• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ملک کے طول و عرض میں بہت سے افراد یہ بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر ہم کب تک بحرانوں میں گھرے رہیں گے۔ ایک کے بعد دوسرا بحران آتا ہے اور لوگوں کو ہلا دیتا ہے۔مثلا ان دنوں عوام آٹے اور شکر کے بحران سے نبرد آزما ہیں۔ قیامِ پاکستان سے آج تک ہم کئی بحرانوں سے گزر ے ۔ قوموںکی تاریخ میں بحران آتے رہتے ہیں، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس بحران سے کس طرح نمٹا گیا اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے کیا سبق سیکھا گیا۔ پاکستان کی تاریخ ہر طرح کے بحرانوں سے بھری پڑی ہے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کی رفتار تیز اور جہتیں وسیع ہوگئی ہیں۔ 

تاریخ کے طالب علم کے لیے اب یہ سوال پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ بحران کیوں آتے ہیں؟ تاریخ اس کا یہ سادہ سا جواب دیتی ہے کہ جب زندگی کے کسی شعبے میں زوال آتا ہے یا اس شعبے کے لیے اربابِ اختیار غلط حکمت عملی اور ترجیحات کا تعین کرتے ہیں تو اس کے منطقی انجام کے طور پر اس شعبے میں بحرانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔بعض شعبے کسی ملک اور قوم کے لیے بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ہم نے ایسے ہی چند شعبوں کا انتخاب کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان شعبوں میں کس قسم کے بحران آئے اور ملک اور قوم پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ دوسری جانب عام آدمی سے بحرانوں اور ان کے اثرات کے بارے میں گفتگو کی گئی۔

سیاست اور اقتدار کا طویل کھیل

قیامِ پاکستان کے بعد پہلے عشرے میں قائد اعظم اور قائد ملّت ہم سے رخصت ہوگئے اور ملک بغیر آئین کے چلتا رہا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی جوڑ توڑ ہوتا رہا۔ 1958ء میں جو دستور بنا، وہ معاشرے کی سیاسی ضروریات اور تمام متعلقہ فریقین کی آراء کو شامل کیے بغیر بنایا گیا تھا اور اسے بنانے میں صرف چند افراد شامل تھے۔ اس میں ریاست کی ضروریات کو بھی مدّنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ لہٰذا سیاسی بے چینی کی فضا قائم رہی۔ پھر بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا گیا اور صدارتی انتخابات ہوئے۔ 

اُس وقت ملک کوکئی سیاسی مسائل درپیش تھے، ان میں وفاق کو متحد رکھنے کا مسئلہ سب سے اہم تھا۔ ایوب خان نے انتخابات کے ذریعے آمریت کو جمہوری چہرہ دینے کی کوشش کی تھی ،لیکن یہ انتخابات اور 1962ء کا دستور بھی سیاسی بے چینی کو کم نہیں کرسکا۔ پھر ایوب خان کے خلاف تحریک چلی اور ایوب خان اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن اس مرحلے پر بھی انہوں نے عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے ایک فوجی جرنیل کو ترجیح دی۔

یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات تو کرائے مگر، ان انتخابات میں جیتنے والوں کو اقتدار نہیںسونپا۔ ہمارے حکم رانوں کی مسلسل غلطیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا۔ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا بحران تھا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ 

یہ بھٹو صاحب کا بلاشبہ بہت بڑا کارنامہ تھا، لیکن پھر ان کے بعض غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے ملک میں سیاسی بے چینی پیدا ہوئی، ان کے خلاف تحریک چلی اور جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ 1979ء میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کی آمد کے بعد، پاکستان نے غیر جانب دارانہ پالیسی اپنانے کے بجائے امریکا کا ساتھ دیا، جس کی وجہ سے پاکستان کو اقتصادی، سماجی اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک چلی۔ سیاسی بے چینی پر قابو پانے اور اقتدار کو سیاسی چہرہ دینے کے لیے جنرل ضیاء نے 1985ء میں انتخابات کرائے۔ 

لیکن اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے وقت ہی سے سیاسی انتشار سامنے آگیا تھا۔ پھر جنرل ضیاء اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے اختیارات کے ضمن میں اندرون خانہ بحران پیدا ہوگیا تھا۔ اسی کش مکش میں جونیجو صاحب کی حکومت ختم کردی گئی اور پھر ضیاء الحق دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس وقت پیدا ہونے والا خلاء پر کرنے کے لیے انتخابات کرائے گئے مگر ایک کے بعد دوسری حکومت آتی اور جاتی رہی، لیکن سیاسی عدم استحکام برقرار رہا۔

جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے وقت ملک میں کوئی بڑا سیاسی بحران نہیں تھا۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد 2002ء میں انتخابات کرائے تو ایل ایف او کے مسئلے پر سیاسی انتشار سامنے آیا لیکن 9 مارچ 2007ء سے پہلے تک ملک میں کوئی سیاسی بحران نظر نہیں آتا۔ البتہ مذکورہ تاریخ کو اور اس کے بعد کیے جانے والے اقدامات نے سیاسی بحران پیدا کیا۔ ان ہی حالات میں صدارتی انتخابات ہوئے ،لیکن بحران ٹلا نہیں۔لہٰذا نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی۔ 

یہ اقدام اس امرکا غمّاز تھا کہ اس وقت تک ملک میں سیاسی بحران عروج پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن اس اقدام سے بھی بحران ختم نہیں ہوا اور بے نظیر بھٹو کے قتل نے اس میں اضافہ کردیا۔پھر پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے درمیان دوستی اور محاذ آرائی دیکھنے کو ملتی ہے۔بعد میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کی حکومت میں زبردست رسّہ کشی دیکھنے کو ملی،لیکن حکومتوں نے اپنی آئینی میعاد پوری کیں۔

اعتماد کے فقدان کا بحران

پاکستان کی تاریخ میں تسلسل کے ساتھ جنم لینے والی سیاسی بے چینی اور بحرانوں نے ملک اور قوم پر بہت برے اثرات مرتّب کیے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بددل ہوچکے ہیں۔ وہ صحیح فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پالیسیز میں تسلسل نہ ہونے کے سبب آج بھی لوگ عام انتخابات کےنتائج کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کررہے ہیں۔ حکومت، سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور انتخابات پر سے ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ہمارے اربابِ اقتدار کی جانب سے تسلسل کے ساتھ کیے جانے والے غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے آج ہم کئی بحرانوں کا شکار ہیں۔ ایک طرف شدّت پسندی کا بحران ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن تبدیل ہوگئے اور وہ دبائو کا شکار ہیں۔ 

دوسری طرف لوگوں کی سیاسی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے عدم برداشت کا بحران ہے۔ پائے دار، موثر اور قابل اعتماد سیاسی عمل کے فقدان کی وجہ سے معاشرے میں سماجی انصاف اور مساوات نہیں ہے۔ لہٰذا ہر طرف بے چینی نظر آتی ہے۔ رہنمائوں اور رہنمائی کا بھی بحران ہے۔ بدقسمتی سے قائد اعظم کے بعد ہمیں کوئی مثالی قائد نہیں ملا۔ ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ بڑے اور مقبول سیاسی رہنما تھے، لیکن وہ خود کو مثالی قائد ثابت نہیں کرسکے۔

ایک بہت بڑی غلطی

آئین اور سیاسیات کے بعض ماہرین کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی، آئینی بحرانوں کی ماں اور ہماری آئینی تاریخ کی فاش غلطی یہ تھی کہ ہماری پہلی آئین ساز اسمبلی نے ملک کو آئین نہیں دیا بلکہ قراردادِ مقاصد منظور کی گئی۔ چناںچہ محلّاتی سازشوں کا دور دورہ ہوا اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلاگیا۔ حکم رانوں نے غلط کاموں کے لیے غلط قوّتوں کا سہارا لیا۔ پہلے بیورو کریسی کے ساتھ شراکتِ اقتدار کی گئی اور پھر ملٹری بیورو کریسی کو بھی ملالیا گیا۔ 

لیاقت علی خان کو قتل کراکے ان سے جان چھڑالی گئی اور خواجہ ناظم الدین کو بہلایا پھسلایا گیا۔ پھر غیر جمہوری لوگ حکم راںبنتے گئے۔ 1950ء کی دہائی میں، مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے منصفانہ حقوق سے محروم کرنے کے لیے ون یونٹ کی لعنت نافذ کرکے وہاں کی اکثریت کو مغربی پاکستان کی اقلیت کے مساوی کردیا گیا۔ یہ بھی ایک آئینی بحران تھا، اس سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی چاروں اکائیوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔

پھر قادیانیوں کے مسئلے پر پنجاب میں صورت حال سخت کشیدہ ہوئی اور وہاں منی مارشل لا لگانا پڑا۔یہاں بیورو کریسی کی کم زوری ظاہر ہوتی ہے اور اس کے بعد سیاست میں فوج کا عمل دخل بڑھنے لگا۔ پھر سول بیورو کریسی نے فوج کو باقاعدہ طور پر سیاست میں ملوّث کیا اور 1954ء میں، اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ایوب خان کو ملک کا وزیر دفاع بنادیا گیا۔ یہ ہماری دوسری فاش غلطی تھی۔

1955ء میں مولوی تمیز الدین کی آئین ساز اسمبلی توڑدی گئی اور 1956ء میں پہلا آئین دیا گیا ، لیکن اس کے تحت انتخابات نہیں کرائے گئے۔ چناںچہ محلاّتی سازشیں ہوتی رہیں اور تین ماہ کے لیے وزیراعظم آتے اور جاتےرہے۔ 9 مارچ 1958ء کو عام انتخابات ہونے تھے، لیکن خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ کی مقبولیت سے خائف، صدر اسکندر مرزا نے ایوب خان کے ساتھ مل کر 17 اکتوبر 1958ء کو مارشل لا لگادیا۔ 

مگر 27 اکتوبر کو ایوب خان نےا سکندر مرزا کو ایوانِ صدر سے نکال دیا۔ ایوب خان نے 1962ء میں جو دستور دیا، اس کے پہلے مسوّدے میں بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ 1956ء کا دستور محض ڈیڑھ برس اور 1962ء کا دستور تقریباً سات برس تک نافذ رہا، لیکن ان دونوں کے نافذ کرنے والے ان کے تحت امور مملکت چلانے میں ناکام رہے۔ ایوب خان نے 1965ء کی جنگ کے بعد عام انتخابات کرانے کے بجائے اقتدار یحییٰ خان کو منتقل کرنا مناسب سمجھا۔

یحییٰ خان نے مارشل لاکی چھتری تلے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا اور انتخابات کرائے لیکن ملک دولخت ہوگیا، کیوںکہ سول اور ملٹری بیورو کریسی نے عوام کو حق حکم رانی سے دور رکھا تھا۔ 

یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر دو مرتبہ ملتوی کیا اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 13 اگست 1973ء کو ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا جو 5 جولائی 1977ء تک نافذ العمل رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوئی آئین نہیں تھا۔ نام نہاد مجلس شوریٰ اور بلدیاتی انتخابات کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا گیا اور لسانی اور فرقہ وارانہ نفرتوں کو فروغ دیا گیا۔ 1985ء میں انہوں نے غیرجماعتی انتخابات کرائے اور صدارتی حکم کے ذریعے آئین میں 100 سے زاید ترامیم کرکے اس کی جمہوری، پارلیمانی اور وفاقی روح کو مسخ کرکے ان ترامیم کو زبردستی اسمبلی سے منظور کراکے 31 دسمبر 1985ء کو مارشل لا ختم کیا گیا۔ لیکن 28 مئی 1988ء کو اپنے منتخب کردہ وزیراعظم ،محمد خان جونیجو کی حکومت برخواست کرکے نئے آئینی بحران کو جنم دیا۔

اس کے بعد جمہوری قوّتوں اور ضیاء الحق کی باقیات کے درمیان جنگ چلتی رہی اور چار حکومتوں کو اپنی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اکتوبر 1999ء میں ایک بار پھر فوجی مداخلت ہوئی اور آئینی بحران پیدا ہوا۔ پھر3نومبر 2007ء کو چوتھا مارشل لا نافذ کیا گیا۔ یہ اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اس میں ایمرجنسی کے نام پر عدلیہ کے خلاف بغاوت کی گئی تھی۔ المختصر، پاکستان کی تاریخ کی ہر دہائی میں مظلوم عوام کو آئینی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان بحرانوں، پاکستان کے دولخت ہونے، مذہبی شدّت پسندی پروان چڑھنے، کلاشن کوف،ہیروئن اور لسانی دہشت گردی کا کلچر عام ہونے کے پس منظر میں آئینی بحران ہی کارفرما ہیں، جن کی ذمےہ دار سول اور ملٹری بیورو کریسی ہے۔ 

آئینی بحران ہی کی وجہ سے ملک میں گورننس ختم ہوئی، حکومت کی عمل داری نہیں رہی، پاکستان کے محافظ اپنی سرزمین پر غیر محفوظ ہوگئے، عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں رہیں۔ 1980ء سے قبل پاکستان بہت پُرامن ملک تھااور پاکستانی قوم بہت مہذّب تھی۔ کراچی کی مثال لیں، یہاں آبادی کے تناسب سے پولیس اسٹیشنز اور پولیس اہل کاروں کی تعداد نیویارک، لندن، ممبئی، کلکتہ اور ٹوکیو کے مقابلے میں کم تھی، لیکن یہاں منظّم جرائم مافیا اور نجی سیکیورٹی ایجنسیز کا تصوّر تک نہیں تھا۔

وقت گزارنے والی حکمتِ عملی

اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں وقتاً فوقتاً آنے والے اقتصادی بحرانوں کی وجہ یہ ہے کہ ہر دورِ حکومت میں اقتصادی شعبے کے لیے وقت گزارنے والی حکمت عملی اختیار کی گئی اور ترجیحات کا غلط تعین کیا گیا۔ موجودہ اقتصادی بحران کے بارے میںبعض ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ برسوں سے معیشت چند گروہوں کے ہاتھوں میں رہنے کی وجہ سے اب مسائل شدّت سے سامنے آرہے ہیں۔ معیشت کی صحت کا اندازہ اگر صرف بازارِ حصص کے اتار چڑھائو کی بنیاد پر لگایا جائے تو پھر اس طرح کے بحران ناگزیر ہیں اور ہم ایسے مزید بحران دیکھیں گے۔ 

ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اورمعیشت کی سالانہ شرحِ نمو کے بارے میںماضی میں بعض ماہرین نے سرکاری دعوئوں کو غلط قرار دیا تھا وہ مسلسل یہ کہتے رہے کہ سرکاری اعداد و شمار درست نہیں ہیں اور اس بارے میں ثبوت بھی پیش کیے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت کو صرف ایک پیر پر کھڑا کیا گیا، جس کا انحصار بینکس کے کنزیومر کریڈٹ پر تھا۔ اس طرح بینکس نے بے تحاشا منافع کمایا، لیکن غریب عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے ان کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہوگئی۔

ماہرین کے مطابق ہم نے دہائیوں سے لارج اسکیل مینو فیکچرنگ پرتوجّہ دینا بہت کم کردی ہے،ہماری برآمدات بہت کم ہیں،ہم زراعت ، جدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹی پر کوئی خاص توجّہ نہیںدیتے،ہماری بعض روایتی برآمدات بھی مختلف وجوہ کی بنا پر ہمارے ہاتھ سے نکلتی جارہی ہیں،نوکر شاہی کی نا اہلی اور بدعنوانی،امن وامان کی غیر اطمینان بخش صورت حال،کاغذی کارروائیوں کے گورکھ دھندے ،وژن نہ ہونے وغیرہ کی وجہ سےنہ صرف ہماری معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ہے بلکہ زندگی کا ہر شعبہ زوال کا شکارہے۔

اقتصادی شرح نمو کے لحاظ سے ہمارے چار بدترین مالیاتی سال اس وقت آئے جب فوجی آمر حکم راں تھے، یا غیر جمہوری طریقوں سے حکومتیں ہٹائی گئی تھیں۔ ہماری اقتصادیات کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔اس سلسلے کا پہلا مالیاتی سال ایوب خاں کے دور میں 1959ء۔1960ء کا تھا۔ دوسرا سال یحییٰ خاں کے دور میں 1969ء۔1970ء کا تھا۔ تیسرا سال 1996ء۔1997ء کا تھا جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا گیا تھا۔ چوتھا سال پرویز مشرف کے دور میں 2000ء۔ 2001ء کا تھا۔

ہماری اقتصادیات کا عجب عالم ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بیرونی امداد مل رہی تھی تو ملک ترقی کرتا محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن ان کا دور ختم ہوتے ہی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس قرضے کے لیے جانا پڑا۔ 

آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ ایوب خاں کے دور میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھا اور اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفرتیں بڑھ گئی تھیں۔ پرویزمشرف کے دور میں پہلے تین برس تک جی ڈی پی کی شرح مسلسل گرتی رہی۔ پھر30جون 2001ء کو روپے کی قدربیس برسوں میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی۔ اس وقت اس میں 18 فی صد کمی ہوئی تھی۔ پھر 2005ء میں چند ہفتوں میں780ارب روپے کا اسٹاک ایکسچینج میں فال ہوا۔ 2006ء میں شکر کا بحران آیا، جس کے نتیجے میں عوام کی جیبوںسے35ارب روپے نکل گئے۔ اب آٹے اور شکر کا پھر بحران ہے، جس کی وجہ سے عوام اربوں روپے سے محروم ہوگئے ہیں، لیکن ان کے ذمّے داروں کے خلاف کچھ نہیں ہورہا۔ایوب خاں کے دور میں شکر کی قیمت میں شاید 25 پیسے کا اضافہ ہوا تھا جس پر بہت شور مچا تھا اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔

تعلیم ،اوّلین ترجیح نہیں رہی

پاکستان میں کسی بھی حکومت کے لیے تعلیم کا شعبہ اوّلین ترجیح نہیں رہا۔ لہٰذا پاکستان اس شعبے کے لیے کم ترین بجٹ مختص کرنے والا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ قائداعظم نے اس ملک کے لیے جو ترجیحات متعین کی تھیں، ان کے تحت آئندہ نسل کو بہتر اورآزاد ماحول میں اپنے ذہنی رجحانات کے مطابق حصولِ تعلیم کا پورا پورا حق دینے کاوعدہ کیا تھا۔ 1956ء کے پہلے دستور کی تشکیل سے قبل تعلیم کے شعبے پر ہماری توجہ ترجیحی طور پر نچلے درجے پر رہی۔ 1956ء سے 1962ء تک کے عرصے میں (جس میں دساتیر کی تدوین اور مارشل لا کا نفاذ ہوا) تعلیم اپنی ہیئت کے لحاظ سے صنعتی ترقی کا ذریعہ بنائی گئی، جس کا اظہار ایوب خاں کے دور میں بنائے گئے شریف کمیشن کی رپورٹ سے ہوتا ہے۔ اس رپورٹ میں آرٹ اور فنون کی تعلیم کو فوقیت نہیں دی گئی تھی۔

1972ء کی انقلابی تعلیمی پالیسی کے نتیجے میں ملک کے تمام نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اس طرح طلبا، ان کے سرپرستوں اور اساتذہ کو نجی تعلیمی اداروں کے شکنجے سے کیسے بچایا جائے گا۔لیکن یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا۔تیسرا بحران محمد خاں جونیجو کے دور میں نئی روشنی اسکولز کا پروگرام شروع ہونے اور تمام درآمدات و برآمدات پر اقراء ٹیکس نافذ ہونے سے پیدا ہوا۔ 

اقراء ٹیکس کی مد میں 65 ارب روپے جمع ہوئے، لیکن انہیں تعلیمی منصوبوں پر خرچ نہیں کیا گیا۔ پھر نوازشریف کے دورِ حکومت میں ایٹمی دھماکوں کے بعد 38 تعلیمی منصوبے مکمل یا جزوی طور پر مالیاتی کٹوتی کی زد میں آکر معطل یا ختم کردیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو ان کے وفاقی وزیر تعلیم نے نواز دورِ حکومت کی تعلیمی پالیسی کو یک سر نظر انداز کرکے وفاقی سطح کے احکامات کے ذریعے تعلیمی پالیسی میں اساسی تبدیلیاں کیں اور نئی ترجیحات کا اعلان کیا۔ یہ اہداف پانچ برس میں پورے نہیں ہوسکے۔ اس کی بنیادی وجہ کمٹمنٹ کی عدم موجودگی تھی۔

بحرانوں کے سلسلے کی ایک کڑی جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبا انجمنوں پر عاید کی جانے والی پابندی بھی ہے۔ ان انجمنوں کے ذریعے طلبا کی سیاسی تربیت ہوتی تھی۔ ہم نے ایوب خاں کے دور سے تعلیم کے شعبے کے لیے پنج سالہ منصوبے بنانا شروع کیے تھے، ان کے لیے ہم بیرونی ممالک اور اداروں سے امداد بھی لیتے رہے، لیکن اساتذہ، طلبا اور تعلیمی اداروں کے درمیان عددی توازن قائم نہیں کرپائے۔ 

ہم نے پچاس برس تک سالانہ اپنے جی ڈی پی کا محض دو فی صد حصّہ تعلیم کے شعبے پر خرچ کیا۔ کوئی تعلیمی پالیسی اپنی میعاد پوری نہیں کرسکی۔ تعلیم کے شعبے میں بدعنوانی بڑھتی گئی۔ آج ملک میں ہزاروں جعلی سرکاری اسکولز ہیں۔ خواندگی میں اضافے کے منصوبے غیر مؤثر ثابت ہوئے۔ ہمارے تقریب ستّر لاکھ بچّے اسکولز نہیں جاتے اور ایک کروڑ سے زاید بچّے چائلڈ لیبر کی لعنت کا شکار ہیں۔ 

جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خواندہ اور ناخواندہ بے روزگار نوجوان پاکستان میں ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں خواندگی کی شرح 9 تا 12 فی صد اور شہری علاقوں میں 16 فی صد ہے۔ ہم نے تعلیم کو ترقی کا ذریعہ سمجھ کر نہیں اپنایا، لہٰذا ملک ترقی نہیں کرسکا اور 43 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ہم یہ طے نہیں کرسکے کہ کون سی زبان کو ذریعۂ تعلیم ہونا چاہیے اور پورے ملک کے لیے یک ساں نصابِ تعلیم نہیں بناسکے۔ 

آج ہمارا تعلیمی نظام انگریزی اور اردو میڈیم تعلیمی اداروں، مدارس اور کیڈٹ اسکولز میں تقسیم ہے۔ ہم نے اعلیٰ تعلیم پر بہت کم توجہ دی، تاہم اب صورت حال کچھ بہتر ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ جب ہماری ابتدائی اور ثانوی تعلیم کم زور ہے توہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اچھے طلبا کیسے فراہم کرسکتے ہیں۔

عوام کیا کہتے ہیں؟

شفیق احمد سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ٹاورکے علاقے میں واقع ایک نجی ادارے کے دفتر میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس 70 سالہ پاکستانی کے مطابق پاکستان میں آنے والے تمام بحرانوں کی بنیادی وجوہ طویل عرصے تک ملک کا آئین سے محروم رہنا اور جاگیردارانہ نظام ہے۔ ان کے مطابق بھارت کو ابتدا ہی میں آئین مل گیا تھا اور اپنے سفر کے آغاز پر ہی انہوں نے زرعی اصلاحات کرکے جاگیردارانہ ذہنیت پر کاری ضرب لگا دی تھی۔ 

وہاں ان دو اقدامات کی وجہ سے جمہوری نظام قائم اور مستحکم ہوا اور ادارے وجود میں آئے۔ اداروں نے نظام کو مؤثر اور معتبر بنایا۔ پاکستان میں نہ ادارے ہیں اور نہ کوئی نظام ہے، لہٰذا ہر طرف افراتفری اور ایڈہاک ازم ہے۔ ملک دو لخت ہوگیا، لیکن ہم نے اس سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

رضا جعفر کی بوہرہ بازار میں ملبوسات کی دکان ہے۔ ان کے بہ قول پاکستان میں بحرانوں کی اہم ترین وجوہ احتساب نہ ہونا اور بدعنوانی ہیں۔ ان کے بہ قول یہاں سفارش اور رشوت کا یہ عالم ہے کہ ان کے صاحب زادے نے مقابلے کے امتحان میں بہت اچھے نمبرز کے ساتھ کام یابی حاصل کی، لیکن اسے محکمہ اوقاف میں تعینات کردیا گیا۔ 

وہ تحقیق میں دل چسپی رکھتا ہے، لہٰذا ایک ہی برس بعد اس نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور امریکا چلا گیا۔ ذہین اور باصلاحیت افراد کی جانب سے پاکستان کے بجائے امریکا، برطانیہ، کینیڈا وغیرہ میں رہنے کو ترجیح دینا بھی ایک بحران ہے جس میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

نعمان اخلاق، نجی جامعہ میں ایم بی اے کے طالب علم ہیں۔ ان کے بہ قول جب تک اربابِ اقتدار تعلیم اور روزگار کے شعبوں پر توجہ نہیں دیں گے، اُس وقت تک ملک میں بحران آتے رہیں گے۔ تعلیم فکر کو جِلا بخشتی ہے اور درست فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے اور روزگار کے یک ساں اور بہتر مواقع لوگوں کو پُرسکون انداز میں زندگی گزارنے اور صبروتحمل کے ساتھ بغیر کسی دبائو کے کسی معاملے پر غوروخوض کرکے فیصلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ آج ہمیں ہر سطح پر درست فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ 

نجم الدین، ایک نجی بینک میں کام کرتے ہیں۔ ان کے بہ قول وہ بحرانوں سے سخت پریشان رہتے ہیں۔ امن و امان کی غیر اطمینان بخش صورت حال، سیاسی کش مکش، اقتصادی صورت حال، بے روزگاری، غربت، سفارش، بدعنوانی، یہ سب بحران ہی تو ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ عام پاکستانی بحران جھیلنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔

آٹے اور شکر کے حالیہ بحران نے انہیں ذہنی اور مالی طور پر سخت دھچکا پہنچایاہے۔عبدالقیوم بونیری، گڑھے کھودتے ہیں۔ ان کے مطابق روز روز کے بحرانوں سے وہ تنگ آچکے ہیں۔ وہ ماہانہ پانچ ہزار روپے مکان کا کرایہ دیتے ہیں۔ شکر، آٹے، چاول جیسے بحران ان کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ اجرت میں اضافہ نہیں ہوتا، لیکن روزانہ اشیائے صرف میں سے کسی نہ کسی کے نرخ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔غریب آدمی کے لیے اس سے بڑا کوئی اور بحران نہیں۔

بحرانوں کے نفسیاتی اثرات

انسانی نفسیات اور سماجیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں، ان سے دو اقسام کے اثرات مرتّب ہوتے ہیں (1) ایسے اثرات جو انفرادی طور پر محسوس کیے جاتے ہیں (2) وہ اثرات جو اجتماعی لاشعور کو متاثر کرتے ہیں۔ ہم یہاں اجتماعی معاملات پربات کریں گے۔ قومی اعتبار سے سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم کی جو کیفیت ہے، اس میں سب سے بڑاہدف ہماری قومیت ہے، کسی آبادی کو متحد رکھنے کے لیے علاقائیت سے زیادہ قومی تشخص کو ابھارا جاتا ہے۔ 

لیکن آج کل ہم میں سے بہت سے افراد قومی تشخّص کا بہت کم خیال رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک مسلسل کہانی ہے۔ اس نوعیت کا پہلا واقعہ 1970ء میں پاکستان کی تقسیم کا تھا۔ پھر وقتاً فوقتاً ایسے مسائل پیدا ہوتے رہے، جن میں بے بس ہو کر لوگ کسی راہ نما کی تلاش میں رہے۔ پاکستانی قوم، کسی رہنما کی شدّت سے ضرورت محسوس کررہی ہے اور رہنمائوں کی موجودگی کے باوجود اپنے آپ کو رہنمائوں سے محروم محسوس کررہی ہے۔ تاہم بعض واقعات مثلاً 1965ء کی جنگ اور 2005ء کے زلزلے نے قوم کو متحد کیا اور ان سے قوم میں اُمّید پیدا ہوئی۔

نفسیاتی لحاظ سے مذکورہ حالات کا قوم پر یہ اثر پڑا ہے کہ ملک کے کسی حصے میں گڑبڑ ہو تو باقی لوگ اپنے علاقے اور خود کو اس سے محفوظ یا الگ تصوّر کرتے ہیں۔ حالاںکہ ہونا یہ چاہیے کہ جسم کے کسی حصّے کو تکلیف پہنچے تو روح تڑپ جائے۔ یہ کیفیت بے یقینی کو جنم دیتی ہے۔ اس کی انتہا سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس صورت حال میں بہتری کے لیے پوری قوم کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ نفسیاتی اعتبار سے ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ شہری اور دیہی آبادی میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ 

مسائل کی نشان دہی شہری آبادی کو مدّ نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ چناںچہ 70 تا 75 فی صد آبادی تمام تر صورت حال سے متعلق ہونے کے باوجود ذرایع ابلاغ میں لاتعلق نظر آتی ہے۔ حالاںکہ شَکر کا بحران ہو یا گندم کا یا سیاسی اور آئینی بحران ہو، دونوں آبادیوں کے لیے یک ساں ہوتے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے ہر باشعور شخص ہر وقت تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ ہم اب تک مربوط فکر نہیں اپناسکے ہیں، تفریق بڑھ رہی ہے۔ 

یہ مسائل حل کرنےکےلیے تعلیمی اداروں، مساجد، ذرایع ابلاغ وعیرہ کے ذریعے مذہب کے ساتھ پاکستانی قومیت کے تصوّر کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کو آگے لانا چاہیے جو لوگوں کی امید بندھائیں اور انہیں روشنی دکھائیں۔ ہر وقت تنقید کرنے اور سننے سے کچّے ذہن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اپنے چھوٹوں کو ایسا ماحول دینا چاہیے، جس میں لوگ ریاست کو اپنے لیے محفوظ ٹھکانا سمجھیں۔

تازہ ترین