• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم کے آخری کھلاڑی وقار حسن بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے،ان کا کردار بے داغ تھا۔جن کی شخصیت اور عظمت پر اقبال عظم صاحب کا یہ شعر صادق آتا ہے

دامن توکل کی یہ خوبی ہے کہ اس میں

پیوند تو ہوسکتے ہیں دھبے نہیں ہوتے

وہ ناصر ف یہ کہ بہترین کھلاڑی تھے بلکہ عظمت کا ایک ایسا مینار تھے جس کی شعاعوں سے پتہ نہیں کتنے کرکٹرز روشن ہوئے۔آج بھی ان کی تعریف کرتے ہوئے آصف اقبال جو کہ اتہاگہرائیوں سے ان کی عزت کرتے تھے ان کے علاوہ مفسرالعق(مرحوم) اعجازمرزا، آفتاب عالم، آفتاب کاکو، وسیم باری اور نہ جانے کتنے قومی کر کٹرز اس فہرست میں شامل ہیں، میرے تو وہ مینٹورتھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے وہ عظیم تھے عظیم ہیں اور عظیم رہیں گے۔ان کے حوالے سےمیں اپنا واقعہ شئیر کررہا ہوں کہ میں نے ان کی بدولت ہی اس کھیل میں عزت حاصل کی۔ پیٹرنز ٹرافی میں ہماراپہلا میچ پی ڈبیلیو ڈی سے ہوا جس میں نسیم الغنی، عتیق انغم، آغا منور اور رحمن علی جیسے بہترین کھلاڑی شامل تھے ۔ 

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
آل کراچی پروفیسر اعجاز فاروقی کرکٹ ٹورنامنٹ کے میچ میں ٹیموں کا سابق کپتان سرفراز احمد اور اعجاز فاروقی کے ہمراہ گروپ فوٹو

میں کراچی بلوز کی نمائندگی کررہا تھا جس کی قیادت عظیم وقارحسن کررہے تھے پی ڈبیلیو ڈ ی نے پہلے بیٹنگ کی اور پہلی اننگز میں کھیل ختم ہونے سے پہلے چار یاپانچ اوور قبل ٹیم آؤٹ ہوگئی۔اب مسئلہ نائٹ واچ مین کا آیاکئی کھلاڑی جانا چاہتے تھے مگر وقار حسن کی نگاہ انتخاب مجھ پر پڑی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ " صلو میاں تم پیڈتولگاؤ" یہ ان کا خاص انداز تھا پیڈ کرنے کو کہنے کا۔ حالانکہ میرا بیٹنگ آرڈر نو(9)نمبر تھا دس (10) نمبر پروسیم باری اور گیارہ(11)نمبر لیفٹ آرم لیگ اسپنرپرنس اسلم (مرحوم) آیا کرتے تھے۔ 

بہرحال میں نے وہ دن گزارا اور دوسرے دن 86 رنز اسکور کئے۔ پھر دوسرے میچ میں پھر وہی صورت حال آگئی پھر وقار حسن نے مجھ پر کرم فرمایا وہ دن گزارکر دوسرے روز 87 رنز بنائے۔ اب ہماری ٹیم فائنل میں پہنچ گئی۔ فائنل لاہور جیمخانہ میں لاہور کرکٹ بورڈ سے تھا جس کی کپتانی ٹیسٹ کرکٹریونس احمد کررہے تھے اور ماجدخان، آفتاب گل ، وقاراحمد اور طارق چیمہ جیسے تیزبولر موجود تھے۔ پچ بغیر کور کے تھی بہرحال قصہ مختصر یہ کے لاہور جیمخانہ میں میچ تھا اور بارش ہونے کی وجہ سے میچ دیر سے شروع ہوا ، یونس احمد نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کافیصلہ کیا جو ان کے خلاف گیا،ا ن کی ٹیم کے جلد آوٹ ہونے کی وجہ سے شام کو ہماری بیٹنگ آگئی، اوپن علیم الدین اوراحمد مصطفی نے کی علیم بھائی دوسرے اوور میں آوٹ ہوگئے ، اور وقار نے پھر مجھ سے کہا" صلومیاں پیڈلگاؤ" مگر یہاں کنڈیشنز کراچی سے بالکل مختلف تھیں ،ایک طرف سے ماجدخان کی سوئمنگ سمجھ میں نہیں آرہی تھی تودوسری طرف طارق چیمہ کی تیز ترین بولنگ، ماجدخان کی ایک گیند پر سلپ میں میراکیچ ڈراپ ہوا تو دوسری ان سوئنگرگی جو میری بیل کے اوپر سے نکل گئی اب میں نے سوچاکے مارکر آؤٹ ہوجاؤں نان اسٹرکنگ اینڈ پر وقار تھے وہ شاید میراارادہ بھانپ گئے تھے اور یہی ایک اچھے لیڈر کی نشانی ہے۔ 

مجھے آکر سمجھایا کہ اگر تم اچھی گیندیا اچھے کیچ پر آؤٹ ہوجاؤ گے مجھے بالکل افسوس نہیں ہوگا مگر پوری کوشش کرو کے وکٹ پر کھڑے رہو بہرحال ان کا یہ قیمتی مشورہ بہت کام آیا۔ اس وقت تھائی پیڈ یاچیسٹ پیڈنہیں ہوتے لاہور کی سردی میں گیندیں لگتی رہی اور نیل کے نشان بنتے چلے گئے۔ میری حوصلہ افزائی کرتے رہے اس کی بدولت میں91 رنزبنائے جس کا سارا سہرا وقاص حسن کے سرجاتا ہے۔ 

بہرحال ان کی قیادت میں کراچی پیٹرنز ٹرافی جیت گیا۔ ہمارے مینجرمجازی صدر کے سی سی اےمظفرحسنین ہوا کرتے تھے عیسیٰ جعفر اعزازی سیکریٹری تھے،قائداعظم ٹرافی کا پہلا میچ حیدرآباد کے خلاف تھا، وقار کی طبیعت ناساز ہوگئی تو سینئرکھلاڑی علیم الدین کے حصے میں کپتانی آئی وقار حسن کیونکہ پاکستان سے بھی نمبر(3)پر جاتے اور کراچی سے بھی مگر کیونکہ پہلا میچ کھیل رہے تھے لہذا انہوں نے کپتان علیم الدین کو ہدایت کی کہ میری جگہ یعنی نمبر3 پر صلاح الدین کو بھیج دینا جیساانہوں نے کیا۔ 

چار(4)نمبر آنجہانی وائس متھائس آتے تھے تو اللہ کے کرم سے ہم دونوں کی پارٹنرشپ 388 رنز کی ہوئی جو کہ اس وقت پاکستان کا ریکارڈ ہوگیا وائس متھائس نے 228 رنز بنائے اور میں نے 169 رنز اسکور کئے۔ اس کے بعد دوسرے میچ میں 77 رنز اسکور کے مگر اپنے پرانے نمبر9 پر جاکر۔پھر وقار پاکستان کے سلیکٹر بن گئے اوربہترین کھلاڑی منتخب کئے میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں کہ کیسے ان کا شکریہ ادا کروں ، مرحوم وقار حسن 12ستمبر1932کو امرتسر میں پید ا ہوئے، انہوں نے پاکستان کی جانب سے21ٹیسٹ میچوں میں حصہ لیا،35اننگز میں 1071رنز بنائے،189ان کا ہائیسٹ انفرادی اسکور تھا، انہوں نے ایک سنچری اور چھ نصف سنچریاں بھی اسکور کیں، ٹیسٹ میں کوئی وکت نہ لے سکے، 99فرسٹ کلاس میچوں میں 2وکت لی، انہوں نے 16اکتوبر1952کو بھارت کے خلاف پہلا ٹیسٹ کھیلا اور21نومبر1959کو لاہور میں آ سٹریلیا کے خلاف آخری ٹیسٹ میں ملک کی نمائندگی کی۔

تازہ ترین
تازہ ترین