سرمایہ، ایک ایسا خوف زندہ پرندہ ہے جو محض خطرے کی آہٹ سن کر ہی اڑان بھر جاتا یا اپنے آشیانے میں محبوس ہو جاتا ہے۔ یہ ہر طرح سے پُرامن فضا کا متمنی ہوتا ہے اور اسی میں خوش رہتا ہے۔ کرونا وائرس کے اثرات نے اس حد تک خوف کی صورتحال پیدا کردی ہے کہ اس سے دنیا بھر کی معیشت متاثر ہونے لگی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ جو دراصل کسی بھی ملک کی معاشی و اقتصادی حالت اور سرگرمیوں کی عکاس ہوا کرتی ہے، پیر کے روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں بری طرح کریش کرگئی، تیل کی قیمتوں میں بھی کمی آئی اور اس کے برعکس سونے کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 1105 پوائنٹس کی کمی آئی، 175ارب کا نقصان اور 42ہزار کی نفسیاتی حد بھی گر گئی۔ جاپان، بھارت، چین اور امریکہ کی اسٹاک مارکیٹوں پر بھی دبائو رہا۔ متذکرہ ساری صورتحال کی بنیادی وجہ کروناوائرس کے اٹلی، سائوتھ کوریا سمیت دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں پھیل جانے سے صنعتی، تجارتی، سفری، درآمدی اور برآمدی سرگرمیوں کا متاثر ہونا بتائی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کی وجوہات میں آئی ایم ایف کے ساتھ نئی قسط کے معاہدے کا نہ ہو سکنا، سرمایہ کاروں میں خوف و ہراس اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بھاری سیل شامل ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلائو سے درآمدی و برآمدی سرگرمیوں کا متاثر ہونا فطری امر تھا، دنیا اس بلائے بےدرماں کو بہرصورت خود سے دور رکھنا چاہتی ہے چنانچہ حالیہ صورتحال بعید از قیاس نہ تھی، المیہ یہ ہے کہ دنیا اس حوالے سے مطلوبہ اور موثر اقدامات نہیں کررہی، حالانکہ امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ وائرس پہنچ چکا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئےدنیا کے سب جدید ممالک کو آگے آنا ہوگا کہ یہ انسانی جانوں ہی نہیں اقتصادی تباہی کا بھی پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کو ان دیگر وجوہات پر غور کرکے انہیںدور کرنا ہوگا جو اس کی معاشی کمزوری کو رفع نہیں ہونے دے رہیں۔