• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 گزشتہ دنوں سپریم کورٹ رجسٹری ،کراچی میں شہر کی زمینوںپرغیرقانونی قبضے،ناجائزاوربےہنگم تعمیرات، تجاوزات اور سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق مختلف مقدمات کی سماعت ہوئی ۔ان سماعتوں کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر معزز جج صاحبان نے متعلقہ سرکاری حکّام اور ذمّے داران کو بہت دل سوزی کے ساتھ ان کے فرائضِ منصبی یادد لائے ۔انہوں نے مختلف معاملات میں احکامات بھی دیے اور ان پرمقررہ مدّت میں عمل درآمد کرکے عدالت میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت بھی کی۔

عدالت نے دیگر معاملات کے علاوہ سرکلر ریلوے کے طویل عرصے سے زیرِ التوامنصوبے کی فائل کی بھی گرد جھاڑی اور اس کے ٹریک پر سے قبضے ختم کرانےکاحکم بھی دیا ۔عدالت کے ان احکامات کے نتیجے میں شہر کے باسیوں میں یہ اُمّید پیدا ہوئی ہے کہ اب کراچی کی زلفیں سنور جائیں گی جو طویل عرصے سے بہت الجھی ہوئی تھیں۔

کراچی میں بڑے پیمانے پر زمینوں پر غیر قانونی قبضے،ناجائز اور بے ہنگم تعمیرات کے مسئلے کا حل نکالنے کے ضمن میں چیف جسٹس آف پاکستان،گل زار احمد نےملائیشین ماڈل کا حوالہ دیا۔ذیل میں ہم کراچی کےمذکورہ بالا مسائل کا جائزہ لینے کے ساتھ یہ جاننے کی کوشش بھی کریں گے کہ ملائیشیا کس طرح تبدیل ہوا اور کولمبیا کا شہر ،بگوٹا کیسے دنیا بھر کے لیے مثال بنا۔

کہانی نئی نہیں ہے

کراچی میںزمینوں،کھیل کے میدانوںاور پارکس پر غیرقانونی قبضوں،ناجائز تعمیرات، چائنا کٹنگ، فلاحی پلاٹس پر قائم شادی گھروں، کے پی ٹی اور ریلوے کی بڑی بڑی اراضی پر قبضے کی کہانی نئی نہیں ہے۔ ہر دور میں آنے اور جانے والے حکم رانوں کے علاوہ شہر کی طاقت ور قبضہ مافیا نے سونے جیسے اس شہر کو مالِ غنیمت سمجھ کر یہاں ہر طرح کی لوٹ مار کی۔کسی نے چائنا کٹنگ کی صورت میں قیمتی زمینوں پر ہاتھ صاف کیا تو کسی نے فلاحی زمینوں پر شادی ہال تعمیر کرکے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ۔یہاں تک کہ ڈائریکٹر کچی آبادی کے مطابق قبضہ مافیا بلڈرز نے کراچی کی سوسے زاید کچی آبادیوں میں غیر قانونی عمارتیں بھی بنالیں۔

عدالت میں بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ جب یہ سب غیر قانونی کام ہورہے تھے تو تو ذمّے داران کہاں تھے ؟متعلقہ حکّام کے جواب آئیں، بائیں ، شائیں تھے،کیوں کہ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے تھے۔یہ ہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے کراچی میں تجاوزات سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران میئر کراچی، سندھ حکومت اور سیکریٹری بلدیات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کراچی کسی زمانے میں نگینہ ہوا کرتا تھا؟ حکم رانوں کی مفاد پرستی نے شہر کا کیا حشر کردیا ہے، پورے پورے پارکس، قبرستان اور رفاحی پلاٹس غائب ہو گئے ہیں۔

لالی پوپ

کراچی وہ بد قسمت میگا پولیٹن سٹی ہے جوپچیس،تیس برسوں سے مربوط اورمرکزی ٹرانسپورٹ کے نظام سے محروم ہے۔یہاں ہم نے معیاری کا لفظ جان بوجھ کر نہیں لکھا ہے،کیوں کہ معیاری نظام تو یہاں پہلے بھی نہیں تھا۔تاہم1980کی دہائی تک یہاں کےٹی سی کی بسیں اور سرکلر ریلوے موجود تھی جو کراچی والوں کی کچھ اشک شوئی کرتی تھیں۔

دنیا بھر میں سرکلر ریلوے یا میٹرو کے بغیر میگا پولیٹن سٹی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن یہاں چنگ چی رکشے کے ساتھ میگا پولیٹن سٹی کا نیا تصور قائم کیا جارہا ہے۔قوم کے درد میں گھلے جانے والے سیاست دانوں میں سے کسی ایک نے بھی کبھی اس مسئلے پر کوئی ہڑتال کی اور نہ ریلی نکالی۔

پچھلے پچیس برسوں میںکراچی والوں کو کیسے کیسے خواب دکھائے گئے۔ ماس ٹرانزٹ سسٹم، ریپڈبس سروس،لائٹ ٹرین، مونو ٹرین،مقناطیسی ٹرین،زیر زمین ٹرین ،پیپلز بس سروس،گرین بس سروس،سرکلر ریلوے کی جلد بحالی اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن یہ تمام منصوبے کاغذوں تک محدود رہے۔البتہ ان پر کام ہونے کی آڑ میں عوام کے اربوں کھربوں روپے ضایع کیے گئے یا ہڑپ کرلیے گئے۔آج اس لاوارث شہر کی حالت یہ ہے کہ دس برسوں سے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ شہر میں بڑی بسیں موجو د نہیں ہیں۔ 

کاروباری حالات خراب ہونے کی بناء پر منی بسوں میں سرمایہ کاری رک چکی ہے۔ شہر میں چنگ چی رکشوں کی بھرمار ہےجوپبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف میں نہیں آتے۔ مگر شہریوں کے پاس ان میں سفر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔جس دن شہر میں سی این جی بندہوتی ہے بسیں اور منی بسیں بہت کم ہوجاتی ہیں ۔ اس دن مرد ، عورتیں ، بچے اور بوڑھے بڑی تعداد میں بس اسٹاپس پر کھڑے سواری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔بہت سے افراد مجبورا بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں۔

شان دار ماضی

کراچی میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ ایوب خاں کے دَور میں شروع ہُوا تھا۔ پہلے مرحلے میں مین لائن، چنیسر ہالٹ، ڈپارچر یارڈ، کارساز، ایئرفورس ہالٹ، ڈرگ روڈ، ڈرگ کالونی، ایئرپورٹ، ملیرکالونی، ملیرسٹی، لانڈھی اور دوسری طرف ملیر ہالٹ سے ماڈل کالونی، ماٹایان اور ملیر کینٹ ریلوے اسٹیشن تک لوکل ٹرینز چلا کرتی تھیں۔ پندرہ برس بعد لانڈھی تا کورنگی بھی ریلوے لائن بچھا کر لوکل ٹرینز چلائی گئیں، ان لوکل ٹرینز کی کُل تعداد 56 تھی، جن میں 28 اَپ اور اتنی ہی ڈائون تھیں۔ 

میل، ایکسپریس اور پسنجر ٹرینز اس کے علاوہ تھیں۔ 1967ء میں سرکلر ریلوے چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ سرکلر ٹرین ڈرگ روڈ، ڈرگ کالونی سے ہوتی ہوئی ڈپوہل، کراچی یونیورسٹی، اُردو کالج، گیلانی ریلوے اسٹیشن، لیاقت آباد، ناظم آباد، اورنگی، منگھوپیر، سائٹ، بلدیہ، لیاری اور وزیر مینشن تک چلائی گئی۔ 1970میں توسیع کے بعد وزیر مینشن سے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور کراچی سٹی تک اس کا دائرہ بڑھایا گیا۔ سرکلر ریلوے کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرتے تھے۔ یہ نظام 1995تک کارآمد رہا، لیکن پھر کرائے میں اضافے اور ریلوے کی عدم توجّہ کے باعث مسافروں اور ریل گاڑیوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ 

پہلے کراچی سٹی تا لانڈھی سفر55 منٹ میں اور سرکلر ریلوے براستہ وزیرمینشن تا لانڈھی ایک گھنٹہ 20 منٹ میں طے ہوتا تھا۔ پھر یہ فاصلہ ڈیڑھ تا دو گھنٹے میں طے ہونے لگا۔ 1999ء میں سرکلر ریلوے کو بند کردیا گیا اور اس کی وجہ خسارہ بتایا گیا۔ ایک تحقیق کے مطابق سرکلر ریلوے اب بھی سنگل ٹریک پر چل سکتی ہے ۔ اس کے لیے صرف ٹریک اور سگنل کا نظام درست کرنا ہوگا اور یہ کام چھ ماہ میں ہوسکتا ہے۔

سرکلر ریلوے بند ہونے اور ریلوے کی عدم توجّہی کے باعث کراچی میں مین لائن کے علاوہ اکثر مقامات پر ریل کی پٹریاں اور اسٹیشن زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ریلوے حکّام کی عدم دل چسپی کے باعث ریلوے کی اراضی پر جگہ جگہ تجاوزات قائم ہوگئیں۔ ٹاور سے لانڈھی تک ریل کی پٹری سے 5 تا 60 فیٹ کی حدود میں ہر طرح کی تعمیرات ہوئیں۔ 

دوسری طرف این ٹی آر کالونی سے ناظم آباد، نیوسندھی مسلم سوسائٹی، کے ڈی اے کالونی، بلدیہ ٹائون،گلشنِ اقبال، لیاقت آباد، شاہ فیصل کالونی، ملیر، پاپوش نگر تک ریل کی پٹری کے اردگرد بہت سی کچّی پکّی بستیاں اور عالی شان عمارتیںوجودمیں آئیں۔

بحالی کا منصوبہ جو تا حال منصوبہ ہی ہے

کراچی سرکلر ریلوے کی افادیت کے پیش نظر 2005میں حکومت نے اسے دوبارہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی توجاپان نے منصوبے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کا آسان قرضہ اور تمام تیکنیکی سہولتیں فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم اس منصوبے کے خلاف ٹرانسپورٹ مافیا کی طرف سے ایک بار پھر سازشوں کے تانے بانے بُنے جانے لگے۔کہا جاتا ہے کہ اس مرتبہ سرکلر ریلوے کی زمینوں پر جعلی قبضے کرائے گئے اور دور دراز علاقوں سے لوگوں کو لاکر سرکلر ریلوے کی زمینوں پر آباد کرایا گیا۔ 

ستمبر 2009ءمیں حکومت پاکستان نے کراچی سرکلر ریلوے کواز سرِنو بحال کرنے کی منظوری دی۔ چناں چہ صوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت کراچی سرکلر ریلوے مکمل طور پر جاپانی امداد اور تعاون سے بحال کی جانی تھی۔اس وقت بحالی پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ 1.53ارب امریکی ڈالر تھا جو بعد میں بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ 

اس منصوبے پر جاپان بینک آف انٹرنیشنل کوآپریشن آسان قرض کی صورت میں سرمایہ فراہم کر نے کا پابند تھا۔ منصوبے پر کام کاآغاز 2010کے آخر تک ہونا تھا اور یہ 2014ءتک مکمل کر لیا جاتا۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد ہر روز سات لاکھ مسافر سرکلر ریلوے کے ذریعے سفرکرتے۔ جاپان کے سرکاری ادارےJETROکی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کو دو حصوں میں مکمل کیاجانا تھا۔ 

پہلے حصے میں28.3کلومیٹرطویل ریلوے لائن بچھائی جا نی تھی جو کراچی کینٹ سے گلستان جوہرتک جاتی۔دوسرے حصے میں 14.8کلومیٹر طویل ریلوے لائن گلستان جوہر سے لیاقت آباد تک بچھائی جاتی۔ دوسرے حصے میں 5.9 کلومیٹر طویل ریلوے لائن ڈرگ روڈ سے جناح ایئر پورٹ تک زیر زمین یا پھر برج کی شکل میں زمین کے اوپر بچھائی جانی تھی۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے کراچی میں 19 انڈر پاسز اور تین اوور ہیڈ برجز بننےتھے۔اس کے علاوہ 23 اسٹیشن بنائے جانے تھے جہاں مکمل کمپیوٹرائزڈ ٹکٹنگ کا نظام متعارف کرایا جاتا۔لیکن یہ سب اب تک کراچی والوں کے لیے محض خواب ہی ہے۔

گُم گشتہ سرکلر ریلوے

گنجان آبادی والے کراچی میں بہت سے علاقوں کے درمیان سے ریل کی پٹریاں گزرتی ہیں اور ان کے ارد گرد صنعتی ادارے، بنگلے، مکانات، پیٹرول پمپس اور کچّی بستیاں آباد ہیں۔ چناں چہ اس مسئلے کے حوالے سے کراچی کا بھی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔کراچی میں دو طرح کی ریل کی پٹریاں ہیں۔ ایک مین لائن ہے، جو کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی تک محیط ہے۔ اس کے دونوں طرف ٹریک سے اوسطاً 20 تا 60 فیٹ کے فاصلے پر آبادیاں اور کئی کئی منزلہ تجارتی اور رہائشی عمارتیں ہیں۔ 

بلوچ کالونی سے قائدآباد تک کہیں بھی ٹریک سے 60 فیٹ سے زائد فاصلے پر تعمیرات نہیں ہیں۔ دوسرا ٹریک سرکلر ریلوے کا ہے، جو تقریباً 55 کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے اطراف میں اوسطاً 15 تا 40 فیٹ کے فاصلے پر تعمیرات ہیں۔ محکمۂ ریلوے کے دعوے کے مطابق ٹریک کے دونوں طرف سو سو فیٹ تک زمین اس کی ملکیت ہے اور اس پر ہونے والی تمام تعمیرات ناجائز ہیں، جنہیں منہدم کردیا جائے گا۔ محکمے نے ماضی میں بھی متعدد بار اس طرح کے اعلانات کیے، تاہم ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ 

سٹیزن فورم برائے کراچی سرکلر ریلوے کے تفصیلی اور جامع سروے کے مطابق کراچی میں ریلوے ٹریک کے ساتھ 72 فی صد علاقہ پوش ہے، جس میں پٹری سے 5 سے 60 فیٹ کے فاصلے پر تعمیرات ہیں اور 28 فی صد علاقے میں کچی آبادیاں ہیں، جو پٹری سے 20 تا 60 فیٹ کے فاصلے پر ہیں۔ 72فی صد علاقے میں بیش تر تعمیرات سرکاری اداروں کی اجازت سے ہوئی ہیں اور ان سے حکومت کو محصولات کی شکل میں سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر تیس سال کے عرصے میں قائم ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ریلوے کی اراضی تھی تو اس پر اتنی لمبی چوڑی اور بلند و بالا تعمیرات کیسے ہوگئیں؟

راہ کی رکاوٹیں

موجودہ سرکاری منصوبے کے مطابق اربوں روپے کی لاگت سے سرکلر ریلوے بحال ہوگی۔ اس منصوبے کی تکمیل سے تقریباً تیس کچّی آبادیوںکے تقریباً ڈیڑھ لاکھ مکین متاثر ہوں گے، کیوں کہ ریلوے ٹریک کے ساتھ حفاظتی تدبیر کے طور پر ریلوے کے معیار کے مطابق اتنی جگہ خالی کرانا ضروری ہے۔ اس ضمن میں کیے جانے والے سروے سے متاثر ہونے والی زیادہ تر کچّی آبادیاں 1985ء سے پہلے قائم ہوئی تھیں۔ صدارتی آرڈر مجریہ 2001ء کے تحت 1985ء سے پہلے قائم ہونے والی کچّی آبادیوں کا سروے کرکے انہیں لیز مہیّا کرنے کا کام متعلقہ اداروں کی ذمّے داری قرار دی گئی تھی اور اس مقصد کے لیے فروری 2001ء کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ 

لیکن تاحال یہ کام نہیں ہوسکا ہے۔ انہیں لیز یا این او سی دینے کا معاملہ بھی التوا کا شکار ہے۔حقایق بتاتے ہیں کہ ریلوے لائن سے 100 فیٹ کے اندر واقع 72 فی صد علاقہ لیزڈ اور مالکانہ حقوق کا حامل ہے۔ اس علاقے میں کمرشل پلاٹس، رہائشی اپارٹمنٹس، بنگلے، صنعتی عمارتیں، شاپنگ سینٹرز، گودام، پیٹرول پمپس وغیرہ قائم ہیں۔ جن علاقوں میں یہ سب تعمیرات ہیں، وہاں نہ تو سروے ہُوا، نہ ہی انہدام کے لیے نشانات لگائے گئے اور نہ وہاں 100 فیٹ کے اندر آنے والی زمین پر ریلوے اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ممکنہ طور پر متاثر ہونے والی کچّی بستیوں کے بعض مکینوں کا موقف ہے کہ حد بندی اور انہدامی کارروائی کے نوٹس صرف کچّی آبادیوں تک محدود ہیں، جن میں غریب محنت کش رہتے ہیں۔ 

دوسری طرف 72 فی صد بلند و بالا عمارتیں محفوظ رہیں گی، جو دوہرے معیار کی عکّاسی ہے۔متعلقہ آبادیوں کے مکین الزام عاید کرتے ہیں کہ ریلوے لائن کو محفوظ بنانے کے نام پر غریبوں سے زمین خالی کراکے منہگے داموں فروخت کی جائے گی۔ 1995ء سے پہلے ان ہی ریلوے لائنز پر 157 سرکلر یا لوکل ٹرینز چلتی تھیں اور کبھی کوئی بہت بڑا حادثہ نہیں ہُوا تھا۔ عوامی حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ سرکاری اراضی کو تجارتی اراضی میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ یہ عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔ 

چناں چہ ریلوے کو اپنی اراضی تجارتی مقاصد کے لیے فروخت کرنے کا قانونی حق نہیں ہے۔ اس کے بجائے ریلوے اپنی اراضی کی حفاظت کرے، اس کی نشان دہی کے لیے نشانات لگائے یا دیوار بنائے، اور پہلے ایسا ہوتا تھا۔ کراچی میں کئی مقامات پر اس قسم کے نشانات اور دیواریں اب بھی موجود ہیں۔

جاپان کی مثال

کراچی میں ریل کی پٹری سے مختلف فاصلوں پر بہت سے مقامات پر تعمیرات ہوچکی ہیں۔ دوسری طرف ریلوے مین ٹریک کے دونوں طرف سو سو فیٹ اور سرکلر ریلوے کے ٹریک کے دونوں جانب پچاس پچاس فیٹ اراضی کو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔ مین لائن کے ساتھ تعمیرات کا اوسط فاصلہ 20 تا40فیٹ اور سرکلر ریلوے ٹریک ڈرگ روڈ تا سٹی اسٹیشن براستہ ناظم آباد 15 تا 40 فیٹ ہے۔

ماہرین ِشہری منصوبہ بندی کے مطابق اس ضمن میں جاپان کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے، جہاں بہت زیادہ تیز رفتار ٹرینز چلتی ہیں، لیکن وہاں پٹری سے 30 فیٹ کے فاصلے پر تعمیرات ہیں۔ اسی طرح بیش تر ترقّی یافتہ ممالک میں یہ حد 25 تا 30 فیٹ ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ کام یاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹریک سے تعمیرات کا فاصلہ 25 تا 30 فیٹ رکھا جائے۔ 

اگر حکّام ان خطوط پر غور و فِکر کرکے کوئی فیصلہ کریں تو نہ صرف انسانی جانیں ریل کے حادثات میں ضائع ہونے سے، بلکہ بہت بڑی تعداد میں خاندان بے دخلی سے بھی بچ سکتے ہیں اور سرکلر ریلوے کا منصوبہ کام یابی سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔

ملائیشیا کی قابلِ تقلید مثال

ملائیشیا اگرچہ اب بھی اب بھی ایک ترقّی پذیر ملک ہے ،لیکن وہاں ملک کی معیشت میں بہتری آنے کی وجہ سے کاروبار پھل پھول رہے ہیں،ان میں وسعت آرہی ہے اور لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہورہا ہے۔ایسے میں ماحول کی بہتری اور شہری منصوبہ بندی کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے۔

اس ملک کا دارلحکومت کوالا لمپور ،دو تین دہائیوں سے تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔پہلے حکومت کی توجہ اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھانے پر تھی،چناں چہ ایسے میں دیگر معاملات سے صرفِ نظر ہوجانا کوئی انہونی بات نہیں۔ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔آج کے ترقّی یافتہ مغربی شہر چند دہائیاں قبل تک کافی بد صورت تھے۔

ملائیشیا میں1980کی دہائی میں ملک کی چونتیس اعشاریہ دو فی صد آبادی رہایش پذیر تھی ۔لیکن 1991 میں یہ شرح بڑھ کر اکیاون فی صداور 2003میں باسٹھ اعشاریہ پانچ فی صد تک پہنچ گئی تھی۔ایسے میں وہاں شہروں ،بالخصوص ،کوالا لمپور میں شہری انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر سدھار کے کام شروع کیے۔اس مقصد کے لیے اس نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے کافی طویل مشاورت کی ۔پھر وہاں اربن ری جنریشن کے منصوبے کے تحت پینتیس ایسے مقامات کا تعیّن کیا گیا جہاں کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ان کا کل رقبہ پانچ سو اڑتالیس ہیکٹرز تھا۔

ان مقامات پرزیادہ تر نجی اور کاروباری جائیدادیں اور صنعتیں وغیرہ تھیں۔حکّام نے طے کیا کہ شہر کا چہرہ نکھارنے کے لیےبہت سی پرانی عمارتیں ڈھا دی جائیںیا ان کا حلیہ بہتر بنایا جائے۔وہاں ملی جلی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے۔شہریوں کی سہولت اور تفریح کے لیے وہاں انتظامات کیے جائیں۔سبزے اگائے جائیں،پیدل چلنے والوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں اورثقافتی ورثے کی حفاظت کی جائے۔اس کے ساتھ حکّام نے یہ بھی طے کیا کہ وہاں کس مقام پر کس قسم کی سرگرمیاں ہوں گی،یعنی لینڈ یوز پلان بھی بنایا گیا۔ اب ان خطوط پر وہاں بڑے شہروں کی حالت بہتر بنانے کا کام جاری ہے۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل تک ملائشیا میں موٹرسائیکلز کے بہت زیادہ حادثات ہوتے تھے(یاد رہے کہ وہاں موٹر سائیکلز بہت بڑی تعداد میں استعمال ہوتی ہیں)۔ لیکن پھر وہاں حکومت نے بعض موثر اقدامات اٹھائے، جن کی وجہ سے ان میں قابلِ ذکر حد تک کمی آئی۔ وہاں موٹرسائیکلز کے لیے مخصوص لین بنائی گئیں جو دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے پہلی لین تھیں۔ 

انہوں نے موٹرسائیکلز اور مسافر بردار گاڑیوں کے مختلف پیٹرنز کو مدِّنظر رکھ کر سڑکیں ڈیزائن کیں۔ 1992ء میں موٹرسائیکلز کی لین میںچودہ کلومیٹرز کا اضافہ کیا۔ انہوں نے حادثات کی نوعیت، شدّت اور ان کے نتیجے میں آنے والی چوٹوں کا جائزہ لیا اور اس کی روشنی میں حادثات سے قبل اور بعد کی صورت حال کے لیے اپنی حکمتِ عملیاں تبدیل کیں اور انہیں مزید موثر بنایا۔

بگوٹا ماڈل

دنیا بھر میں ٹریفک سے متعلق مسائل اور خطرات کم کرنے کے لیے بہت سے ممالک نے نہ صرف ماس ٹرانزٹ نظام تشکیل دیا اور اسے بہتر بنایا، بلکہ ایسی حکمتِ عملیاں بھی وضع کیں، جن کی وجہ سے لوگوں کی جانب سے ذاتی موٹرگاڑیاں اور موٹر سائیکلز یا اسکوٹرز استعمال کرنے کے ضمن میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ بعض ترقی پزیر ممالک نے بھی ایسی ہی کوششیں کیں، جن کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک جام ہونے کی شکایات اور سڑک کے حادثات میں خاطر خواہ کمی ہوئی، بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہوئی۔ اس ضمن میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جن میں سے برازیل اور کولمبیا کی مثالیں خاصی اہم ہیں۔ 

ان ممالک نے اپنے دو شہروں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے موثر ہونے اور سڑکوں کو محفوظ بنانے کے ضمن میں دنیا بھر کے لیے نمونہ بنادیا۔ ان نمونوں کی کئی ترقی پزیر ممالک میں تقلید کی گئی۔ بیسویں صدی کے اواخر میں کولمبیا کے شہر بگوٹا میں ٹریفک کی صورت حال ہمارے شہروں جیسی ہی تھی۔ لیکن 1998میں اینرک پینالوسا بگوٹا کے میئر منتخب ہوئے تو انہوں نے متعلقہ لوگوں سے یہ سوال کیا کہ جب بگوٹاکے پچّاسی فی صد شہری روزمرہ کے معمولات کے لیے اپنی موٹرگاڑیاں استعمال نہیں کرتے، تو کیا یہ منصفانہ بات ہوگی کہ ہماری سڑکوں پر زیادہ تر جگہیں موٹرگاڑیاں گھیریں؟ اس سوال نے وہاں بہت کچھ بدل دیا اور آج دنیا بھر کے ماہرین شہروں کی منصوبہ بندی کے ضمن میں سوچ بچار کرتے ہوئے اس سوال پر بھی غور کرتے ہیں۔

اینرک پینالوسا نے اپنی اس فکر کے تحت بگوٹا کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس شہر کی آبادی چند برس قبل تک تقریباًستّر لاکھ نفوس پر مشتمل تھی،لیکن ایزک پینالوسا نے اتنی بڑی آبادی کے مسائل کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور 2015 تک یہ شہر دنیا بھر میں کام یابی کی نئی مثال بن کر ابھرا۔ واضح رہے کہ کولمبیا کے مختلف علاقوں سے ہر سال ایک لاکھ چالیس ہزار افراد بگوٹا میں آکر بس جاتے ہیں اور ہر سال بگوٹا میں ستّرہزار موٹرکاریں رجسٹر ہوتی ہیں۔ اینرک پینالوسا نے میئر کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد کئی جہتوں میں کام کیا۔ انہوں نے شہر کے باسیوں کے لیے شہر میں زندگی گزارنا سہل بنایا، نئے اسکولز اور سڑکیں بنائیں، غریبوں کے علاقوں تک گندآب کی نکاسی کی سہولتیں پہنچائیں، پارکس کی مرمت کرائی، آٹو موبیلز کے استعمال کے بارے میں بعض پابندیاں عاید کیں اور سخت پالیسز بنائیں۔ 

اس کے ساتھ ہی انہوں نے ٹرانسپورٹ کے ضمن میں بعض اصلاحات نافذ کیں۔ انہوں نے بائیسکلز کے لیے ستّر میل طویل راستے بنائے، بہت سی سڑکوں پر موٹرکاروں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا اور رش کے اوقات میں موٹرکاروں کے استعمال پر پابندی عاید کردی۔ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ نمبر پلیٹ کی بنیاد پر گردو نواح سے موٹرکاروں کے شہر میں ہفتے میں صرف دو روز داخل ہونے کی پابندی عاید کی۔ 

اس پابندی کے ڈرامائی نتائج برآمد ہوئے اور شہر میں سفر کا اوسط وقت اکّیس منٹ تک رہ گیا اور حادثات اور ماحولیاتی آلودگی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں اینرک پینالوسا جیسا ایک بھی شخص نہیں، جو ہمارے شہروں کی حالت بدل سکے، ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کرسکے اور سڑکوں کو قتل گاہوں کے بجائے محفوظ بناسکے؟

تازہ ترین