• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بحری تجارتی بیڑے میں استعمال ہونے والے کنٹینر کو برطانیہ میں اب گھروں کی تعمیر میں بھی استعمال کیا جائے گا۔ برطانیہ کے ایک آرکیٹیکٹ ادارے نے گھروں کی تعمیر کے لیے کنٹینراستعمال کرنے کی اجازت حاصل کرلی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد دوبارہ استعمال ہونے والے مواد کے ذریعے سستے گھروں کی فراہمی ہے۔ اس پروجیکٹ کو ’کارگوٹیکچر‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس پروجیکٹ کے تحت تیار کیے جانے والے ہر گھر کو ’مائیکروہوم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے سامنے کا حصہ باورچی خانے اور بیٹھک کے کمرے جبکہ پچھلا حصہ آرام گاہ اور غسل خانے پر مشتمل ہوگا جبکہ کسی بھی ایک جانب ڈیک بنایا جائے گا۔ کنٹینر کی چھت کو پتھر بیل(سیڈم) نامی پودے سے ڈھانپا جائے گا۔ 

یہ ایک رس بھرا اور کثیر رنگی (زرد، گلابی اور سفید) پودا ہوتا ہے، جس کی جڑیں سطح میں زیادہ نہیں جاتیں اور اسے پانی دینے کی بھی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ اس طرح یہ پودا ’گرین روف‘ کے لیے موزوں تصور کیا جاتا ہے۔ کنٹینر چونکہ سردی اور گرمی، دونوں کو ہی فوری جذب کرلیتا ہے، لہٰذا ہر کنٹینر کی چھت، دیواراورفرش کی انسولیشن کی جائے گی، ساتھ ہی دُہرے شیشے نصب کیے جائیں گے۔

یہ منصوبہ ’سوشل رینٹ‘ کے تحت کیا جارہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ گھر وں کے کرائے مقامی آبادی کی آمدنی اور تعمیراتی لاگت کے تناسب سے مقرر کیے جائیں۔ برطانیہ میں ایسے گھروں کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے، گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایسے مکانات کی تعمیر میں 80فیصد تک کمی آچکی ہے جبکہ 10لاکھ خاندان ایسے گھر کرائے پر حاصل کرنے کے لیے انتظار کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ برطانیہ میں ایسے کم لاگت گھروں کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیوں کہ2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہر 200میں سے ایک برطانوی شہری (تقریباً 3لاکھ 20ہزار افراد) بے گھر ہے۔

برطانیہ میں نجی طور پر کرائے کے لیے دستیاب گھروں کے مقابلے میں سوشل ہاؤسنگ کافی سستی ہے۔ جہاں اوسط درجے کا ایک بیڈ روم پر مشتمل گھر 600پاؤنڈ ماہانہ (تقریباً 730امریکی ڈالر)میں ملتا ہے، وہاں اسی معیار اور حجم کا ایک بیڈ روم والا سوشل رینٹل گھر 300پاؤنڈ (تقریباً 365امریکی ڈالر) میں مل جاتا ہے۔

اسٹیل باکس میں بہتر زندگی

ایک روایتی گھر کی تعمیر کے لیے مزدوروں، کاریگروں اور اس میں استعمال ہونے والے سامان پر آنے والی لاگت کے مقابلے میںسوشل ہاؤسنگ کے لیےکنٹینر ایک پُرکشش تعمیراتی سامان ہے جو کہ سستا بھی ہے۔ تاہم تعمیراتی نوعیت اور رقبے کے لحاظ سے قیمت میں فرق ہوسکتا ہے۔ یہ ماڈیولر، پائیدار اور آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لائے اور لے جائے جاسکتے ہیں۔ مزید برآں، کنٹینرگھر میں اسٹیل کا ضیاع بہت کم ہوتا ہے اور تقریباً ساڑھے تین ہزار کلو گرام اسٹیل ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔

تاہم کنٹینر ہاؤس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ایک زبردست کنڈکٹر ہونے کے باعث، موسم کی مناسبت سے اسٹیل بآسانی اوون یا آئس باکس بن جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ کنٹینر کے پینٹ ، مہر بند حصوں سے نکلنے والا کیمیائی مادہ اور اس میں ماضی میں پہلے لائے لے جانے والے سامان کے ذرات نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

ان سب کے باوجود، برطانیہ میں کنٹینر گھر بہت مقبول ہورہے ہیں۔ برطانیہ کی ایک اور غیرمنافع بخش کمپنی شفیلڈ کے علاقے میں 600کنٹینر گھر بنارہی ہے، جس پر فی گھر لاگت صرف 42ہزار 500ڈالر آنے کا تخمینہ ہے۔ برطانیہ کی ایک اور خیراتی کمپنی نے برسٹل کی مقامی بے گھر آبادی کے لیے کنٹینر گھر تعمیر کیے ہیں۔ 

برطانیہ میں کنٹینر تعمیرات صرف غریب اور بے گھر افراد کو چھت فراہم کرنے کے لیے ہی نہیں کی جارہیں بلکہ لندن میں دنیا کی سب سے بلند شپنگ کنٹینر بلڈنگ بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔ یہ نو منزلہ عمارت عالمی اور خود لندن کے معیار کے مطابق کوئی زیادہ بلند عمارت نہیں ہوگی لیکن اگر اسے کنٹینر سے تعمیر ہونے والی عمارت کے نقطہ سے نظر دیکھا جائے تو ایک بڑی کامیابی نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی استعمال شدہ کنٹینرز کی وجہ سے یہ ماحول دوست بھی ہوگی۔

دنیا میں کیا ہورہا ہے؟

ہرچندکہ برطانیہ میں شپنگ کنٹینرز سے تعمیرہونے والے گھروں کا رجحان فروغ پارہا ہے، دنیا کے دیگر ممالک بھی اس رجحان کو دیکھ اور اپنا رہے ہیں۔ ایمسٹرڈیم میں کئی کنٹینر گھر موجود ہیں، جن میں طلبا کے لیے گھر، اپارٹمنٹ کمپلیکس اور مارکیٹس شامل ہیں۔ کارگوٹیکچر رجحان سے متاثر ہو کر ایک امریکی ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر نے امریکی ریاست جارجیا کے دارالخلافہ اٹلانٹامیں کئی کنٹینر گھر تعمیر کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکساس کے شہر سینٹ انٹونیو میں پوٹیٹ آرکیٹیکٹس نے بھی اپنے ایک کلائنٹ کیلئے شپنگ کنٹینر سے گیسٹ ہاؤس ڈیزائن کیا ہے۔

پاکستان میں حالانکہ ابھی تک کنٹینر گھروں کا رجحان باقاعدہ طور پر متعارف نہیں ہوسکا، تاہم پاکستان میں بھی ہمیں کچھ مقامات پر اِکادُکا ایسے گھر نظر آتے ہیں، جو کنٹینرز سے بنائے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، پاکستان میں اس وقت کم از کم ایک کروڑ گھروں کی قلت ہے۔ ایسے میں تعمیراتی کمپنیاں اور غریب و بےگھر آبادی کو چھت فراہم کرنے کے لیے کام کرنے والے حکومتی ادارے کنٹینر گھر وں کی تعمیر پر غور کرسکتے ہیں۔

کنٹینر گھروں کی عالمی مارکیٹ

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کنٹینر گھروں کی مارکیٹ میں اضافے کا رجحان دیکھا جارہا ہے اور اندازہ ہے کہ 2025ء تک کنٹینر گھروں کی مارکیٹ 6.5فیصد کی شرحِ نمو کے ساتھ 73ارب ڈالر ہوجائے گی۔ اس اضافے کی بنیادی وجوہات میں مختصر مدت میں ان کی تیاری، کم لاگت، گرین کنسٹرکشن کا بڑھتا رجحان اور وسائل کا درست استعمال شامل ہے۔

ان کنٹینر تعمیرات کی ذیلی کیٹیگریوں کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ اضافہ ڈپلیکس اور بنگلو سیگمنٹ میں دیکھا جائے گا جبکہ کنٹینرز سے بنی کثیرالمنزلہ عمارت یا کنٹینر اپارٹمنٹ کی مارکیٹ بھی بتدریج اضافے کے رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

مزید برآں، اگر خطوں کی بات کی جائے تو کنٹینر گھروں کی تعمیر کا سب سے زیادہ رجحان ایشیا پیسیفک میں دیکھا جائے گا، جہاں اس کی شرحِ نمو عالمی اوسط شرحِ نمو (6.5فیصد) کے مقابلے میں سب سے زیادہ یعنی 7.5فیصد رہے گی، جس کی سب سے بڑی وجہ شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔

تازہ ترین