مرزا اسدا للہ خاں غالب کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ وہ اردو کے عظیم ترین شاعر وں میں سے ایک ہیں۔
لیکن اس عظیم شاعر کے اردو کلام کی تدوین کا کیا عالم ہے ؟ اگرچہ غالب کا دیوان بیسیوں بار مرتب و مدون ہوا لیکن شاید ہی کوئی نسخہ ان کے دیوانِ اردو کا ایسا ہو، جسے سو فی صد مستند کہا جاسکے۔ دیوانِ غالب کے نسخۂ عرشی (مرتبہ امتیاز علی خاں عرشی) کو تدوین و تحقیق کے اعلیٰ ترین معیار کے نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور بے شک یہ غالب کے اردو کلام کا مستند ترین نسخہ ہے لیکن اس میں بھی کچھ قباحتیں ہیں اوربعض اہل علم نے اس پر بھی کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
یہاںہم غالب کے اردو دیوان کے معروف مطبوعہ اور مدوّنہ نسخوں کا مختصر تعارف اور نمایاں خصائص پیش کریں گے۔
٭…دیوانِ غالب کی اشاعتیں ، غالب کی حیات میں
غالب کی زندگی میں ان کے دیوان کے پانچ ایڈیشن شائع ہوئے ،جن کی تفصیل یہ ہے:
۱۔پہلا ایڈیشن ۱۸۴۱ء: میں دہلی کے مطبع سید الاخبارسے چھپااور اس کے ۱۰۸ صفحات تھے ۔کالی داس گپتا رضا کے مطابق اس میں ایک ہزار چھیانوے (۰۹۶،۱) اشعار تھے ۔ لیکن عرشی کے مطابق غزلیات کے حصے میں تین شعر مکرر چھپ گئے ہیں لہٰذا اشعار کی تعداد ایک ہزار ترانوے (۳ ۰۹،۱) ہے۔
۲۔دوسرا ایڈیشن ۱۸۴۷ء: میں مطبع دارالسلام ( دہلی) سے شائع ہوا جس کا دوسرا نام مطبع صادق الاخبار بھی تھا ۔عرشی کے مطابق اس ایڈیشن کے اٹھانوے (۹۸) صفحات تھے اور اس میں پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں سولہ (۱۶) اشعار زیادہ تھے۔ گویا غالب نے چھے (۶) سال میں صرف سولہ شعرکہے تھے جن میں چودہ (۱۴) اشعار کی ایک غزل اور دو(۲) شعر کا بیسنی روٹی والا قطعہ شامل ہے اور یوں یہ تعداد گیارہ سو نو (۱۰۹،۱) ہوگئی ۔لیکن مالک رام نے یہ تعداد گیارہ سو گیارہ (۱۱۱،۱)بتائی تھی ۔
۳۔ تیسرا ایڈیشن ۱۸۶۱ء: میں مطبع احمدی( دہلی) سے چھپا، اٹھاسی (۸۸)صفحات پر مبنی تھااور اس میں سترہ سو چھیانوے (۱۷۹۶) اشعار تھے اور اس تعداد پر عرشی اور کالی داس گپتا رضا دونوں متفق ہیں۔
۴۔ چوتھا ایڈیشن ۱۸۶۲ء: میں مطبع نظامی( کان پور) نے طبع کیا۔اس کے ایک سو چار (۱۰۴) صفحات تھے اور اس میں اٹھارہ سو دو (۱۸۰۲) اشعار تھے۔اس تعداد پر بھی اختلاف نہیں ہے۔
۵۔پانچواں ایڈیشن ۱۸۶۳ء: میں مطبع مفید خلائق( آگرہ) سے شائع ہوا۔اس میں اشعار کی تعداد سترہ سو پچانوے (۱۷۹۵) ہے۔اس تعداد پر بھی عرشی اور رضا متفق ہیں ۔ غالب کی زندگی میںدیوانِ غالب کی اس آخری اشاعت (۱۸۶۳ء) کی ترتیب باقی اشاعتوں سے یوں مختلف ہے کہ اس میں غزلیات کی بجاے قطعات سے ابتدا ہوتی ہے اورمثنوی اور قصائد کے بعد غزلیں اور رباعیاں درج کی گئی ہیں ۔
٭ …دیوانِ غالب کی تدوین و ترتیب :
مختلف اہل علم نے دیوان ِ غالب کی تدوین و ترتیب کا کام کیا۔غالب کا کلام ان کی وفات کے بہت عرصے بعد تک دریافت ہوتا رہااور یہ نو دریافت کلام مختلف جرائد یا تحقیقی مطبوعات میں شائع ہوتا رہا۔ لیکن چونکہ مختلف قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے اور غالب نے کچھ اشعار منسوخ بھی کردیے تھے لہٰذا دیوانِ غالب کے مرتبہ و مدوّنہ مختلف نسخوں کی کیفیت بھی مختلف ہے۔ ان میں سے چند معروف نسخوں کا حال پیش کیا جاتا ہے۔
نسخہ ٔ حمیدیہ مرتبہ مفتی انوا ر الحق(۱۹۲۱ء)
اسے مفتی انوارالحق ( جو بھوپال میں محکمۂ تعلیم کے ناظم اور عبداللہ ٹونکی کے صاحب زادے تھے )نے مرتب کرکے ۱۹۲۱ء میں بھوپال سے ’’دیوانِ غالب المعروف بہ نسخہ ٔ حمیدیہ‘‘کے نام سے شائع کیا۔اس کی بنیاد وہ قلمی نسخہ ہے جو نسخہ ٔ بھوپال یا نسخۂ فوج دار خاں کہلاتا ہے۔ یہ نواب حمیداللہ خاںکے نام سے منسوب کیا گیا ۔
اس کی تعریف بھی ہوئی اور اس پر بعض اعتراضات بھی ہوئے ، مثلاً شیخ محمد اکرام نے لکھا ہے کہ دیوان ِ غالب کی تاریخی ترتیب میں سب سے پہلاقدم مفتی انوار الحق نے اٹھایا جب انھوں نے نسخۂ حمیدیہ میں غالب کے وہ اشعار الگ کرلیے جو پچیس برس کی عمر سے پہلے غالب نے کہے تھے لیکن مفتی صاحب کے نسخۂ حمیدیہ میں احتیاط کے باوجود غلطیاں ہیں اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مطبوعہ کتاب ہوبہو قلمی نسخے کی نقل ہے ۔
پروفیسر حمید احمد خان (سابق شیخ الجامعہ، پنجاب یونی ورسٹی ، لاہور)نے اس نسخے کو دوبارہ مرتب کرکے شائع کیا اور مفتی انوار الحق کے نسخے پر کچھ اعتراضات کیے ، مثلاًیہ کہ مفتی صاحب نے قلمی نسخے سے صحیح نقل نہیں کی اور بقول ان کے سب سے بڑی قباحت یہ ہوئی کہ مفتی صاحب نے حاشیے اور متن کے درمیان امتیاز نہیں رکھا ۔
نسخے کی تدوین کے لیے عبدالرحمٰن بجنوری نے ایک مجوزہ نقشہ بنایا تھا لیکن ان کے اچانک انتقال سے تدوین کا کام مجوزہ منصوبے کے مطابق نہ ہوسکا ۔ انوار الحق عدیم الفرصت انسان تھے اور اس کام کے لیے، جس جگرکاوی کی ضرورت تھی وہ اس کے لیے وقت نہیں نکال سکتے تھے، نتیجہ یہ کہ وہ متن پر صحیح توجہ نہ دے سکے بلکہ متن کی ترتیب بھی ملحوظ نہ رکھ سکے۔
مرقع ِ چغتائی :دیوانِ غالب (مصوَّر) (۱۹۲۸ء )
معروف مصوِّرعبدالرحمٰن کی بنائی ہوئی تصاویر اس میں شامل ہیں ۔ جہاںگیر بک (لاہور) نے ۱۹۲۸ء میں شائع کیا۔ اس کے دوسرے ایڈیشن بھی بعدازاں شائع ہوئے ۔
انتخاب ِ غالب (۱۹۴۲ء)
امتیاز علی عرشی کا مرتبہ انتخاب ِ غالب رام پور سے ۱۹۴۲ء میں شائع ہوا، جس کے بعد احباب نے ان سے فرمائش کی کہ مکمل دیوانِ غالب مرتب کیا جائے۔
ارمغانِ غالب(۱۹۴۴ء)
شیخ محمد اکرام نے بھی غالب کے اردو اور فارسی اشعار کو بھی تاریخ وار مرتب کیا اور اپنی کتاب’’ غالب نامہ‘‘ کے جزو کی حیثیت سے پیش کیاجس کی پہلی اشاعت ۱۹۳۶ء میں ہوئی۔کتاب کی دوسری اشاعت (۱۹۳۹ء) میں کچھ اصلاح کی گئی اور بعد ازاں انھوں نے تاریخی ترتیب پر مرتب کیے گئے کلام ِ غالب (اردو اورفارسی )کو الگ سے ’’ارمغانِ غالب ‘‘کے نام سے شائع کیا ۔یہ ’’غالب نامہ‘‘ سے یوں مختلف ہے کہ چند نئی اردو اور فارسی غزلوں کے اضافوں کے علاوہ بیس برسوں کا کلام ِ غالب تین جزوی ادوار میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
نسخہ ٔ عرشی (۱۹۵۸ء)
ہندوستان میں امتیاز علی خاں عرشی نے محنت ِ شاقہ کے بعد ۱۹۵۸ء میں دیوانِ غالب پیش کیا جو اب تک دیوان غالب کا مستند ترین نسخہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا۔پاکستان میں مجلس ترقی ٔ ادب (لاہور) نے ۱۹۹۲ء میں شائع کیا اور ۲۰۰۸ء میں مجلس سے اس کی دوسری طباعت عمل میں آئی۔ عرشی صاحب نے اسے چار حصوں میںتقسیم کیاجن کی تفصیل یہ ہے:
پہلا حصہ: گنجینۂ معنی کے نا م سے ہے اور اس میں وہ تمام اشعار ہیں جو نسخۂ بھوپا ل اور نسخہ ٔ شیرانی میں تھے، مگر غالب نے انھیں ۱۸۳۳ء کے مرتب کیے ہوئے دیوان سے خارج کردیا تھا۔ دوسرا حصہ: یہ نواے سروش کے نام سے ہے۔اس حصے میں وہ کلام ہے جو غالب نے اپنی زندگی میں لکھو اکراور چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ یہی غالب کا متداول دیوان بھی ہے۔ تیسرا حصہ: یادگارِ نالہ کے عنوان سے ہے اور اس میں کلام ہے جو بعض نسخوں کے حاشیوں یا خاتمے یا ان کے خطوط یا کسی اور کی بیاض میں پایا گیا۔ یہ کلام اخبارات و رسائل میں شائع بھی ہوچکا تھا۔چوتھا حصہ: اس کانام باد آورد ہے اور اس میں نسخہ ٔعرشی زادہ کے ذریعے دریافت کیا گیا کلام ہے۔ بقول عرشی کے، اگر یہ پہلے دریافت ہوگیا ہوتا تو گنجینۂ معنی کا حصہ ہوتا۔
نسخۂ عرشی یقینا ایک قابلِ قدر کام ہے لیکن اس پر بعض محققین نے اعتراضات بھی کیے۔ایک عمومی اعتراض تو یہ ہے کہ کلام ِ غالب کو چار حصوں میں تقسیم کرنے سے عام قاری کو الجھن ہوتی ہے اور اسے ایک ہی غزل کو مکمل طور پر پڑھنے کے لیے تمام حصے دیکھنے پڑتے ہیں۔ لیکن یہ رائے عرشی کے اس اہم کام کی کما حقہ قدر پیمائی نہ کرسکنے کی مثال ہے ۔عرشی نے اردو تدوین میں حزم و احتیا ط کی نئی مثال قائم کی اور محققین کے لیے آسانی پیدا کردی ۔ اس اہم علمی اور تحقیقی کا م کا مقصد ’’عام قاری‘‘ کے لیے نسخہ مہیا کرنا نہیں تھا کیونکہ ایسے نسخوں تو بیسیوں ناشرین نے تجارتی مقاصد کے تحت چھاپ رکھے تھے ۔ یہ کام عرشی صاحب نے محققین کے لیے کیا تھا۔
ایک اور اعتراض جو نسخۂ عرشی پر کیا جاتا ہے ،اور جو بجا ہے ،یہ ہے کہ اس کے پہلے ایڈیشن میں عرشی نے’’یاد گارِ نالہ‘‘ کے حصے میں ’’غالب ‘‘کا وہ نام نہادکلام بھی شامل کرلیا تھا جو عبدالباری آسی نے خود کہہ کر غالب کے نام سے مشتہر کردیا تھا۔جلیل قدوائی نے اس جعلی کلام کی تفصیل بیان کی ہے ۔ اس جعلی کلام کو عرشی نے دوسرے ایڈیشن سے خارج کردیا تھا ۔ البتہ تدوین ِ متن کے اصولوں کے لحاظ سے تنقید کی جائے تو کمال احمد صدیقی اور مالک رام کا یہ اعتراض درست معلوم ہوتا ہے کہ عرشی نے نسخہ ٔ رام پور جدید کو بطور اساسی متن استعمال کیا حالانکہ تحقیق کے اصولوں کے مطابق مصنف یا شاعر کی زندگی میں شائع ہونے والے اس آخری نسخے کو بنیاد بنانا چاہیے ،جس پر مصنف یا شاعر کی تصحیح و اضافہ موجود ہو۔
لہٰذا اس کی بنیاد ۱۸۶۲ء کے مطبع ِ نظامی کے نسخے (یعنی چوتھے ایڈیشن )پر رکھنی چاہیے تھی کیونکہ غالب نے اس پر نظرِ ثانی اور تصحیح کی تھی ۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ عرشی نے ہر جگہ نسخہ ٔ شیرانی کی قرأت کو ترجیح نہیں دی۔بقول کمال احمدصدیقی تدوینِ متن کا اصول یہ نہیں ہوتا کہ مدوّن کو کون سا مصرع اچھا لگتا ہے بلکہ اصول یہ ہے کہ شاعر نے خود کس مصرعے کے کس متن کو آخری یا حتمی قرأ ت قرار دیا ہے۔
نسخۂ عرشی نہ صرف غالب کے کلام کے مستند ترین اور محقَّق ترین نسخوں میں سے ہے بلکہ بعض کمیوںکے باوجودیہ تدوین ِ متن کے عمدہ ترین نمونوں میں سے بھی ہے۔ اس میں غالب کا متداول اور منتشر کلام یک جا ہوگیا ہے۔ کمال احمد صدیقی نے بھی تمام تر تنقید کے بعد لکھا ہے کہ دیوانِ غالب نسخہ ٔ عرشی بہرحال امتیاز علی خاں عرشی کا ایسا کارنامہ ہے کہ اس کی وجہ سے عرشی صاحب کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا۔
گیان چند جیسے محقق نے کہا کہ ’’ معیار ِ ترتیب ‘‘کے لحاظ سے نسخہ ٔ عرشی کو’’ سب سے اوپر ‘‘رکھا جائے گا اورمزید لکھا کہ اس کی وجہ سے کئی اہم امور طے پاگئے مثلاً: ایک،غالب کا تمام کلام یکجا ہوگیا۔ دو،اس کی تاریخی ترتیب سامنے آگئی۔ تین، مختلف ایڈیشنوں سے صحیح ترین متن پیش کیا گیا ۔ چار، اختلاف ِ نسخ بھی بڑی خوبی سے واضح ہوگیا، اور پانچ، عرشی کے بیش بہا مقدمے نے اہم معلومات بھی فراہم کردی ہیں۔
نسخہ ٔ حمیدیہ مرتبہ حمید احمد خان(۱۹۶۹ء)
شیخ الجامعہ پروفیسر حمید احمد خان ۱۹۳۸ ء میں بھوپال گئے اور نسخۂ حمیدیہ مرتبہ مفتی انوارالحق کا موازنہ اصل قلمی نسخے سے کیا تو اس میں کئی انحرفات ا ور اختلافات سامنے آئے۔ حمید احمد خان نے نوٹس تو لے لیے لیکن اس نسخے کی تدوین و اشاعت ۱۹۶۹ء میں ہوئی یعنی کوئی اکتیس برس کے بعداور ظاہر ہے کہ اس وقت اصل نسخہ ان کے سامنے نہیں تھا۔ لہٰذا انھیں دیوانِ غالب نسخۂ عرشی اور اور نسخۂ شیرانی سے مدد لینی پڑی۔ اسی لیے بعض محققین کے خیال میں نسخہ ٔ حمیدیہ کا متن مکمل طور پر مستند نہیں ہے، اگرچہ یہ اہم نسخوں میں شامل ہے۔
نسخہ ٔ خواجہ (۱۹۹۸ء) اسے معین الرحمٰن نے مرتب کرکے لاہور سے ۱۹۹۸ء میں شائع کرایا اور اس کے بعد ایک ہنگامہ گرم ہوا۔معین صاحب کا کہنا تھا کہ دیوانِ غالب کا ایک قلمی نسخہ انھیں ملا جو بڑی حد تک نسخہ ٔ لاہور سے مماثل تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ نسخۂ لاہور اور نسخہ ٔ خواجہ دونوں ایک ہی قلمی نسخے کی بنیاد پر کتابت کیے گئے ہوں گے جس کی وجہ سے ان میں بہت مماثلت ہے۔
لیکن ان کے ان دعووں سے اہل علم کو شدید اختلاف ہوا۔ رشید حسن خاں نے کہا کہ’’ اسے نسخہ خواجہ کہنے کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔ تحسین فراقی کے مطابق یہ دراصل نسخہ ٔ لاہور ہی تھا جو پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے غائب ہوگیا تھا اور معین الرحمٰن کو کہیں سے دست یاب ہوگیا تھا ۔ تحسین فراقی نے بہت باریک بینی سے اس کا جائزہ لے کر تفصیلی شواہد کی مدد سے ثابت کیا کہ دراصل یہ ایک طرح کی جعل سازی تھی۔ سید معین الرحمٰن نے اس کا جواب ’’دیوان غالب : نسخہ خواجہ‘‘ کے نام سے لکھا لیکن بقول ِلطیف الزماں خاں فراقی صاحب کے اٹھائے ہوئے ایک سوال کا بھی معین الرحمٰن جواب نہ دے سکے ۔