• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلطان محمد فاتح

پاک وہندمیں تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام آپ کا عظیم کارنامہ ہے،آپ نے لاکھوں بے نُور قلوب کو ایمان کی روشنی سے منور کیا

یہ ایک ناقابلِ تردید اور تاریخ ساز حقیقت ہے کہ برصغیر میں بالخصوص اور مسلم دنیا کے بیش تر علاقوں میں بالعموم دین کی ترویج و اشاعت،اسلام کی آفاقی تعلیمات،اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار اور اسلام کے امن و سلامتی پر مبنی مثالی پیغام کو عام کرنے میں صوفیائے کرامؒ اور اولیائے عظامؒ کا کردار کلیدی اور تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ کے ان برگزیدہ بندوں اور عظیم المرتبت ہستیوں نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور احیائے دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔احترام انسانیت،خدمتِ خلق اور انسان دوستی پر مبنی ان کے بے مثال فلسفے نے علم و عمل کی ایسی قندیلیں روشن کیں جس سے آج بھی انسانیت فیض یاب ہو رہی ہے۔ با جبروت فرماں روائوں اور اپنے نام کا کلمہ پڑھوانے والے جابر سلاطین اور مطلق العنان شہنشاہوں کے بلند و بالا محلات اور سر بہ فلک عمارات آج پیوند خاک ہو چکی ہیں،مگر دین کی سربلندی کا علم بلند کرنے والے ان درویش صفت صوفیائے کرامؒ اور بزرگان دین کی یادوں کے چراغ آج بھی روشن ہیں۔ ان کی یاد اور پیغام آج بھی دلوں میں موجزن ہے۔ اس لیے کہ یہ دلوں کے فاتح تھے اور دلوں پر ان کی حکومت اور حکمرانی آج بھی قائم ہے۔ وہ عوام و خواص ہر طبقے کے دلوں پر چھائے رہے، ان کی درویشی میں شہنشاہی تھی،ان کی قلندری میں شان سکندری تھی، ان کی ذات بابرکات سے بوریا نشینوں اور فاقہ مست افراد کے درد کا درماں ہوتا تھا۔ وہ شبنم بن کر جگر لالہ میں ٹھنڈک پیدا کر سکتے تھے تو دین کی بالادستی اور ظلم و جبرکے خاتمے اور اس کے سدباب کے لیے طوفان بن کر دلوں کو دہلا بھی سکتے تھے۔ اسی بناء پر وہ عوام و خواص دونوں کا مرجع بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے فرماں روا اور سلاطین بھی ان کی خدمت میں حاضری کو سعادت گردانتے تھے۔

برصغیر کی تاریخ میں آسمان ولایت کے روشن چراغ ، اقلیم ولایت کے تاج داراور سلسلۂ چشتیہ کے بانی سلطان الہند، غریب نواز ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ 536ھ/ 1141ء میں سجستان میں پیدا ہوئے۔ سمرقند اور بخارا کی درس گاہوں میں اس دور کے ممتاز علماء سے دینی علوم کی تحصیل کی۔ تعلیم و تربیت کی غرض سے مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ عثمان ہرونیؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے اور بیس برس تک اپنے مرشد کی خدمت میں رہ کر سلوک و طریقت کی منازل طے کیں۔ آپ کے شیخ حضرت خواجہ عثمان ہرونیؒ جنہیں بعض تذکرہ نگاروں نے ہارونی بھی تحریر کیا ہے،اپنے اس لائق و فائق مرید سے بڑی شیفتگی اور محبت سے ملتے تھے، وہ فرمایا کرتے: ’’معین الدین محبوب خدا است و مرا فخر است بر مریدی اُو۔‘‘ (سیرالعارفین ص۷)

معین الدین،اللہ کے محبوب ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے کہ وہ میرے مرید ہیں۔ اس اثناء میں آپ نے مشاہیر مشائخ و علماء سے ملاقات کی۔ آپ نے اس دور میں مملکتِ اسلامیہ کے تقریباً تمام بڑے مراکز میں حاضری دی،چنانچہ سمرقند، بخارا، بغداد، نیشاپور، تبریز، اوش،اصفہان،سبزوار،خزان، استرآباد، بلخ اور غزنہ وغیرہ کی سیاحت کی اور قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی مذہبی اور روحانی زندگی کے تقریباً تمام اہم رجحانات سے واقفیت حاصل کی۔راہ سلوک وطریقت سے فیض یابی کے بعد سرکار دوجہاں، سرور عالم، حضرت محمد مصطفیﷺ کے روضۂ انور کی زیارت کے مشتاق ہوئے، مدینۃ النبیؐ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ مدینۃ النبیؐ میں ورود کے بعد رسالت مآبﷺ کے روضۂ انور پر حاضری سے شرف یاب ہوئے۔ آپ مدینے ہی میں مقیم تھے کہ خواب میں رسول اکرمﷺ کی زیارت سے فیض یاب ہوئے۔ آپﷺ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کو ظلمت کدہ ہند،سر زمین ہندوستان جانے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے! ’’معین الدین،ہم نے تمہیں اللہ کی رضا ومنشاء سے ’’سلطان الہند‘‘ مقرر کیا ہے، اب تم ہندوستان چلے جائو‘‘۔

سلطان الہند،حضرت خواجہ غریب نوازؒ تاریخ کے جس دورمیں ہندوستان پہنچے،ان دنوں مشہور راجپوت حکمران پرتھوی راج اپنی دو لاکھ سپاہ اور تین ہزار ہاتھیوں کے بل بوتے پر مسلمان حاکم شہاب الدین غوری کی سپاہ کو شکست دے کر کامیابی حاصل کر چکا تھا۔سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی جس دربار میں سب سے پہلے حاضری دی، وہ گنج بخش حضرت سید علی ہجویریؒ کا مزار پر انوار تھا۔ یہاں آپ نے چلہ کشی کی اور وقت رخصت یہ شہرۂ آفاق شعر کہا!

گنج بخش فیض عالم، مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را راہنما

بعدازاں آپ ملتان تشریف لے گئے، کچھ عرصہ ملتان میں قیام کے بعد دہلی تشریف لے گئے اور پھر اجمیر کا رخ کیا جو ہندوستان میں بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ اس وقت کے حکمران پرتھوی راج کی راج دھانی تھا۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے اپنے مریدین سمیت ’’اناساگر‘‘ نامی مقام پر قیام کیا۔ یہ جگہ بعدازاں اولیاء مسجد کے نام سے مشہور ہوئی۔ ’’اناساگر‘‘ جسے آپ نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا، یہ مقام ہندوئوں کے لاتعداد مندروں کے حوالے سے خاص شہرت رکھتا تھا۔ حضرت خواجہؒ نے اس جگہ کو تبلیغ دین کے لیے منتخب کیا اور یہیں تشریف فرما ہوکر اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین کا بے مثال فریضہ انجام دیا۔یہاں آپ نے اپنی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں بے شمار نفوس کو دین مبین کے نور سے منور کیا۔ دعوت و تبلیغ کی بے مثال حکمت عملی،خدمت خلق،احترام انسانیت اور انسان دوستی کے فلسفے سے آپ نے اسلام کے پیغام امن و سلامتی کو عام کیا جس کے نتیجے میں سچائی اور حق کے متلاشی افراد رنگ و نسل، طبقاتی امتیاز، کفر و شرک اور ظلم و جبر کے ظالمانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے لگے۔ وہ جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہو کر آپ کے حلقہ بہ گوش ہو گئے۔ آخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مشہور جوگی جے پال دولت اسلام سے شرف یاب ہو کر آپ کے ارادت مندوں میں شامل ہوا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی، دین کی تبلیغ و اشاعت اور معاشرے کی اصلاح میں بسرکی۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا: ’’بت پرستی کا دوسرا نام خود پرستی اور نفس پرستی ہے، جب تک انسان ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا، وہ خدا پرستی کی منزل سے دور رہتا ہے۔‘‘

آپ نصف صدی ہندوستان میں مقیم رہے اور اسی دوران اصلاح معاشرہ، دعوت دین اور تبلیغ و ترویج اسلام کے حوالے سے وہ گراںقدر کارنامہ انجام دیا جس کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔آپ اپنے مریدوں کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی سی فیاضی، سورج جیسی گرم جوشی اور زمین جیسی مہمان نوازی پیدا کریں۔‘‘سب سے اعلیٰ عبادت ’’طاعت‘‘ کی شکل میں آپ کے نزدیک یہ تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، بے یار و مددگار لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں اور بھوکوں اور فاقہ مست لوگوں کوکھانا کھلایا جائے۔‘‘ چنانچہ تذکرہ نگاروں نے تحریر کیا ہے کہ فقر و درویشی کے باوجود آپ کی خانقاہ میں شاہانہ فیاضیوں کا دریا بہتا تھا۔ مطبخ میں روزانہ اتنا کھانا پکتا تھا کہ تمام غربا و مساکین سیر ہو جاتے تھے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے طبقاتی نظام اور چھوت چھات کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریہ توحید عملی حیثیت سے پیش کیا اور بتایا کہ یہ صرف ایک تخیلی چیز نہیں ہے، بلکہ زندگی کا ایسا اصول ہے جسے تسلیم کر لینے کے بعد ذات پات کی سب تفریق بے معنیٰ ہوجاتی ہے۔ یہ درحقیقت ایک زبردست دینی، سماجی اور اصلاحی انقلاب کا اعلان تھا۔ ہندوستان کے بسنے والے بے شمار وہ مظلوم انسان جن کی زبوں حالی پکار رہی تھی کہ:جینے سے مراد ہے نہ مرنا شاید‘‘وہ اس انقلابی اعلان کوسن کر دوبارہ زندگی کاکیف محسوس کرنے لگے۔اس بوریا نشین مرد قلندر کی نظر کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ جس کی طرف نگاہ بھر کر دیکھ لیتے، معصیت کے سوت اس کی زندگی میں خشک ہو جاتے۔’’رسالہ احوال پیران چشت‘‘ میں لکھا ہے! ’’نظر شیخ معین الدینؒ بر فاسقے کہ افتادے، در زماں تائب شدے، باز گرد معصیت نہ گشتے۔‘‘حضرت شیخ معین الدینؒ کی نظر جس فاسق (گناہ گار بندے) پر پڑ جاتی وہ تائب ہو جاتا اور پھرکبھی گناہ کے پاس تک نہ جاتا۔‘‘ (بحوالہ: تاریخ مشائخ چشت ص۔ 168)

ہندوستان پر برطانوی دور حکومت میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن کہا کرتا تھا: ’’میں نے اپنی زندگی میں دو ایسے بزرگ دیکھے ہیں جو اپنی وفات کے بعد بھی لوگوںکے دلوں پر اس طرح حکمرانی کر رہے ہیں، جیسے وہ بہ نفس نفیس ان کے درمیان موجود ہوں، ان میں سے ایک تو مغل فرماں روا اورنگ زیب عالمگیر ہے اور دوسری عظیم المرتبت شخصیت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کی ہے۔‘‘

حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے متعلق وائسرائے ہند کا یہ کہنا حرف بہ حرف درست اور ایک روشن اور تاریخ ساز حقیقت ہے۔چنانچہ وقت کے فرماں روا، شہنشاہ اور سلاطین جن میں سلطان شمس الدین التمش، شہنشاہ اکبر، جہانگیر، شاہجہاں، اورنگزیب عالمگیر اورکئی دیگر امراء نے آپ کے دربار میں حاضری کو دین ودنیا کی سعادت جانتے ہوئے آپ سے اپنے تعلق خاطر اور دلی عقیدت کا اظہارکیا۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ برصغیر پاک و ہند کے صوفیائے کرامؒ میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے۔ رسول اللہﷺ کے دربار سے انہیں ’’قطب المشائخ‘‘ کے لقب کی بشارت ملی۔ (بحوالہ: سیرالاقطاب ص۔103) حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے آپ کو ’’ملک المشائخ، سلطان السالکین، منہاج المتقین، قطب الا ولیاء، شمس الفقراء اور ختم المہتدین‘‘ کے بلند القاب سے یاد کیا ہے۔ (مجالس صوفیہ/سید صباح الدین عبدالرحمن، ص۔64) ’’مجالس صوفیہ‘‘ کے مؤلف سید صباح الدین عبدالرحمن لکھتے ہیں: ’’حضرت خواجہؒ کے خلفاء اور بزرگان دین مختلف مقامات پر مامور تھے، تاکہ وہ شمع اسلام روشن کر کے ہندوستان کے ظلمت کدہ کو دین کے نور سے منور کر دیں اور جب سلاطین دہلی تخت و تاج کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ فوج کشی میں مصروف تھے تو خانقاہ کے یہ بوریا نشین انسانوں کے قلوب کی تسخیر کر رہے تھے۔ رفتہ رفتہ دو متوازی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ ایک تو ان کی تھی جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں اور ایک ان کی جن کے ہاں درویشی اور فقر و فاقہ تھا، لیکن ان ہی بوریا نشینوں اور فاقہ مست افرادکے ذریعے ہندوستان میں اسلام کی سچی عظمت اور شوکت قائم ہوئی۔‘‘

6؍رجب 627ھ 1229ء میں جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا انتقال ہوا توآپ کی جبین مبارک پر بخط قدرت یہ الفاظ تحریر تھے! ’’ھٰذا حبیب اللہ مات فی حُبّ اللہ‘‘ یہ خدا کا حبیب تھا اور خداکی محبت میں انتقال کیا۔آپ کا مزار مبارک صدیوں سے زیارت گاہ خلائق اور مرجع خاص وعام ہے۔

تازہ ترین