• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست مدینہ کی اصطلاح سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں،جاوید احمد غامدی

ریاست مدینہ کی اصطلاح سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں،جاوید احمد غامدی 


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے کہا ہے کہ ریاست مدینہ کی اصطلاح سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں،خلفائے راشدین لوگوں کا احتساب کرنے کا نعرہ نہیں لگاتے تھے اپنا احتساب کرتے تھے،جمعہ کا خطبہ کسی عالم کو نہیں حکمران کو یا ان کے کسی نمائندہ کو دینا چاہئے، اللہ کے عدل وا نصاف کے قاعدے حکمران کی پہلی ترجیح ہونے چاہئیں،یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر قائم ہوا لیکن تاریخ میں بے شمار ریاستیں مذہب کے نام پر وجود میں آئی ہیں، بنی امیہ، بنو عباس، فاطمی ریاست اور عثمانی ترکوں کا بھی مذہب کی بنیاد پر ریاست کے قیام دعویٰ تھا، اس وقت مذہبی کی بنیاد پر لوگوں کو تحریک دینے والے اپنی سلطنت کو مذہبی سلطنت کہتے تھے،تحریک پاکستان میں مذہب کا نام استعما ل ہوا، اس وقت پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ جیسی نظمیں بھی پڑھی گئیں،پاکستان بننے کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہوئی اور آئین میں بھی ایسی چیزیں شامل رہی ہیں۔ جاویداحمد غامدی کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کی اصطلاح سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں، کیا ریاست مدینہ کی اصطلاح جغرافیائی اعتبار سے استعمال کی جارہی ہے، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ریاست قائم کی وہ آٹھ سال تک مدینہ اور نواح تک محدود رہی، اس کے بعد پورے جزیرہ نما عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی آپ کا اقتدار قائم ہوگیا تھا،خلفائے راشدین کے زمانے تک مدینہ اس ریاست کا دارالحکومت رہا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات تک ہی ہم ریاست مدینہ کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں،اگرریاست مدینہ کا لفظ نظریے یا فکر کی بنیاد پر ریاست قائم کرنے کے لحاظ سے استعمال کیا جارہا ہے تو وہ نہ کوئی نئی فکر تھی نہ نئی دعوت تھی وہ انبیاء علیہم السلام کا دین تھا، محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی نئے دین کے بانی نہیں تھے وہ اللہ کے دین اسلام کے آخری پیغمبر تھے۔ جاوید احمدغامدی نے کہا کہ اگر کسی کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت بنانا ہے تو ریاست کے بجائے آپ کی زندگی کی مثال پیش کریں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے اسوہ ہیں آپ کہئے کہ میں اسی کو اسوہ بنا کر اپنی زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں تاکہ کسی متعین شخصیت میں جو صفات ہیں لوگ آپ کا جائزہ بھی اسی طرح لے سکیں، اسلامی ریاست میں مسجد مرکز ہوتی ہے، حکمران کیلئے صرف یہ نہیں کہ فقیرانہ زندگی بسر کررہا ہو اس کے دروازے شب و روز لوگوں کیلئے کھلے ہونے چاہئیں، رسالت مآب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے جو اسوہ قائم کیا تھا حکومت کیسے ہونی چاہئے وہ ایک مرتبہ تاریخ میں پھر عمر بن عبدالعزیزکی صورت اس شان سے زندہ ہوا کہ لوگوں نے محسوس کیا کہ عمر دوبارہ دنیا میں آگئے، انہوں نے خود کو اس جگہ لاکھڑا کیا جس سے نیچے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی تھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اسوہ قائم کیا جس پر عمل کر کے خلفائے راشدین نے لوگوں کو وہ انصاف فراہم کیا جس کی ہم باتیں کرتے ہیں، آپ کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اگر میں عام لوگوں کی زندگی بسر نہیں کرتا، میرے دروازے عام لوگوں کیلئے کھلے نہیں ہیں تو میں انصاف فراہم نہیں کرسکتا، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے خلفاء کا نام لیں گے تو انہی کے تصور پر بات ہوگی، عمر بن عبدالعزیز نے اسی اسوہ پر عمل کیا، خلیفہ بننے سے ایک رات پہلے عمر بن عبدالعزیز امیر ترین شخص تھے، ان کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود تھی لیکن خلیفہ بننے کے بعد دنیا نے انہیں فقیرانہ زندگی بسر کرتے دیکھا،خلفائے راشدین لوگوں کا احتساب کرنے کا نعرہ نہیں لگاتے تھے اپنا احتساب کرتے تھے، موجودہ دور میں کسی کا ابوبکر بننا تو بڑی بات ہے کوئی ابوبکر کے اسوہ پر دو قدم چلنے کا فیصلہ کرلے تو یہ سب سے بڑی خبر ہوگی۔

تازہ ترین