• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گڈ گورننس کیلئے وزیراعلیٰ محمود خان کو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے

خیبرپختونخوا میں سیاسی ہلچل کے بعد معاملات وقتی طور پر دب گئے ہیں لیکن محمود خان پر شدید دبائو ہے انھیں اپنی حکومت کی کارکردگی کو مزید بہتر بنا نا پڑے گا ورنہ وزیراعظم عمران خان وزیراعلی محمود خان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔عمران خان نے وزیر اعلی کو دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو انہیں کوئی بڑا قدم اٹھانا پڑے گا ۔ عمران خان کوتینوں وزراء کے خلاف سازش میں ملوث بعض سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی کارستانیوں کا بھی علم ہوچکا ہےجنہوں نے وزیراعظم کو مبینہ طورپر غلط اطلاعات اور رپورٹس بھجواکر انہیں انتہائی اقدام پر مجبورکیا ۔

عمران خان نے برطرف وزراء کو بھی اصولی طورپر بحال کرنے کافیصلہ سنا یاہے اور انہیں بھی ایک ٹیم کے طور پر کام کرنے کی ہدایت کی ہے تینوں برطرف وزراء چند روز میں دوبارہ حکومت کا حصہ ہوں گے ۔خیبرپختونخوا کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک حکومت کے پانچ وزراء نے صوبے میں کرپشن ، کمیشن اور رشوت کے سنگین الزامات عائد کئے ماضی میں اراکین صوبائی اسمبلی حکومت سے ناراض ہوکر الزامات لگاتے تھے لیکن پہلی مرتبہ صوبائی وزراء میدان میں آئے ہیں۔ حکومت شدید الزامات کومسترد کرتے ہوئے اختلافات کی خبروں کو من گھڑت قرار دیتی رہی لیکن اختلافات کھل کر سامنے آگئے جس کے بعد وزیراعظم کو مداخلت کرنا پڑی۔

عمران خان نے وزراء کی شکایات کو سننے کی بجائے انھیں غلط معلومات اور رپورٹس کی روشنی میں فارغ کرنے کا فیصلہ کرکے پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو مایوس کیا ہےکیونکہ عمران خان نےہی انھیں کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کرنےکا شعور اور حوصلہ دیا تھا ۔وزراء نے کرپشن اور کمیشن میں اضافے کی شکایات کیں تو الٹا انھیں ہی مورد الزام ٹھرادیا گیا ۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ محمود خان شریف النفس اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں لیکن حکومت چلانے کے لئے قابلیت کے ساتھ ساتھ اہلیت اوربروقت فیصلہ سازی کی ضرورت پڑتی ہے۔

حکومت صرف وزیر اعلی ہی نہیں چلاتا بلکہ ایک ٹیم کے ذریعے حکومتی معاملات کو چلایا جاتا ہے ۔محمود خان صوبے کے بے اختیار وزیر اعلیٰ ہیں جن کے پاس اختیارات نہیں بلکہ صوبے کے معاملات میں کم ازکم دس افراد کی مداخلت ہے جس کے باعث حکومتی معاملات متاثر ہورہے ہیں ۔وفاق سے پرویز خٹک،اسد قیصر، جہانگیر ترین، ارباب شہراز اور مراد سعید براہ راست مداخلت کرتے ہیں ۔صوبے میں تمام بیورو کریٹس کی تقرریاں اور تبادلے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی مرضی سے ہوتے ہیں اعظم خان کی منشا ء کے بغیر صوبے میں کسی اہم عہدے پر تعیناتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسی بنا پر صوبے میں اعظم گروپ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔بیوروکریٹس بھی پریشان ہیں کہ کس کی بات کو حتمی تصور کیا جائے ۔ صوبے میں بھی گورنر شاہ فرمان اور بعض دیگر افراد کی بھی مداخلت ہوتی رہتی ہے ۔

بعض وزراء عمران خان کی قربت کے باعث کسی کو گھاس نہیں ڈالتے ان حالات میں محمود خان حکومت چلارہے ہیں ۔عمران خان نے جان بوجھ کر پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی کمزور سیاسی شخصیت کا انتخاب کیا اور اسکو صوبے کی باگ دوڑ سونپ کر گورننس کا بیڑا غرق کردیا۔ صوبے میں پرویز خٹک کی حکومت کے دوران نچلی سطح پر معاملات بہتر ہوئے تھے لیکن موجودہ دور میں ناقص طر ز حکمرانی کا بوجھ عوام کے کندھوں پر آن پڑا ہے ۔پرویز خٹک دور میں کرپشن کے دو تین میگا کیس منظر عام پر آئے تھے لیکن موجود ہ حکومت کے ڈیڑھ سال میں عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ۔

محمود خان کے حوالے سے وزراء اور بیوروکریٹس کو گلہ ہےکہ ان میں فیصلہ سازی کا فقدان ہے اور کوئی فیصلہ نہیں لے پاتے انھیں عمران خان سے ہر کام کی اجازت لینا ہوتی ہے ان کے مقابلے میں پرویز خٹک کی حکومت کمزور تھی لیکن وہ بااختیار وزیراعلیٰ تھے اور اپنے فیصلوں پر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے تھے ۔ صوبے میں کرپشن کی بڑھتی ہوئی خبریں تحریک انصاف کے لئے بدنامی کا باعث بن رہی ہیں کمیشن کے ریٹ میں بھی اضافہ ہوچکا ہے جبکہ اب تو تقرریوں اور تبادلوں میں بھی رشوت کی باتیں ہورہی ہیں۔

بعض وزراء کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی لیکن تمام تر شکایات کے باوجود محمود خان نے ان وزراء کے صرف قلمدان تبدیل کئے حالانکہ اگر کوئی وزیر کرپشن میں ملوث ہے تو اسکو فارغ کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح اگر کسی وزیر کی کارکردگی مایوس کن ہے تو نئے محکمے میں بھی اس کی کارکردگی خراب ہی ہوگی البتہ وزیر اعلیٰ محمود خان کا موقف ہے کہ انھوں نے ان وزراء کو ایک اور موقع دیا ہے اگر ان کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو اگلے مرحلے میں انہیں فارغ کردیا جائے گا ۔

حکومتی اراکین کا موقف ہے کہ عمران خان کو صورت حال کا ادراک ہے لیکن وہ کوئی کارروائی نہیں کررہے حالانکہ خفیہ اداروں سے رپورٹس منگوائی جاسکتی ہیں ۔عوام نے تحریک انصاف کو بہترین طرز حکمرانی اور کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے ووٹ دیا تھا لیکن اگر تحریک انصاف نے بھی وہی حرکتیں کرنی ہیں جو ماضی کی حکومتیں کرتی رہی ہیں تو پھر عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔صوبے کے عوام بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح مہنگائی، بےروزگاری،بھاری بلوں اوردیگر مسائل کا شکار ہیں انہیں اگر تھانوں، پٹوار خانوں اور سرکاری دفاتر میں بھی رشوت دینا پڑے تو پھر ناقص طرز حکمرانی کی ذمہ داری براہ راست عمران خان پر عائد ہوگی ۔صوبائی حکومت کو صوبے میں گڈگورننس کو ہر حال میں بہتر بنانا ہوگا اور بڑے فیصلے کرنا ہونگے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے ۔

صوبے کے معاملات کو بہتر بنانے کے لئے محمود خان کو اختیارات کے ساتھ فیصلہ سازی کا عمل تیز کرنا ہوگا صرف بازاروں میں چھاپے مارنے سے حکومتی معاملات بہتر نہیں ہوں گے ۔ صوبے میں نئے پولیس چیف ثناء اللہ عباسی کی تعیناتی سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اب پولیس کے معاملات بھی درست سمت کی جانب بڑھیں گے ۔ ثناء اللہ عباسی نے میرٹ پر ایماندار افسروںکی تعیناتی کا کام شرو ع کردیا ہے جس سے پولیس میں بہتری کی امید کی جارہی ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین