• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

معاشی استحکام کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت ضروری

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے اپنے اقتدارمیں آنے سے پہلے جن ارادوں اور خواہشوںکا اظہار کیاتھا ، معاشی وعدوں کے علا وہ بیشتر ارادے تو تکمیل کی طرف گامزن ہیں جبکہ بعض خواہشیں ابھی ادھوری پڑی ہیں، اقتدار ملنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان سیا ستدانوں کو جیلوں میں بند کر نے کے خواہاں تھے مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ کہا جا تا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے عمران خان ان سیاستدانوں کو اپنے اقتدار میں شریک کر نے پر مجبور ہوگئے اپوزیشن جما عتوں میں آج بھی ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جو وزیر اعظم کی مبینہ جارحانہ سیاست کا ہدف بن سکتے ہیں مگر کیا انہیں اس کا مو قع ملے گا ؟ 

وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی 500 سیا ست دانوں کوجیل بھیجنے کی خواہش ظا ہر کی تھی مگرآئین اور اعلیٰ عدالتیں اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں ، سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف تو تین ماہ کے وقفے سے ہو نے والی سزائوں کی پاداش میں مجو عی طور 80دن کی جیل یاترا کے بعد اعلیٰ عدالت کی ضمانت پر بر طانیہ میں علاج کے عمل سے گذر رہے ہیں جبکہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور قو می اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے علاج کی غرض سے ان کےہمراہ ہی لندن میں ڈاکٹروں سے ملا قاتوں میں مصروف ہیں ،اپوزیشن کی بڑی جما عتوں (ن) لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی پار لیمنٹیر ین کے صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپورسمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی جیا لے نیب اور ایف آئی اے کا ہدف بنے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر سابق وز یر اعظم شاہد خا قان عباسی ساڑھے چھ ماہ سے اڈیالہ سینٹرل جیل کی موت کی چکی میں اپوزیشن کے مزے لوٹ ر ہے ہیں۔ 

جس کو وہ ’’سیاسی انتقام‘‘ کا نام دیتے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکر ٹری جنرل احسن اقبال بھی پابند سلاسل ہیں ان پر سی پیک کے 46 ارب ڈالر کے منصوبوں میں کک بیکس کا تو کو ئی الزام نہیں آیا مگر نارووال اسپورٹس کمپلکس کے منصوبے میں نیب نے انہیں پکڑ رکھا ہے جسے احسن اقبال ’سلیکٹڈ‘ حکومت کے خلاف بو لنے کا ’’جزیہ‘‘ قرار دیتے ہیںتینوں کو پارلیمنٹ کے اندر آکر کھل کر بولنے کا موقع مل جاتاہے تو وہ عمران خان حکومت کی پالیسوں کے پرخچے اد ھیڑنے سے بھی ہرگز گریز نہیں کر تے نواز شریف اورشہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری اور ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی 6 ماہ بعد جیل سے گھر منتقل ہو نے کا موقع ملا عمران خان ان سیاستدانوں کو اپنے اقتدار میں شریک کر نے پر مجبور ہوگئے اپوزیشن جماعتوں میں آج بھی ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جو وزیر اعظم کی جارحانہ سیاست کا ہدف بن سکتے ہیں مگر کیا انہیں اس کا مو قع ملے گا ؟ 

وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی معاشی پالیسوں کے نتیجے میں ملک میں مہنگا ئی سر چڑھ کر بول رہی ہے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے عوام مہنگا ئی اور بے روز گاری سے نالا ں ہیں مولانا فضل الرحمان کراچی سے اسلام آباد دھر نے کے لیے پہنچ گئے مگر دونوں بڑی جما عتوں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے عملاً ان کا ساتھ نہیں دیا اور مولا نافضل الرحمان’ چوہدری برادران‘سے ملنے والی آشیرباد کو ہی کافی سمجھتے ہو ئے دھر نا ختم کر نے پر مجبور ہو گئے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی اب بھی عمران خان حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ ’’فیصلہ سازوں اور پالیسی سازوں کی مر ضی ومنشاء کے بغیر سیا سی تبدیلی کا کو ئی امکان نہیں ‘‘ وفاقی وزرا ء پارلیمنٹرین اور بیورو کریٹس کی طرف سے تنخواہوں میں اضافہ کی بازگشت حکمرانوں کے دفاتر کے بعد پارلیمنٹ کے ایوانوں تک پہنچ چکی ہے۔ 

اضافے کی راہ میں کو ن سی قوتیں رکاوٹ بنتی ہیں زیادہ دیر کی بات نہیں تمام اپوزیشن جماعتیں عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کی خواہاں ہیں مگر صرف دعائوں سے کام چلا رہی ہیں ملک میں آٹے، چینی اور دالوں کی قیمتیں بلند ہو گئی ہیں ڈالر کی قیمت میں ہو نے والے اضافے کی وجہ سے پٹرول،پٹرولیم مصنو عات اور گیس کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے نکل گئی ہیں کم از کم تنخواہ ساڑھے 17 ہزار روپے قرار دی گئی ہے مگر اب اس سے بھی کم تنخواہ پرروز گار میسر نہیں اور یو ں لگتا ہے کہ ملک کی 50فیصد سے زائد آبادی کو ’’پناہ گاہوں‘‘ کا ہی رخ کر نا پڑے گا ۔ معاشی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہوں تب ہی عام آدمی کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین