• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد منڈی کا دھرم منافع خوری کے سوا کچھ نہیں تو لبرل اکنامکس کا کوئی جغادری ہمیں سمجھائے اور سرمایہ دارانہ معیشت کے پیٹ کا جہنم محنت کشوں اور ترقی پذیر ملکوں کے نہ ختم ہونے والے اور بڑھتے رہتے استحصال ہی سے بھرتا ہے۔ 

اس کا لازمی نتیجہ کارآمد آبادی کی تقابلی بدحالی اور آئے روز کی مہنگائی اور کم ہوتی ہوئی قوتِ خرید کی صورت برآمد ہوتا ہے۔ منافع خوری ایک ایسی طمع ہے جو جونک کی طرح محنت کاروں کا خون چوستی ہے، محنت کشوں کے خون کی ارزانی کیلئے بیروزگاری ایک لازمی شرط ہے جو محنت کی وافر رسد کو یقینی بناتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ زائد قدر بلا معاوضہ حاصل کی جا سکے۔ 

یہ وہ استحصالی دائرۂ عمل ہے جس کیلئے ایک ’’قومی معاشی چارٹر‘‘ پر ’’قومی اتفاقِ رائے‘‘ کیلئے سب ہی بڑی سیاسی و مذہبی پارٹیاں بےقرار رہتی ہیں۔ گویا استحصالی طبقات کے درمیان میثاقِ استحصال پر اتفاقِ رائے پیدا کرتے ہوئے مظلوم عوام کی لوٹ کو یقینی بنایا جا سکے۔ 

یہ علیحدہ بات ہے کہ حکمراں طبقوں کی باہمی و گروہی چپقلش انہیں اس باہم طبقاتی مفاد پر بھی یکجان نہیں ہونے دیتی۔ لیکن عوام صبح شام دیکھتے ہیں کہ کس طرح یہ سب ہی بڑی پارٹیاں مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی کام پہ لگی ہیں اور وہ ہے اس استحصالی نظام کا دفاع۔ بس فرق صرف ظاہری ہے کہ کوئی زیادہ بڑے زمینداروں  اور کوئی بڑے سرمایہ دارانہ کارٹیل کے مفادات کا داعی ہے اور مختلف شرحوں سے مڈل کلاس میں بچی کھچی ہڈیاں ڈالتا ہے یوں دو پاکستانوں کے درمیان یہ امیر و غریب کی خلیج ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ 

امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ پاکستان میں معاملہ اور بھی گمبھیر ہے۔ ایک لحیم شہیم مفت خور بالائی ڈھانچہ ہے جس کا بوجھ ایک نحیف دست نگر معیشت اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ نتیجتا، استعداد سے زیادہ خرچے قرضوں سے پورے کیے جاتے ہیں نہ کہ معاشی استعداد بڑھا کر پھر وہ وبالِ جان بن جاتے ہیں۔ 

عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جاتا ہے اور خرچے ہیں کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتے جاتے ہیں اور جب قرضوں کا شکنجہ بڑھتا جاتا ہے تو اُسی نسبت سے ’’قومی خود مختاری‘‘ اور ’’قومی غیرت‘‘ عالمی سرمایہ داری، اُس کے مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں کی عنایات کے ہاتھوں یرغمال بن کے رہ جاتی ہے۔

پاکستان کی معیشت کا حال کوئی عوام سے پوچھے جو تاریخ کی سب سے بڑی مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں۔ شماریات کے قومی بیورو کے مطابق یہ 15فیصد اور غذا کی مہنگائی 25فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ سرکاری شماریاتی ادارہ خزانے کی وزارت اور اس کے بدلتے پیمانوں کا اسیر ہے۔ 

سرکاری دعوئوں کے برعکس بقول ڈاکٹر پاشا GDP یعنی مجموعی قومی پیداوار گزشتہ برس 2 اعشاریہ 1 فیصد رہی اور رواں سال یہ جی ڈی پی کے 2فیصد سے کم رہے گی۔ آٹا اگر پاکستان میں 70روپے کلو ہے تو یہ عالمی سطح پر 45روپے کلو، چینی اگر یہاں 80روپے کلو ہے تو باہر 52روپے کلو مل رہی ہے۔ 

اسی طرح بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی مقامی و عالمی قیمتوں  میں تفاوت ہے جبکہ بجلی و گیس مہنگی تر ہونے کے باوجود اس کا سرکلر ڈیٹ ختم ہونے کو نہیں حالانکہ ٹیکس بڑھائے گئے ہیں اور اُن کا زیادہ تر بوجھ غریب عوام اور متوسط طبقے پر ڈالا گیا ہے۔ پھر بھی یہ آئی ایم ایف کے دیے گئے ٹارگٹ سے کم ہے جس کے باعث آئی ایم ایف کے وفد سے وزارتِ خزانہ کے مذاکرات نامکمل رہے ہیں۔ 

اس کے باوجود کہ آئی ایم ایف کے پروگرام اور دیگر وجوہات کے باعث معاشی ترقی کی نمو کم تر ہو چلی ہے، معاشی سرگرمیاں آدھی سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہیں اور چھ بڑے شعبوں میں ترقی کی رفتار منفی ہو گئی ہے۔ 

اس کے باوجود کہ بجلی کے نرخوں میں 600 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، سرکلر ڈیٹ 1100ارب روپے سے بڑھ کر 1900ارب روپے ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف 200ارب کے نئے ٹیکسوں کیلئے منی بجٹ اور سرکلر ڈیٹ کم کرنے کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا تقاضا کر رہا ہے۔ 

شرط اگر نہیں ہے تو وہ مہنگائی اور بیروزگاری کو کم کرنے کی نہیں ہے۔ کیونکہ مہنگائی اور بےروزگاری کا بڑھنا اس پروگرام کا جزوِ لاینفک ہے۔ پہلے تو ناتجربہ کار حضرات نے قرض اُتارنے کیلئے 200ارب ڈالر باہر سے واپس لانے کا دعویٰ کیا تھا جو ظاہر ہے جھوٹا ہونا تھا، اب وزیراعظم بلوچستان کے ریکوڈک کے سونے اور تانبے کی کانوں کو بیچ کر قرض ادا کرنے کا ’’مژدہ‘‘ سنا رہے ہیں۔ 

کوئی انہیں بتائے کہ ان سونے/ تانبے کی کانوں پر آئینی طور پر تو بلوچستان کے عوام کا پہلا حق ہے اور کوئی انہیں یہ بھی بتائے کہ قرض ایسے نہیں اُتارے جاتے بلکہ قومی پیداواری استعداد بڑھانے سے اُتارے جاتے ہیں اور اپنے ذرائع میں رہتے ہوئے اخراجات کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔ ابھی حالت یہ ہے کہ قرض ادا کرنے اور دفاعی خرچے پورے کرنے کے بعد وفاقی محاصل کسی بھی کام کیلئے نہیں بچتے تو ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ 

ڈیڑھ سال سے اوپر ہونے کو آیا ہے اور معیشت کی بحالی، مہنگائی میں کمی اور روزگار کی فراہمی کا دور دور تک نشان نظر نہیں آرہا۔ ابھی آئی ایم ایف سے بات اس پر اٹکی ہوئی ہے کہ اگلے چھ ماہ میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالا جائے یا اگلے برس کے مالی سال کے بجٹ میں۔

نہ تو پچھلی دو حکومتیں فقط موجودہ حکومت کو اس معاشی زبوں حالی کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہیں اور نہ ہی عمران حکومت اپنی نااہلیوں اور غلط پالیسیوں کی ناکامیوں کا بوجھ گزشتہ حکومتوں پر ڈال سکتی ہے۔ اب یہ چخ چخ ختم ہونی چاہئے اور حکومتِ وقت کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے وگرنہ معاملات بگڑ کر اس کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ 

عمران خان ہوں یا شہباز شریف اور بلاول بھٹو، ان میں سے کسی کے پاس اس معاشی بحران کا حل نہیں کیونکہ یہ سبھی حکمراں جماعتیں بار بار آئی ایم ایف کے مالیاتی نسخوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ بحران سے درمیانی مدت کی نجات کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کو کانٹ چھانٹ کر اس کے خرچے کم کیے جائیں، قرضوں  سے نجات کا قابلِ عمل منصوبہ بنایا جائے اور ان سے اجتناب کیا جائے۔ 

پیداواری صنعتی استعداد بڑھائی جائے۔ سیٹھوں اور زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ ترقی کا عوامی ماڈل اختیار کیا جائے۔ کم از کم اجرت مہنگائی کے تناسب اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی کفالت کے تقاضوں کے مطابق متعین کی جائے جو آج کے حالات میں پچاس ہزار روپے سے کم نہیں ہو سکتی۔ 

اس دھائی کے ملینیم گولز کے حصول کیلئے خواندگی، بہتر تعلیم و صحت اور سماجی خدمات کے شعبوں کو اولیت دی جائے وغیرہ۔ لیکن یہ تجاویز تو فقط اسی نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جا سکتی ہیں۔ اصل مسئلہ اپنی جگہ یہ رہے گا، وہ ہے استحصال کا خاتمہ!

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا

تازہ ترین