چین میں کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز سامنے آنے کے بعد سے اب تک چینی قوم نے جس عزم کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ چین میں اپنے قیام کے دوران میں نے چینی لوگوں کو کامیابیوں کا جشن مناتے اور نئی کامیابیاں رقم کرنے کا عزم کرتے دیکھا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ میں چینی قوم کو براہِ راست ایک قدرتی آفت کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اس مشکل گھڑی میں پوری قوم اپنی قیادت کی سرپرستی میں متحد اور پُرعزم دکھائی دے رہی ہے۔ اس وبا کے منظر عام پر آتے ہی چین کے صدر مملکت شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کی چیانگ سمیت تمام اعلیٰ حکومتی عہدیداران میدانِ عمل میں اترے اور صورتحال پر قابو پانے میں مصروف ہو گئے۔ انتہائی مختصر وقت میں کرونا وائرس کی تشخیص کر لی گئی، احتیاطی تدابیر بالکل واضح کر دی گئیں، وبا کا مرکز بننے والے صوبے ووہان کو مکمل طور پر لاک ڈائون کر دیا گیا، امدادی اور حفاظتی سامان کی تیاری جنگی بنیادوں پر شروع کر دی گئی۔ چینی حکومت کی جانب سے اختیار کیے جانے والے مثبت لیکن مشکل اقدامات میں سے ایک ووہان شہر میں دو نئے اسپتالوں کی تعمیر بھی تھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ووہان شہر اس وائرس کا مرکز ہے، دو اسپتالوں کی تعمیر کو عملی شکل دینا یقیناً ایک مشکل کام تھا لیکن چینی روح نے اس تصور کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ دونوں اسپتال کام شروع کر چکے ہیں۔ ہوشن شان اسپتال کو پیپلز لیبریشن آرمی کے14سو اہلکاروں پر مشتمل طبی عملہ چلا رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وبائی امراض پر قابو پانے، خصوصاً وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں کے کنٹرول کے ماہر ہیں۔ انہیں سخت حالات میں کام کرنے کا تجربہ ہے۔ اس سے قبل یہ مئی 2008 میں صوبہ سیچوان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے دوران خدمات انجام دے چکے ہیں اور2003 میں سارس وائرس کے پھیلائو کے وقت بھی قوم کی خدمت کر چکے ہیں۔ انہیں مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس سے پھیلنے والی وبا کے خلاف کام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔ نو تعمیر شدہ ہوشن شان اسپتال کا فلور ایریا 34ہزار مربع میٹر ہے۔ یہ اسپتال تشخیصی کلینک نہیں بلکہ براہِ راست ان مریضوں کا علاج کرتا ہے جن میں نیو کرونا وائرس انفیکشن کی تصدیق ہو چکی ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیجنگ کے ژیاٹانگ شان اسپتال کا عکس ہے جو اپریل2003 میں بیجنگ کے مضافاتی علاقے میں سارس وائرس کے پھیلائو کے دوران سات دن کی ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد خصوصی طور پر سارس کے مریضوں کا علاج کرنا تھا اور اس نے مہلک بیماری کی روک تھام اور ان کے کنٹرول میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کرونا وائرس کے خلاف لڑنے کیلئے 25جنوری کو ہوشن شان اسپتال کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کیا گیا تھا۔ اس اسپتال کی اتنی جلدی تعمیر تین شفٹوں میں چوبیس گھنٹے کام کرنے والے سات ہزار مزدوروں اور تقریباً ایک ہزار تعمیراتی مشینوں اور ٹرکوں کی مدد سے ممکن ہوئی ہے۔ کرونا وائرس کیلئے ووہان میں تعمیر ہونے والے دوسرے خصوصی اسپتال کا نام لیئی شن شان اسپتال ہے۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے ان دونوں منصوبوں پر تعمیراتی عمل کو پہلے دن سے ہی لائیو اسٹریم کیا جا رہا ہے۔ چین کے شہری روزانہ لاکھوں کی تعداد اس تعمیراتی عمل کا براہِ راست مشاہدہ کرتے رہے اور کام میں مصروف کارکنوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ آج چینی قوم انسانیت کی جانب سے کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں محاذ پر ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ چینی اپنے عمل سے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ان میں جو اعتماد اور ہمت ہے وہ وائرس سے لڑنے کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)