وزیراعظم کہتے ہیں مافیا کو نہیں چھوڑوں گا اور مہنگائی کو کم کرکے ذمہ داروں کےخلاف کارروائی کروں گا مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے اور کب کریں گے؟
حالت یہ ہے کہ کوئی وزیر یا مشیر موجودہ بدترین معاشی حالات کی اصل وجوہات اور ذمہ داروں کے بارے میں سچ بولنے کو تیار نہیں، گندم، آٹا اور چینی سمیت بنیادی اشیائے ضرورت سے عوام کو محروم کرنیوالے ظالم مافیا اور کارٹلز کا نام تک لینے کو تیار نہیں۔
وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور کابینہ ارکان مافیا کے ہاتھوں بلیک میل اور مجبور ہونے کا اظہار تو کرتے ہیں ان کی نشاندہی کرکے پکڑتے نہیں۔ سوال صرف ایک ہے کہ آٹا گندم اور چینی کی وافر پیداوار کے باوجود آٹے اور چینی کابحران کیوں پیدا ہوا؟ وزیراعظم خود بھی سمجھ چکے ہیں کہ اب محض بیانات سے ریلیف کے دعوئوں کا وقت تمام ہو چکا۔
عوام کی چیخیں نکل چکیں اور آخری چانس کا طبل بچ چکا ہے۔ حکومتی صفوں میں شامل بعض اہم ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ ایماندار وزیراعظم پر ذاتی و گروہی مفادات کے تحفظ کےلئے دبائو ڈالنے کے حربے کے طور پر موجودہ بحران پیدا کئے گئے اور تین نئے بحرانوں کو بروقت ’’طاقتور‘‘ مداخلت سے روک دیا گیا جو شاید حکومت کو سہارا دینے کا آخری اشارہ ہے۔
ایف آئی اے کی خفیہ تحقیقاتی رپورٹ آشکار کررہی ہےکہ گندم کی نو لاکھ ٹن اضافی پیداوار اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی سے عدم دستیابی میں بدلنے کی کارروائی میں موجودہ و سابق حکمران اور ان کے قریبی طاقتور لوگ شامل ہیں۔ طے کیا گیا ہے کہ ملک میں اسوقت گندم کا لاکھوں ٹن اضافی اسٹاک موجود اسی لئے تین لاکھ ٹن اضافی گندم نہیں منگوائی جائے گی۔
چینی کا بحران بھی مصنوعی پیدا کیا گیا، پہلے پیداواری لاگت میں اضافے کے لئے گنے کی خریداری قیمت بڑھائی گئی پھر چینی پر اٹھارہ فیصد ٹیکس لگا دیا گیا اور یوں قیمت 80روپے تک پہنچ گئی بظاہر قیمت کنٹرول نہ کرنے کا قصور انتظامیہ پر ڈالا گیا جو حقیقت تھا تاہم اپنے اندر خرابی جان کر خاموشی اختیار کر لی گئی۔
کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم مافیاز اور کارٹلز کے ایسے چنگل میں پھنسے جو کئی دہائیوں سےاس ملک کے 90فیصد وسائل پر قابض ہیں اور جب دل چاہتا ہے چند دنوں میں اربوں روپے کماتے ہیں عوام کو بےسکون کرکے خود چین کی نیند سوتے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ آچکی لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا نہ شاید ہوگا کیونکہ حکمران اور اپوزیشن کے طاقتور لوگ جو ہر دور میں حکومت کا حصہ رہے اب بھی شیروشکر ہیں، دونوں کا عوام کے مہنگائی بحران سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔ چند مڈل کلاسیوں کو چھوڑ کر منتخب ارب پتی نمائندے تو اپنی تنخواہوں میں چار سو فیصد اضافہ کرکے اپنی محرومیوں کا ازالہ چاہتے ہیں۔
عوام کی موجودہ مشکل کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اپنے مفادات کے تحفظ اور کیسز سے جان چھڑانے کے لئے کمپرومائز بھی کرتے ہیں اور مہر بلب بھی رہتے، پارلیمان میں عوامی لاچاری پر کوئی احتجاج نہ باہر کوئی دھرنا، لگتا ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور ہر وقت کے ساتھی ہیں۔
شاید ووٹ لینے کے سوا عوام کا ان سے کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ سے پیوستہ پالیسیوں اور موجودہ بیڈ گورننس سے پیدا ہونے والا معاشی بحران بڑھ کر سالانہ ترقی کی شرح کو دو فیصد پر لے گیا ہے۔
کارخانے اور بڑی صنعتیں بند اور بزنس سیکٹر بوجوہ بند ہونے سے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5555 ارب روپےسے گر کر پانچ ہزار ارب لانے، مالی خسارہ چار سے پانچ ہزار ارب تک بڑھنے اور وصولیوں میں پانچ سو سےایک ہزار ارب تک کمی کا خدشہ حقیقت بننے جارہاہے۔
مہنگائی کی شرح 14.6سے بڑھ کر 18فیصد ہونے، قوت خرید میں مزید کمی اور بے روزگاری میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ یعنی مزید 12/14لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ آئی ایم ایف منی بجٹ لانے، گیس، بجلی اور پیٹرول کی قیمت بڑھانے پر بضد ہے لیکن حکومتی دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کی کئی اہم شرائط نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
غیرمعمولی اور مخدوش حالات پر طاقتور بھی انگشتِ بدنداں ہیں اور جلد ”مزید تبدیلی“ کے بھی خواہاں اور کوشاں ہیں۔ اپوزیشن اندرون اور بیرون ملک خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے کئی معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے تاہم سب پریشان ہیں کہ ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں کپتان کو سیاسی شہید اور حکومت ختم کئے جانے کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ موجودہ حالات میں فوری یا بدیر انتخابات بظاہر ممکن ہیں اور نہ ہی موثر حل ہیں، اگلے سال نئے انتخابات ہوئے بھی اور خواہش کے مطابق شہباز نے پرواز پکڑ بھی لی تو تب بھی موجودہ بدترین حالات کو بہتر بنانے میں کم از کم پانچ سال لگیں گے یعنی عوام کو فوری ریلیف ملنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ذرائع دعویٰ کررہےہیں کہ موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے وسیع البنیاد سیاسی فارمولےکی پس پردہ تیاریاں جاری ہیں۔ اب کچھ مزید اہم ضمانتیں ہوں گی۔ سب سے بھاری، بیماری کے سبب بدستور چپ چاپ اور صاحبزادے محض تنقیدی سیاست جاری رکھیں گے۔
بڑے بھائی علاج معالجے کے لئے غیرمعینہ مدت تک بیرون ملک اور صاحبزادی خاموشی کی پابندی کے ساتھ اپنے والد کی تیمار داری کے لئے جلد پرواز کریں گی۔ چچا چند ہفتوں میں واپس آکر فعال اپوزیشن شروع کردیں گے تاکہ پارلیمان میں کاروبار سیاست چلتا رہے۔ احتساب کے قوانین میں ترمیم سمیت اہم قانون سازی بھی ہوگی۔
طاقتور حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت حالات کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو یا ناکام، دونوں صورتوں میں اندرون خانہ معاملات سلجھانے کی کوششوں کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور اگلے ایک دو ماہ میں جامع، وسیع البنیاد اور قابلِ قبول حل بھی سامنے آجائےگا۔