• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برطانوی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ایک سوال ان دنوں اکثر و بیشتر پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ٹوریز مسلسل کیوں جیت رہے ہیں ؟ آخر اس پارٹی میں وہ کیا بات ہے ، کیا کشش اور جاذبیت ہے کہ کامیابی مسلسل اس کے قدم چوم رہی ہے؟ حالانکہ صرف ایک ایشو بریگزٹ کو ہی اگر دیکھا جائے تو بادی النظر میں کنزرویٹیو یعنی ٹوریز کی ناکامیاں ہر خاص و عام پر واضح تھیں ۔ مگر ووٹ پھر بھی بھاری اکثریت سے اسی جماعت کو پڑے۔ آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب اپنے اندر کئی جہتیں اور تہیں سموئے ہوئے ہیں ۔ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ایک تو برٹش پولیٹیکل کمپاس ، برٹش پولیٹکل کیمسٹری ، سیاسی ہیت ترکیبی اجزاء کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ دوسرا اسی سے یہ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ووٹرز ، رائے دہندگان پر موجود حالات اثر انداز ہوتے ہیں یعنی جو کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو سیاست میں بھی ووٹرز درپیش حالات کے مطابق اپنا رستہ متعین کرتے ہیں۔ ورنہ الفاظ کے ہیر پھیرشخصیت لیڈرشپ کا سحر ، جاذب نظری ، الفاظ کا جادو ایک حد تک ہی رائے دہندگان کو متاثر کرتا ہے اصل نقطہ یہ ہے کہ ووٹرز اپنے مفادات دیکھتا ہے۔ ہر سٹیک ہولڈر اپنے حالات کے مطابق ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ سو، برطانوی سیاسی کمپاس، قطب نما ( قطب نما، سمتوں کے تعین کرنے والا آلہ ہوتا ہے) برطانیہ میں لوگوں کی رائے ، سمتوں کو متعین کرنے میں مختلف جماعتوں کے مختلف طرح کے نظریات: کمیونزم، سوشل ازم ، کیپیٹل ازم ، لیفٹ ازم، رائٹ ازم، سنٹرل ازم ، معیشت کا فوکس ، توجہ کا مرکز کمیونٹی ایک وسیع معاشرہ ہو یا ایک فرد ، یعنی اکنامک فوکس آن کمیونٹی ہو یا اکنامک فوکس ایک فرد واحد ، یہ مختلف عوامل کارفرما رہے ہیں۔ برطانیہ میں الیکٹرول سسٹم فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ Fist Past the post کہلاتا ہے،جس کا مطلب ہے کہ ملک 650 انتخابی حلقوں میں تقسیم ہے۔ہر حلقہ انتخاب اپنا ایک ممبر پار لیمنٹ( ایم پی )کا انتخاب کرتا ہے جو اس حلقے کی نمائندگی کرتا ہے۔اگرکوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر وہ حکومت سازی کرتی ہے، فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ کا میجک نمبر 326 ہے کو دستیاب نشستوں کی اکثریتی تعداد ہے اگر کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہیں مل پاتی تو پھر وہ کسی اور جماعت کے ساتھ اشتراک کرکے مخلوط گورنمنٹ بنا سکتی ہے،جیسا کہ 2010 میں کنزرویٹیو اور لبرل ڈیموکریٹ کی مخلوط حکومت بنی، یا 2018 میں کنزرویٹیو اور ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی (ڈی یو پی ) کی حکومت بنی۔ کنزرویٹیو اور لیبر برطانیہ کی مین پولیٹکل پارٹیاں ہیں۔متعدد دیگر چھوٹی پارٹیاں بھی پارلیمان میں موجود ہیں ، جن میں لبرل ڈیمو کریٹ، سکاٹش نیشنل پارٹی اور ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی شامل ہیں، کنزرویٹیو پارٹی کی تشکیل 1834 میں کی گئی لیکن اس کی جڑیں 1678 تک تلاش کی جاسکتی ہیں کنزرویٹیو سنٹرل رائٹ پارٹی ہے۔ اس سارے پراسیس کو سمجھنے کے لیے بیسویں صدی کے پہلے نصف کے بعض واقعات اور عوامل کا جاننا ازحد ضروری ہے، جیسا کہ جنگ عظیم اوّل ، جنگ عظیم دوم، ورکرز رائٹس احتجاج workers rights protests ، دی گریٹ ڈی پریشن the Great Depression، وومن سرفیج women surffarage شامل ہیں۔ اس وقت تو جو موومنٹس، تحاریک Movements چلیں۔ پھر آپ ان چند عوامل پر غور کر لیں جنہوں نے ماضی میں ورکنگ کلاس پیپلز کے دلوں میں لیبر پارٹی کی ضرورت کو اجاگر کیا: یعنی حالات کچھ یوں تھے۔ لیبر پارٹی کے بننے میں لوگوں کی ان سوچوں نے مدد دی : Working hours are brutally long کام کے طویل اوقات کار، برطانیہ میں ایک وقت تھا جب کام کے طویل اوقات کار long working hours کے باعث ورکنگ کلاس لوگوں کے پاس وقت نہیں بچتا تھا کہ وہ اپنی فیملیز خاندان بچوں کے ساتھ بھی کچھ لمحات گزار سکیں۔ بچوں کو پروان ہوتا نہ دیکھ سکیں، ان کو سپروائزر، نگرانی نہ کرسکیں، اس بات کا بھی یقین نہ ہو کہ ان کے بچوں کو صحیح کھانا بھی مل رہا۔ ہے کہ نہیں۔ آپ یقینی طور پر ان حالات میں اچھا محسوس نہیں کریں گے کیونکہ آپ اپنے کنبہ کو وہ کچھ نہیں دے سکتے جن کے وہ حق دار ہوں ۔ Women are not treated equally خواتین کے حقوق، مثال کے طور پر پہلے پہل عورتوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا، اس دور میں خواتین کے احساسات کچھ یوں تھے کہ وہ اپنے آپ کو فری خیال نہیں کرتیں ، ہم اگرچہ سوسائٹی میں بہت کنٹری بیوٹ کرتی ہیں مگر ہمیں اتنی چوائیسیز حاصل نہیں ہیں ۔ The class system دی کلاس سسٹم، مواقع کے اعتبار سے معاشرہ وسیع طور پر درجہ بندی کا شکار ہے، امیر غریبوں کی نسبت زیادہ مواقع پاتے ہیں ۔ لوگوں کو مسلسل ان کے بیک گراونڈ کی بنیاد پر جج کیا جاتا ہے، جانچا اور پرکھا جاتا ہے، نتیجہ کے طور پر امیر زیادہ مواقع حاصل کر لیتے ہیں ۔ ان کو غریبوں پر ہمیشہ برتری رہتی ہے۔ The rich continue to grow richer but the poor remain poor غریب غریب ہی رہتے ہیں، یعنی اگر آپ امیر ہیں تو آپ کو تنخواہ زیادہ ملے گی، اور آپ دولت کا زیادہ شئیر share لے لیتے ہیں، جبکہ نادار اور غریب اپنے جائز حصے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ ویلفئیر سسٹم، کوئی ویلفئیر سٹیٹ نہیں جو ضرورت مند ہیں، چاہے بے روزگار ہیں، بیمار ہیں، مفلس بھی ہیں، مگر ملازمت کے بغیر آپ کو نہ رہنے کا ٹھکانہ میسر ہے اور نہ خوراک گورنمنٹ ورکنگ کلاس لوگوں کی ہیلپ مدد help نہیں کر رہی ، اس لیے اگر آپ نے ملازمت بھی کھو دی چاہے اس کی کتنی ہی سخت شرائط کیوں نہ ہوں آپ معاشرہ پر بوجھ تصور ہوتے ہیں یہ اور اس طرح کے کئی دیگر پیچیدہ حالات تھے جب لیبر ہارٹی کی تشکیل کی ضرورت سمجھی گئی۔ لوگوں میں یہ احساس شدت سے اجاگر ہوتا گیا کہ سرمایہ دارانہ نظام ان کے لیے کام نہیں کر رہا تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں لیبر جیتی، پھر نیو لیبر کی بھی اس نے شکل اپنائی اس وقت تارکین وطن کو بھی اجتماعی طور پر اپنا فائدہ لیبر پارٹی میں دکھائی دیتا تھا۔ لیکن اب حالات خاصے بدل چکے ہیں اب عام برطانوی تو رہنے دیں تارکین وطن کابھی اب ایک حصہ ایسا ہے جو معاشی طور پر آسودہ حال ہے اس کو اپنے کاروباری مفادات ٹوریز میں محفوظ خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ لیبر پارٹی کی سیاست ہمیشہ لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے رہی ہے، یعنی ماضی میں چاہے خواتین کو مساوی مواقع دلانا ہوں، غریبوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہو، امیگریشن کی ناانصافی ہو رہی ہو۔ ورکرز کے فیکٹری مالکان کے ساتھ تنخواہوں پنشن اور دیگر مراعات کے معامالات ہوں آپ کو لیبر پارٹی اور اس کی یونینز جدوجہد کرتی دکھائی دیں گے۔ گویا یہ پارٹی عام لوگوں کی آواز رہی ہے۔ اس پارٹی نے بلا مبالغہ عام لوگوں کے معیار زندگی بلند کرنے کے لیے برطانیہ کا بین الااقوامی معیار بنانے کے لیے بھی طویل لڑائی لڑی۔ لیبر نے اسی تناظر میں اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ لیبر کو اپنی درخشاں تاریخ پر فخر ہے این ایچ ایس قومی محمکہ صحت سے لے کر ویلفیئر سٹیٹ کی تخلیق تشکیلی تک لیبر پارٹی کا ہی اعجاز ہے اس پارٹی نے صرف چند لوگوں ہی نہیں کروڑ ہا لوگوں کی زندگیاں بدلنے میں اہم رول ادا کیا، خلاصہ ،لیبر پارٹی کی 1900 میں ایک نئی پارٹی گویا ایک ایک نئے ملک کے لیے بنی۔ اس کی بنیاد ورکنگ کلاس لوگوں کی سال ہا سال کی جدوجہد کا ثمر تھا۔ سوشلسٹ آوازیں، ٹریڈ یونینز کی مساعی نے لیبر پارٹی کو ماضی میں پارلیمان میں نمائندہ جماعت بتایا تاہم آج پارٹی کو آج کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ قوی خدشات ہیں کہ برطانیہ میں ماضی کی طرح پھر کلاس درجہ بندی گہری نہ ہو جائے۔ اسی طرح سنٹر کی دعویدار لب ڈیم کو بھی اپنی ازسرنو تنظیم اور شیرازہ بندی کی ضرورت ہے ورنہ اگر ٹوریز کو اسی طرح کھلی چھٹی ملی رہی تو پھر ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور منہدم ہونے کے خدشات خارج از امکان نہیں ہیں۔
تازہ ترین