ایشوز کو حل کرنے کی استعداد یا صلاحیت نہیں تو پھر عوام کو مستقبل میں وہ کیا جواب دیں گے؟ اب وقت ہے کہ عوام کو ان کے معاشی مسائل کے حل کے حوالے سے مطمئن کرنے کے لیے بیان بازی سے ہٹ کر عملی اقدامات کیے جائیں۔ یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے، ورنہ ایک وقت آئے گا جب حکمران ہاتھ ملتے نظر آئیں گے اور اپوزیشن کی طرف سے حکمرانوں کو کام نہ کرنے دینے کے حربے کامیاب ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ مسائل تو اُن کے اپنے پیدا کردہ ہیں، جن کو حل کرنا وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔

تازہ ترین