• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28جنوری کو وائٹ ہائوس میں مڈل ایسٹ کیلئے جس امن منصوبے کا اعلان کیا ہے، اسے ڈیل آف دی سنچری کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے معمار صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے اسے خطے کیلئے امن، ترقی، خوشحالی اور فلسطینیوں کیلئے بہترین مواقع کے حصول کا منصوبہ قرار دیا جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسے فلسطینیوں کیلئے تھپڑوں کی ڈیل کہتے ہوئے ہزار بار مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ 

بات آگے بڑی تو اس مسئلے کو زیرِ بحث لانے کیلئے مصر میں عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں جناب محمود عباس نے دھواں دار تقریر کی۔ جس میں اس منصوبے کے منفی پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا گیا۔ 

بعد ازاں جدہ میں او آئی سی نے بھی ٹرمپ امن منصوبے کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے اسے قابلِ استرداد قرار دیا حتیٰ کہ امریکی کانگریس میں بھی اس کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھیں جبکہ اقوامِ متحدہ کیی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والی طاقتوں نے اس پر محتاط ردِ عمل دیا۔ روس نے اسرائیل اور فلسطین دونوں پر زور دیا کہ وہ براہِ راست مذاکرات کریں۔

تازہ صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کے اعلان کی مطابقت میں فلسطین نے تیونس اور انڈونیشیا کے ذریعے سلامتی کونسل میں ٹرمپ امن منصوبے کے خلاف جو درخواست جمع کروائی تھی وہ منظوری کیلئے درکار مطلوبہ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے سے قاصر رہی ہے، اس لیے یہ درخواست ووٹنگ سے قبل ہی واپس لے لی گئی ہے۔ 

80صفحات پر مشتمل اس منصوبے میں بظاہر دو ریاستی حل پر زور دیا گیا ہے اور صدر ٹرمپ یہ کہتے سنائی دیے ہیں کہ فلسطین اور دیگر عرب ممالک 1948کی غلطی نہ دہرائیں اور تاریخی طور پر اس آخری موقع سے فائدہ اٹھائیں جس میں فلسطین کی علیحدہ ریاست بننے جا رہی ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم کا مخصوص خطہ ابو دیس ہوگا اور امریکہ خوشی و فخر کے ساتھ وہاں اپنا سفارت خانہ کھولے گا۔ 

اسرائیل اور فلسطین میں کھڑی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ حاصل ہوگا اور اسرائیل فلسطینیوں کے مخصوص علاقوں غزہ اور ویسٹ بینک میں مزید نئی بستیاں نہیں بسائے گا۔ فلسطینیوں کے دکھوں اور معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے 50ارب ڈالر کی خطیر رقم دی جائے گی۔

 دس لاکھ بیروزگار فلسطینی نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اسلامی دہشت گردی کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ غزہ میں حماس اور اسلامی جہاد کو غیر مسلح ہونا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جہاں 45عرب اور اسلامی ممالک کی قیادتیں جمع تھیں اور میں نے دہشت گردی و شدت پسندی کے خلاف اپنا موقف واضح کر دیا تھا۔ 

پچھلے برس میں نے بیت اللحم میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات میں بھی کہا کہ امن اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ میں نے اُن پر واضح کر دیا کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کیلئے مختص علاقے میں 4سال تک نئی تعمیرات کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی فلسطینی یا اسرائیلی کو اس کے گھر سے بےدخل کیا جائے گا۔ 

خود مختار فلسطینی ریاست کیلئے اولین امریکی شرط دہشت گردی کو قطعی طور پر مسترد کرنا ہوگی اور فلسطینیوں کو حماس جیسی شدت پسندی سے منہ موڑنا ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے اس موقع پر متحدہ عرب امارات، بحرین اور اومان کی جانب سے اپنے سفیروں کو وائٹ ہائوس بھیجنے پر ان ممالک اور ان کی قیادتوں کا بھرپور تالیوں میں شکریہ ادا کیا۔ اردن کے شاہ عبداللہ کی امن مشن میں معاونت پر تعریف و ستائش کی۔

صدر ٹرمپ کا سارا زور اس امر پر تھا کہ وہ اسرائیل کے سب سے بڑے ہمدرد اور دوست ہیں اس کے تحفظ اور سلامتی کیلئے وہ آخری حد تک جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے دشمن ایران کی نیوکلیئر ڈیل سے بھی انہوں نے امریکہ کو نکال لیا ہے۔ 

گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل کے کنٹرول کو قبول کر لیا ہے، اسرائیل کے تمام دشمنوں کو نکیل ڈال رہے ہیں، ہم نے داعش کا 95یا 99فیصد نہیں بلکہ 100فیصد خاتمہ کر دیا ہے، اس کا لیڈر ابوبکر بغدادی مارا جا چکا ہے۔ 

یروشلم کو بلاشرکت غیرے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ یہ اسرائیل پر میری کوئی خصوصی مہربانی نہیں ہے میں نے تو برسرِ اقتدار آتے ہی اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ 

ہم یہ چاہتے ہیں کہ بائبل میں بیان کیے گئے اسرائیلیوں کے مقدس مقامات تک تمام یہودیوں اور مسیحیوں کی رسائی ہو، اسی طرح مسلمانوں کی مسجداقصیٰ تک جو ان کا مقدس مقام ہے، تمام مسلمان جو وہاں زیارت کیلئے جانا چاہتے ہوں، جا سکیں۔ یہ بھی کہا کہ اسرائیل کی حمایت میں کوئی بھی امریکی صدر اس حد تک نہیں گیا جس حد تک میں جا رہا ہوں۔ 

اس موقع پر ٹرمپ کی موجودگی میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر کو والہانہ انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک 14مئی 1948ءکا دن تھا جب امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم نے مشرکہ طور پر اعلان کیا تھااور ایک آج 28 ؍جنوری 2020ءکادن ہے جب میں اور آپ اسی مسئلہ پر بات کر رہے ہیں، جنابِ صدر آپ دنیا کے واحد رہنما ہیں جنہوں نے تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ 

آپ نے ہمارے آبائو اجداد کی قبروں تک ہمیں رسائی دلوا دی ہے۔ آپ نے یہود یا (وادی اردن) اور اس سے ملحق سامریہ کے علاقہ پر ہماری خود مختاری تسلیم کرلی ہے جو ہماری سلامتی اور تورات میں بیان کردہ ورثے کے لئے بہت اہم ہے۔ (جاری)

تازہ ترین