• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :عرفان احمد خان۔۔۔ فرینکفرٹ
جرمنی کی جس لیڈر شپ پر چھ ملین یہودیوں کو ہلاک کرنے کا الزام تاریخ کا المناک باب گردانا جاتا ہے ان میں سے اب کوئی بھی اس دنیا میں موجود نہیں ۔تاریخ کے اس درد ناک واقعہ کے پچھتر سال گزرنے پر ابھی حال ہی میں جرمنی میں جو تقاریب ہوئیں ان میں موجودہ سیاسی قیادت نے اپنے بڑوں کی غلطیوں پر ایک بار پھر یہودی قوم سے معاف کر دینے کی اپیل کی ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شرمندگی کے باوجود جرمنی نازی ازم کے اثرات سے کلیعتا چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا ۔ اگرچہ حکومت نازی ازم کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے لیکن ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ہو جاتا ہے جس کے تانے بانے کسی انتہا پسند تنظیم سے جڑے ہوتے ہیں ۔ ہر دوسرے ملک کی طرح جرمنی کی سیاست میں بھی دائیں اور بائیں نظریات کا عمل دخل موجود ہے اور دائیں نظریہ کے انحصار سیاست میں غیر ملکیوں کی مخالفت بھی شامل ہے ۔ لیکن جرمنی سے غیر ملکیوں کو نکال دینے اور جرمنی صرف جرمن کے لئے ہے کا نظریہ نئ وجود میں آنے والی سیاسی پارٹی (اے ۔ایف۔ڈی ) لے کر میدان سیاست میں 2015 میں داخل ہوئی۔ اس کے لیڈروں کی جارحانہ تقاریر نے جرمن سیاست میں نفرت کو جنم دیا ۔ اس تنظیم کے وجود میں آنے کی وجہ چانسلر انجیلا مرکل کی جنگ زدہ علاقوں کے متاثرین کو جرمنی میں آباد کرنے کی پالیسی تھی جس کی اے ایف ڈی نے کھل کر مخالفت کی ۔جس کے سبب پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے بھی ہوئے ۔ 2015 میں ہیمبرگ صوبہ کے الیکشن میں یہ پارٹی چھ فیصد ووٹ لے کر پہلی بار اسمبلی میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔ جرمنی میں رائج طریق انتخاب میں پارٹی کو ووٹ پڑتا ہے اور پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت اسی تناسب سے اپنے نمائندے اسمبلی میں بھجوانے کی مجاز ٹھہرتی ہے ۔ اے ۔ایف ۔ڈی نے ہیمبرگ اسمبلی میں داخلے کے بعد جرمنی میں رہائش پزیر غیر ملکیوں خصوصا مسلمانوں کے خلاف اور زیادہ سخت رویہ اختیار کیا اور مساجد کی تعمیر کے خلاف جارحانہ ردعمل کا اظہار کیا ۔ جرمنی کے بدلتے ماحول کا اندازہ لگانا ان پناہ گزینوں کے بس کی بات نہ تھی جو ابھی اپنی آباد کاری کے مراحل سے گزر رہے تھے ۔ان پناہ گزینوں میں سے ایک تعداد ایسے افراد کی بھی نکلی جن کے خلاف کثرت سے اخلاقی گراوٹ اور دوسرے جرائم کی تعداد میں اضافہ نوٹس میں آیا ۔ ایک عرصہ تک عوامی ردعمل کے خوف سے پولیس نے ان واقعات کو عوام سے چھپائے رکھا لیکن بالآخر کب تک - اس کا نتیجہ ہے کہ شدت پسند پارٹی اے۔ایف۔ڈی 2015 کے بعد جتنے بھی صوبائی الیکشن ہوئے ان میں اور پھر قومی اسمبلی میں نمائندے پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ۔ ابھی حال ہی میں ایک صوبائی اسمبلی میں ایک ووٹ کی اکثریت سے اے ۔ایف۔ڈی کا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا تو عوام کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ اگلے روز استعفی دینا پڑا ۔ اب اس صوبہ میں دوبارہ سے انتخابات ہوں گے ۔فروری 19 کو بدھ کی رات دو شیشہ باروں میں ایک سفاک جرمن نے جو فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں نو غیر ملکی ہلاک ہوئے یہ بھی نازی ازم کا وہ رحجان ہے جو جرمنی میں دوبارہ سر اٹھا رہا ہے - ان ہلاک ہونے والوں کا تعلق ترکی،بلغاریہ،بوسنیا،رومانیہ سے تھا اور عمریں بھی 21 سے 44 سال کے درمیان تھیں ۔ اس اندوہناک واقعہ پر ساری جرمنی سے اور حکومت کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ۔ اگلے روز پچاس شہروں میں ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے لئے جلوس نکالے گئے ۔ جرمنی کا قومی پرچم سرنگوں رہا اور حکومت نے اپیل کی کہ جرمنی میں جہاں بھی کوئی پرچم لہرایا جاتا ہے اس کو سرنگوں رکھا جائے ۔ چنانچہ ایسا ہوا بھی اور کئی سفارت خانوں نے اپنے پرچم سرنگوں رکھے ۔ جرمن صدر نے تمام مصروفیات چھوڑ کر فائرنگ والے شہر ھناو اے ۔ ٹاون ہال میں متاثرہ خاندانوں کے افراد خاندان سے ملاقات کی ۔ شہر میں پانچ ہزار افراد پر مشتمل منعقد ہونے والی میموریل میٹنگ سے خطاب کیا اور کہا کہ انتہا پسندی ،دہشت گردی اور مار دھاڑ کے خلاف جرمن اور غیرملکی متحد ہیں ۔ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے حکومت ہر طرح کے قدم اٹھانے گی ۔ صوبائی وزرائے داخلہ کا اجلاس فوری طلب کر لیا گیا ہے جو سیکورٹی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے گا ۔ جرمن چانسلر دوسرے سیاست دانوں اور حکومتی اراکین کے ساتھ برلن میں برانڈن برگ گیٹ پر حاضر ہوئیں جہاں پہلے ہی پانچ سو افراد کا اجتماع سر جھکائے غمگین کھڑا تھا ۔جرمن چانسلر نے اس فعل کو انتہا پسندی قرار دیا اور کہا کہ انتہا پسندی معاشرہ کے لئے ایک زہر ہے۔ اس زہر کو پھیلنے سے بچانے کے لئے حکومت اور سول سوسائٹی ہم قدم ہیں ۔ وزیر داخلہ اور وزیر انصاف نے دونوں شیشہ باروں کے باہر گلدستے رکھے ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ریاست کا ہر شہری آزادی اور قانون کی حکمرانی کے دشمنوں کے خلاف متحد ہے ۔ اس سانحہ پر پوری جرمن قوم سوگوار ہے ۔واقعہ کی پر زور مذمت بھی کی جارہی ہے لیکن ایسے واقعات کسی فوری پلاننگ کے نتیجہ میں ظہور پذیر نہیں ہوا کرتےجرمنی میں غیر ملکیوں کے خلاف نازی ازم سے متاثر جو قوتیں یکجا ہو رہی ہیں اور صنعت کاروں کے دباؤکو قبول کرتے ہوئے حکومت ہنرمند افراد کے لئے جرمنی کے دروازے کھول رہی ہیں اس سے سول وار کے جو خطرات جرمن میڈیا نے محسوس کئے ہیں ان پر بھی کھل کر بحث جاری ہے ۔ جس روز یہ واقعہ ہوا اسی روز جرمن پارلیمنٹ نے انٹر نیٹ پر انتہا پسند نظریات پھیلانے اور غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف قانون میں تبدہلی کرکے سزا کی مدت ایک سال سے بڑھا کر تین سال کر دی تھی ۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیز مواد اے۔ ایف۔ڈی اور دوسرے غیر ملکی مخالفین تنظیموں کی طرف سے بہت کثرت سے پھیلایا جا رہا ہے ۔شیشہ بار میں گولیاں چلانے والے نے بھی اسی شام انٹر نیٹ پر لکھا تھا کہ جو آج خوشی سے ہنس رہے ہیں وہ کل نہیں ہوں گے ۔ حکومت اب تک پانچ تنظیموں پر پابندی لگا چکی ہے ۔ ان میں نیشنل سوشلسٹ زیر زمین۔فراےٹال گروپ۔Chemnitz انقلابی۔کومباٹ 18۔گروپ ایس شامل ہیں ۔ حکومت اپنے طور پر غیر ملکیوں کے خلاف اکسانے والوں کو قابو کرنے کے لئے کوشش ضرور کر رہی ہے لیکن ان کی توجہ حکومتی اداروں کی طرف زیادہ ہے۔ جرمن فوج کے 550 اہلکار اس وقت انتہا پسند نظریات کے حامی ہونے کے باعث زیر نگرانی ہیں ۔ تین ریٹایرڈ ججز کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے کہ وہ نازی ازم کے حامی تھے ۔ فرینکفرٹ پولیس کے پانچ اہل کاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی چل رہی ہے جنہوں نے ایک غیر ملکی خاتون وکیل کو دھمکانے کی خفیہ کوشش کی۔ فروری 2018 سے اب تک ایک ہزار سے زائد شکایات غیر ملکیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی موصول ہو چکی ہیں ۔ 1990 سے لیکر اب تک ایک سو غیر ملکی جرمنی میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے پولیس نے 13 اپارٹمنٹس پر چھاپہ مار کر ایک ایسے سیل کے افراد کو پکڑا ہے جو غیر ملکیوں کی حمایت کرنے والے سیاست دانوں ۔اسائلم سیکرز اور مساجد پر حملہ کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے ۔ اس وقت 360 افراد کے نفرت کے پرچار پر مقدمات عدالتوں میں ہیں جبکہ آئین کی حفاظت کے لئے بنائے جانے والے فیڈرل ادارے کی رپورٹ کے مطابق آن لائن نفرت کا پرچار کرنے والوں کی تعداد بارہ ہزار سات سو ہے۔ جرمنی میں پرو نازی خیالات رکھنے اور تنگ نظر نظریات کے حامی افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ حکومتی کوششوں کے وہ نتائج سامنے نہی آ رہے جن کا حالات تقاضا کر رہے ہیں ۔ تازہ واقعہ کے بارے کہا جا رہا ہے کہ دو روز قبل اسلام فوبیا گروپکے لیڈر Björn Hocke نے Dresden شہر میں جو تقریر کی اس کا شاخسانہ ہے ۔ جون 2019 میں جرمن چانسلر کی اسائلم پالیسی کے حامی ان کے پارٹی ممبر Walter Lübcke کو مار دیا گیا ۔ 9 اکتوبر کو ہالے شہر میں یہودی چرچ کے سامنے دو افراد کو گولی ماری گئی ۔ یہ سب وہ واقعات ہیں جو جرمن میڈیا حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے بطور یاد دھانی کے لکھ رہا ہے ۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت کی توجہ اسلام پسندوں کی طرف زیادہ ہے ۔غیر ملکیوں کے مخالفین کے جو منصوبے گراونڈ پر موجود ہیں ان سے صرف نظر کیاجا رہا ہے ۔ھناو میں ہونے والی دہشت گردی کی تازہ مثال ہمیں ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کر رہی ہے ۔ اس کے سد باب کے لئے سیاست دانوں ،سول سرونٹ بلکہ ہر شہری کو بیدار ہونا ہے تاکہ جرمنی کو انسانیت کے دشمنوں سے بچایا جائے ۔ اس واقعہ کے بعد جو تین سروے کرواے گئے ہیں ان میں ایک سروے کے مطابق 60 فیصد عوام کی رائے ہے کہ اس واقعہ کی ذمہ دار مسلم دشمن پارٹی اے ۔ایف۔ڈی ہے ۔دوسرے سروے میں 49 فیصد کی راے میں دائیں نظریات کی پارٹیاں ملک میں ہم آہنگی کا ماحول فروغ دینے میں رکاوٹ ہیں جبکہ 27 فیصد مسلمانوں کو ذمہ دار گردانتے ہیں ۔ اور تیسرے سروے میں 46فیصد عوام نے اس حوالے سے سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ عوامی سروے حالات کے مرہون منت ہوا کرتے ہیں ۔جن کے رزلٹ حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ جرمنی کے حالات بتا رہے ہیں کہ غیر ملکیوں کے درمیان اتحاد ،دائیں بازو کے نظریات کو شکست دے سکتا ہے ۔اگر ہمیں یہاں مستقل رہنا ہے تو جرمن سوسائٹی میں فعال کردار سے ہم اپنے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں ۔ 
تازہ ترین