• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے دہلی کو تیسری بار فتح کرکے بھارت میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔

مرکز میں برسرِ اقتدار بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ایک بار پھر بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے اور 70نشستوں میں سے صرف 7پر ہی کامیابی حاصل کر سکی ہے۔

عام آدمی پارٹی کو حکومت سازی کیلئے 36نشستوں کی سادہ اکثریت درکار تھی مگر اس نے 63نشستیں جیت لی ہیں جبکہ کانگریس جیسی قومی جماعت کسی حلقے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔

اگر بی جے پی کے ایک امیدوار کی بات پر یقین کر لیا جائے تو ان انتخابات میں ’’پاکستان‘‘ جیت گیا ہے جبکہ ’’بھارت‘‘ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کپل شرما نے ٹویٹ کیا تھا کہ 8فروری کو انڈیا کی سڑکوں پر پاکستان اور بھارت کا مقابلہ ہوگا۔

کپل شرما سمیت بی جے پی کے تمام رہنمائوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ عام آدمی پارٹی دراصل مسلمانوں کی طرفداری کرتی ہے اور پاکستان نواز ہے جبکہ بی جے پی بھارت کی حقیقی وارث اور اکثریت کی نمائندہ جماعت ہے۔

شہریت ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنیوالے طلبہ و طالبات کے تناظر میں یہ تک کہا گیا کہ اگر لوگوں نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا تو پورا دہلی ’’شاہین باغ‘‘ بن جائے گا۔

مرکزی حکومت کے کئی وزرا تمام مصروفیات ترک کرکے انتخابی مہم چلاتے رہے مگر لوگوں نے ان کی آواز پر کان نہیں دھرے اور ایک بار پھر ’’آپ‘‘ کو بھاری مینڈیٹ دیا۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی ناکامی اور عام آدمی پارٹی کی کامیابی کی وجوہات و اسباب کیا ہیں؟

اور جس طرح ہمارے ہاں عام آدمی پارٹی کو تحریک انصاف سے تشبیہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی ان دونوں جماعتوں میں کسی قسم کی کوئی مماثلت یا مشابہت پائی جاتی ہے؟

عام آدمی پارٹی نے یہ الیکشن اپنی کارکردگی کی بنیاد پر لڑا جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا انحصار محض بیانیے پر تھا مگر انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوا کہ کوئی بیانیہ کتنا ہی دلکش اور جاذبِ نظر کیوں نہ ہو، محض اس کے زور پر لوگوں کو اپنی طرف مائل نہیں کیا جا سکتا۔

بی جے پی کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور انتہا پسندانہ رویہ اختیار کیا گیا جبکہ اس کے برعکس ’’آپ‘‘ کی قیادت نے محتاط اور متوازن گفتگو کی۔ اروند کیجریوال نے شہریت ایکٹ کی مخالفت تو کی مگر پوائنٹ اسکورنگ کیلئے شاہین باغ کا دورہ کرنے نہیں پہنچے۔ انہوں نے بی جے پی کے برعکس انتخابی مہم کے دوران ذاتی نوعیت کے حملوں اور الزامات کی سیاست سے گریز کیا۔

کیجریوال بار بار ایک ہی بات کرتے رہے کہ اگر آپ کو ہماری کارکردگی اچھی لگی تو ووٹ دیں ورنہ نہ دیں۔ یہاں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ عام آدمی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق دہلی میں انقلابی نوعیت کے اقدامات کیے یا پھر یہی رونا رویا جاتا رہا کہ گزشتہ حکومتیں لوٹ کر کھا گئیں؟ عام آدمی پارٹی نے پہلی اور دوسری بار دہلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو مرکز میں اس کے بدترین سیاسی مخالفین برسرِ اقتدار تھے۔

کیجریوال عام انتخابات میں نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑ چکے تھے اور اب مودی وزیراعظم تھے۔ بھارت کا ریاستی ڈھانچہ ایسا ہے کہ مرکزی حکومت چاہے تو ریاستی حکومت کو تگنی کا ناچ نچا سکتی ہے کیونکہ آئین کے تحت وفاقی حکومت کو بےپناہ اختیارات حاصل ہیں۔

آپ یوں سمجھیں کہ عام آدمی پارٹی کو ویسی ہی مشکلات درپیش تھیں جیسی صورتحال کا 2013ء کے بعد خیبر پختونخوا میں تشکیل پانے والی تحریک انصاف کی حکومت کو سامنا تھا یا پھر یوں سمجھیں کہ جس طرح موجودہ دور میں سندھ کی صوبائی حکومت اپنی مرضی سے آئی جی بھی تبدیل نہیں کر پاتی۔

عام آدمی پارٹی کو بھی وفاق کی طرف سے شدید مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مخالفت کے باوجود عام آدمی پارٹی اپنے وعدوں کی تکمیل کے ایجنڈے سے دستبردار نہیں ہوئی۔

عام آدمی پارٹی نے اپنے منشور کے مطابق عام آدمی کو بےپناہ ریلیف دیا۔ دہلی کے مکینوں کو بجلی اور پانی کی سہولتیں تقریباً مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ بجٹ میں 1720ارب روپے بجلی جبکہ 468ارب روپے پانی کی مد میں سبسڈی دینے کیلئے مختص کیے جاتے ہیں۔

اگر آپ 200یونٹ تک بجلی اور 20ہزار لیٹر تک پانی استعمال کرتے ہیں تو آپ کو بل نہیں آئیگا، اسکے بعد بھی ارزاں نرخوں پر پانی و بجلی کی سہولت دی جائے گی۔ خواتین کو دہلی میں مفت میٹرو بس سروس مہیا کی گئی ہے۔

یہ کتنی بڑی سہولت ہے، مفت میٹرو چلانا کتنا مشکل ہوتا ہوگا، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ لاہور میں میٹرو بس سروس پر گزشتہ حکومت تھوڑی بہت سبسڈی دے رہی تھی مگر بزدار حکومت نے یہ رعایت واپس لے کر کرائے بڑھا دیے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کا ایک اور کارنامہ صحت و تعلیم کے میدان میں انقلاب برپا کرنا ہے۔

بھارتی ماہرین کے مطابق دہلی کے سرکاری اسکولوں کا نقشہ ہی بدل گیا ہے اور اب آپ ان سرکاری اسکولوں کا کسی بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے سے موازنہ کر سکتے ہیں اسی طرح غریب افراد کو مفت علاج کی سہولت مہیا کرنے کی غرض سے سینکڑوں کی تعداد میں ’’محلہ کلینک‘‘ بنائے گئے ہیں۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ کیا کیجریوال اور عمران خان کا موازنہ کرنا درست ہے؟

میرے خیال میں یہ تقابل بنتا ہی نہیں۔ اگر کیجریوال نے تبدیلی کا نعرہ لگانے اور کرپشن مٹانے کا وعدہ کرنے کے بعد اقتدار پانے کیلئے اپنے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کرکے تمام پارٹیوں کے ’’چلے ہوئے کارتوس‘‘ الیکٹ ایبلز کے نام پر اپنی پارٹی میں شامل کر لیے ہوتے۔

دہلی میں حکومت بنانے کے بعد یہ عذر پیش کیا ہوتا کہ وفاق میں ہمارے حریف برسرِ اقتدار ہیں اور ان کے روڑے اٹکانے کے باعث ہم کام نہیں کر سکے یا پھر کارکردگی کے بجائے محض نعروں، تقریروں اور بیانیے پر انحصار کیا ہوتا تو دونوں میں کسی قسم کی مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔

تازہ ترین