چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ سرکلر ریلوے 6 ماہ میں بحال کرنی پڑے گی، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں کہ کام کون کرے گا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ کے ہمراہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سمیت اہم مقدمات کی سماعت کی ۔
کیس کی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدالت میں حاضر ہوئے اور سرکلر ریلوے بحالی پلان عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سرکلر ریلوے پر بہت پیش رفت ہوئی ہے، سرکلر ریلوے کے تمام اسٹیشنوں کو بستیوں سے منسلک کر دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے سرکولر ریلوے کے پلان پر فوری کام شروع کرنے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ منصوبے کی منظوری اور دیگر امور کو فوری حل کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران حکم دیا کہ سندھ حکومت ریلوے کو مکمل سہولتیں فراہم کرے، جبکہ سیکریٹری ریلوے کو سندھ حکومت سے تعاون کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ چینی سفیر سےملاقات کے بعد رقوم، منصوبے پر حتمی جواب دیں گے، سی پیک کی وجہ سے سرکولر ریلوے کی بحالی چائنیز کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ریلوے کو چین سے مشاورت کے لیے 2 ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ منصوبے پر تمام کارروائی 5 ماہ میں مکمل کی جائے ، اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کام تب شروع ہوگا جب پیسے ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اپنے ملک میں ریلوے خود نہیں بنا سکتے تو کیا کرسکتے ہیں، 72 سال میں اتنی قابلیت نہیں ہوئی، جبکہ دنیا کہاں چلی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فیصلہ گزشتہ سال دیا آپ مذاق کرتے آرہے ہیں، آپ لوگوں نے خود سارا نیٹ ورک جام کیا ہوا ہے۔
سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے یہ کہہ رہے ہیں، ریلوے زمینوں پر قبضہ گروپ ہے جو ماضی میں فعال ہوا۔
سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ کالا پل سے 4 کلو میٹر پر قبضہ ہے، لوگ بیٹھے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسے کیسے لوگ ہیں، قبضہ کون ختم کرائے گا۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پہلے عمارتیں بنائیں لوگوں کو منتقل کریں پھر قبضہ خالی کرائیں۔
سیکرٹری ریلوے کی سرزنش کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس سے پہلے کیا کر رہے تھے، چاہیں تو آپ کو ابھی جیل بھیج دیں، کیا افسری کر رہے ہیں۔
اس موقع پر سندھ سے تعلق رکھنے والے حکومتی جماعت کے کراچی کے صدر اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی عدالت میں پیش ہوئے اور سرکلر ریلوے کی بحالی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران گھروں کو گرانے کی مخالفت کی۔
اس پر چیف جسٹس نے فردوس شمیم پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ فردوس شمیم نقوی صاحب، آپ حکومت کے نمائندے ہیں اور یہاں کیسی باتیں کر رہے ییں، پھر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کو طلب کرکے پوچھ لیتے ہیں کام کون کرے گا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ حکومتی نمائندہ یہاں اپنی حکومت کے خلاف کھڑا ہے۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ کراچی کو نہ بڑھائیں، نئے شہر آباد کریں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ کوئی نئی غیر قانونی تعمیرات نہیں ہو رہی ہیں، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایسا نہیں آپ کو معلوم نہیں۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ شہر میں ہر طرف کچرا ہی کچرا ہے، معلوم ہے نارتھ ناظم آباد کیا تھا، ماضی کے سب سے خوبصورت علاقے کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میں کل ناظم آباد گیا بہت دکھ ہوا، سخی حسن قبرستان جاتے ہوئے حالت دیکھی تو بہت افسوس ہوا، صرف گندگی ہی گندگی اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں دیکھیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت میں کہا کہ جی معلوم ہے اور احساس بھی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کراچی میں جو ہورہا ہے اس پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔