• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: منوّر راجپوت

(عکّاسی: اسرائیل انصاری)

ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو ہی شان دار ہے۔ شعبۂ طب میں اعلیٰ اسناد کے حامل ہیں، تو کولمبیا یونی ورسٹی، امریکا سے ایک مختلف شعبے، اکنامک پالیسی مینجمنٹ میں ماسٹرز بھی کر رکھا ہے۔ تحقیق سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں، یہی سبب ہے کہ انسدادِ پولیو کے حوالے سے ایک ایسا تحقیقی مقالہ تحریر کیا، جسے بیرونِ ممالک کے ماہرین نے بھی سراہا۔ ادب سے دلی لگاؤ ہے اور ادبی سرگرمیوں کی بھرپور سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ 

کئی اہم انتظامی عُہدوں پر تعینّات رہے اور عالمی بینک کے ساتھ بھی کام کا موقع ملا۔ ان تمام مہارتوں اور تجربات نے اُنھیں ایک ایسے افسر کا رُوپ دے دیا، جو بیک وقت کئی شعبوں پر مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ اِن دنوں کمشنر، کراچی میٹرو پولیٹن کی ذمّے داریاں نبھا رہے ہیں اور اپنے وسیع علم و تجربے کی روشنی میں شہر کے مسائل حل کے لیے کوشاں ہیں، جس میں کئی بڑی کام یابیاں بھی اپنے نام کیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن سے ہماری ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

کراچی پر توجہ نہ دی گئی، تو شہر کھنڈر بن جائے گا
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: اپنے خاندان، تعلیم اور کیرئیر کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: میرا تعلق کراچی سے ہے اور یہیں میری پیدائش ہوئی۔ ہم تین بھائی بہن ہیں۔ والدین کی خواہش تھی کہ ہم خُوب پڑھیں اور اللہ کا کرم ہے کہ ہم تینوں نے اُنھیں مایوس نہیں کیا۔ بہن بھی انجنئیر ہیں اور چھوٹا بھائی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ میرے تین بچّے ہیں اور اب مَیں اپنے والدین کی پیروی کرتے ہوئے اُنھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بیوی ڈاکٹر ہیں۔ مَیں نے انٹرمیڈیٹ کیڈٹ کالج، پٹارو، جب کہ ایم بی بی ایس، راول پنڈی میڈیکل کالج سے کیا۔ چوں کہ شروع ہی سے معلوماتِ عامّہ، حالاتِ حاضرہ اور ادب سے لگاؤ تھا، سو مقابلے کا امتحان دینے کی ٹھانی اور اس میں کام یابی بھی حاصل کی، یوں سِول سروس کی طرف آ نکلا۔ ملتان، لاہور، اسلام آباد میں تعینّات رہا، کمشنر ژوب بھی رہا۔ 

کراچی میں مختلف ادوار میں مختلف عُہدوں پر کام کیا اور اب اپریل 2018 ء سے کمشنر، کراچی میٹرو پولیٹن کی ذمّے داریاں نبھا رہا ہوں۔ نیز، مَیں نے آغا خان یونی ورسٹی سے ہیلتھ پالیسی اینڈ مینجمنٹ میں ماسٹرز کیا ہے، جس سے میری سوچ میں خاصی وسعت آئی اور صحت سے متعلق مسائل کو وسیع تناظر میں سمجھنے میں مدد ملی۔ پھر بقائی میڈیکل یونی ورسٹی سے بھی ماسٹرز اِن پبلک ہیلتھ کیا، یہ ایک دوسری نوعیت کا پروگرام تھا۔ اس میں اسپتال اور اُس سے منسلک دیگر شعبوں کی بہتری سے متعلق پڑھایا گیا۔بعدازاں، ورلڈ بینک کی ایک اسکالرشپ پر کولمبیا یونی ورسٹی، امریکا سے اکنامک پالیسی مینجمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ جس کے دَوران ترقّی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام، قوم کی بہتری کے منصوبوں، اکنامک ماڈلز وغیرہ کے مطالعے اور مشاہدے کا موقع ملا۔

کچھ عرصہ ورلڈ بینک کے ساتھ بھی کام کیا۔ جن دنوں کمشنر ژوب تھا، وہاں پولیو کے خاتمے کے لیے بہت کام کیا۔ اسی دوران پولیو کے حوالے سے تحقیق کا شوق دامن گیر ہوا کہ آخر پاکستان کی اِس مرض سے جان کیوں نہیں چُھوٹ رہی، تو 2013ء میں تحقیقی مقالہ لکھنا شروع کردیا۔ دراصل، عالمی ادارۂ صحت نے 2011 ء میں بھارت میں پولیو کے خاتمے کا ٹاسک ضلعی انتظامیہ کو دیا تھا، مَیں نے اسی کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ کراچی یونی ورسٹی کے سینئر پروفیسر، ڈاکٹر ابو ذر واجدی کی زیرِ نگرانی7 برس کی اَن تھک محنت کے بعد یہ مقالہ مکمل ہوا اور اسے فرانس اور لتھوینیا کے محقّقین کے پاس رائے کے لیے بھیجا گیا، جنھوں نے اسے بہت سراہا۔

س: کراچی جیسے بڑے شہر کا نظم ونسق سنبھالنا تو خاصا مشکل کام ہے؟

ج: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ ممبئی اور بیجنگ کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی، دنیا کی سب سے بڑی بلدیہ ہے۔ ڈھائی کروڑ آبادی پر مشتمل یہ شہر،دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ روزانہ لاکھوں افراد کا دیگر علاقوں سے بھی یہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، کراچی دنیا کے پچاس ممالک سے بھی بڑا ہے۔

شہر کی وسعت کا اندازہ اِس بات سے لگالیں کہ اس میں چھے اضلاع ہیں اور اس کی حدود 3600 اسکوائر کلومیٹر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں 4500 صنعتی یونٹس، 5 انڈسٹریل زونز اور دو پورٹس ہیں۔309 ارکان پر مشتمل شہری کاؤنسل ہے۔ پھر یہ کہ بلدیہ کے تحت درجنوں ادارے کام کر رہے ہیں۔ یقیناً اتنے بڑے شہر کا نظم ونسق سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں، مگر ہم اپنی سی کوشش کررہے ہیں اور بہت سی کام یابیاں بھی حاصل کی ہیں۔

س: آپ کے خیال میں کراچی کےچند بڑے مسائل کون سے ہیں؟

ج: دراصل نو ہزار کی آبادی ڈھائی کروڑ تک پہنچنے سے مسائل بھی بڑھے ہیں۔ اگر عوام کو حاصل سہولتوں کی بات کریں، تو یہ شہر لوگوں کو معاش تو دیتا ہے، لیکن یہاں کے باسیوں کو رہائش کی مناسب سہولتیں بھی نہیں مل پاتیں۔ آج بھی آدھا شہر کچّی آبادیوں پر مشتمل ہے۔یہاں تک کہ قدرتی آبی گزرگاہوں میں بھی آبادیاں قائم ہیں۔ تقریباً ہر سیٹلڈ ایریا کے ساتھ کچّی آبادیاں ملیں گی۔ 

درحقیقت عوام کو مناسب رہائشی سہولتیں نہ ملنے کے سبب اِس طرح کی آبادیاں قائم ہو رہی ہیں، جن کا کوئی قانونی اسٹیٹس نہیں۔ وہاں بجلی اور گیس کے کنکشنز تو لگ جاتے ہیں، مگر پانی اور بنیادی انفرا اسٹرکچر کا فقدان رہتا ہے۔ شہر کا دوسرا بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹیشن ہے۔ کراچی کے علاوہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا میٹرو پولیٹن شہر ہو، جہاں اربن ٹرانسپورٹ سسٹم نہ ہو، جیسے انڈر گراؤنڈ ریلوے وغیرہ۔ نیز، شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

س: بلدیہ عظمیٰ شہریوں کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کیا کر رہی ہے؟

ج: بلدیاتی اداروں نے ماضی میں پانی اور رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بہت کام کیا، مگر اب وہ نظام کم زور پڑتا جا رہا ہے۔ کے ڈی اے نے شہر کو کئی اچھی رہائشی اسکیمز دیں۔اس ادارے نے صرف کراچی ہی نہیں، پورے مُلک کو شعور دیا کہ شہری علاقوں میں کیسے رہا جاتا ہے؟کے ڈی اے اسکیم وَن، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، سرجانی، نیو کراچی، گلستانِ جوہر، کلفٹن، شاہ لطیف ہاؤسنگ اسکیم، لانڈھی اور کورنگی وغیرہ کے رہائشی منصوبے اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اب ٹریفک، نکاسیٔ آب، اسٹریٹ لائٹس اور صفائی ستھرائی کا نظام کم زور ہوچُکا ہے۔لہٰذا، ہمیں طے کرنا ہوگا کہ شہری علاقوں میں رہنے کے جو قواعد وضوابط ہیں، ان پر عمل کرنا ہے یا شہر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

ادارہ ترقّیاتِ کراچی نے دُکانوں اور دفاتر پر مشتمل کئی پراجیکٹس بنائے، جن میں سے کئی ایک مدّتوں سے خالی پڑے تھے یا اُن پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ ہم نے قبضے ختم کروائے، ان عمارتوں کی مرمّت کروائی اور اب دُکانیں نیلامِ عام کے ذریعے عوام کو دے رہے ہیں۔ کورنگی سِوک سینٹر، سرجانی کی دُکانیں چند روز قبل ہی نیلام کی ہیں۔اس اقدام سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ پھر یہ کہ ہماری صنعتی، کمرشل اور رہائشی زمینوں پر بھی قبضے تھے، اب اُنھیں بھی شفّاف طریقے سے نیلام کر رہے ہیں۔

نیز، ادارہ ترقیّاتِ کراچی نے عوام کے لیے ایک نیا شان دار ہاؤسنگ منصوبہ بھی بنایا ہے، جس کا بہت جلد اعلان کردیا جائے گا۔اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں عوام کو سرجانی میں فلیٹس بنا کر دئیے جائیں گے۔ اِسی طرح، ناردرن بائی پاس پر کے ڈی اے ہول سیل مارکیٹ بنا رہے ہیں، کیوں کہ جوڑیا بازار بہت گنجان ہو گیا ہے۔ ہم نے بقایا جات کی وصولی کا نظام بھی بہت بہتر کیا ہے، جس سے بلدیہ کے وسائل میں اضافہ ہوا۔علاوہ ازیں، ایسے مقدمات جو برسوں سے الجھے ہوئے تھے، اُنھیں افہام وتفہیم سے حل کر لیا گیا ہے۔ عوام کے لیے ایک خوش خبری یہ بھی ہے کہ ہم سِوک سینٹر میں ایک بڑا پارکنگ پلازا بنا رہے ہیں۔ 

اس علاقے میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں، حالاں کہ یہاں بے شمار سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر ہیں۔ لوگوں کو اِدھر اُدھر گاڑیاں کھڑی کرنی پڑتی ہیں،جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ صدر کا پارکنگ پلازا بیس برس سے خالی پڑا تھا۔ وہاں140 دُکانیں اور 100 دفاتر ہیں۔ صدر سے تجاوزات کے خاتمے کے بعد اس علاقے کی ویلیو میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے اِس پارکنگ پلازا کی بحالی کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی عمارت کی مرمّت کی، بجلی اور پانی کے مسائل حل کیے۔ اب دُکانیں اور دفاتر نیلام کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ وہاں پارکنگ کا نظام بھی جدید کریں گے۔

س: ٹرانسپورٹ نظام بے حد بوسیدہ ہونے کے ساتھ اذیّت ناک صُورت اختیار کرچُکا ہے؟اس ضمن میں کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج: بلاشبہ ٹرانسپورٹیشن بہت بڑا چیلنج ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ موٹر سائیکلز شاید کراچی ہی میں ہوں گی کہ کسی بھی ٹریفک سگنل پر دیکھ لیں، اُنھیں کا قبضہ نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مناسب ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ہے۔ دہلی، کلکتہ میں دس برس قبل انڈر گراؤنڈ ریل سسٹم شروع ہوا۔دنیا کے باقی بڑے شہروں میں بھی ایسے نظام کام یابی سے چل رہے ہیں۔ پاکستان میں صرف لاہور میں ایسا ہوا، جب کہ اسلام آباد اور راول پنڈی میں میٹرو بسز چلائی گئیں۔ 

تاہم، وفاق اور صوبے نے مل کر کراچی میں بھی گرین لائن، اورنج لائن، ریڈ لائن جیسے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں، جن کی تکمیل پر ٹرانسپورٹ کے کافی مسائل حل ہوجائیں گے۔ پھر یہ کہ بہت سی ذیلی سڑکوں کو بھی ان سے منسلک کیا جا رہا ہے۔دوسری طرف، عدالتِ عالیہ کے حکم پر سرکلر ریلوے پر بھی کام ہو رہا ہے اور اُمید ہے کہ وہ بھی جلد بحال ہو جائے گی۔نیز، اب کچھ نجی کمپنیز بھی عوام کو سفری سہولتیں فراہم کر رہی ہیں۔

س: شہر کے پوش سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی جاکر ایسا لگتا ہے، جیسے دیہات میں آگئے ہوں۔ ٹوٹی سڑکیں، اُبلتے گٹر، دھول مٹّی؟

ج: یہ حقیقت ہے کہ اگر شہر پر اب بھی توجّہ نہ دی گئی، تو یہ کھنڈر بن جائے گا۔ تاہم، بلدیہ عظمیٰ اور حکومت مل کر انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ سڑکوں کی بہتری کے لیے کام ہورہا ہے۔ شاہ راہِ فیصل، یونی ورسٹی روڈ، طارق روڈ، شاہ راہِ قائدین پر کام ہوا ہے۔ملیر ایکسپریس وے پر کام جاری ہے ۔ حکومتِ سندھ مزید سات بڑی سڑکوں کو بھی ازسرِ نو تعمیر کر رہی ہے۔ 

نیز، شہیدِ ملّت روڈ اور شاہ راہِ فیصل سمیت کئی مقامات پر انڈر پاسز بھی تعمیر کیے گئے ہیں، جب کہ مزید انڈر پاسز بھی بنائے جارہے ہیں۔ البتہ چھوٹی سڑکیں چیلنج ہیں، مگر ان کے حوالے سے بھی کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، جن کے نتائج جلد عوام کے سامنے ہوں گے۔ اب نارتھ ناظم آباد ہی کی مثال لے لیں، تو وہاں وفاقی حکومت نے فائیو اسٹار، سخی حسن اور کے ڈی اے چورنگی پر تین فلائی اوورز بنائے ہیں۔ بلاشبہ وہاں سے گزرنے والوں نے ایک عرصے تک بہت مشکلات برداشت کیں، لیکن اب اُن کی مشکلات میں کمی آجائے گی۔

س: شہریوں کو پینے کا صاف پانی کیوں نہیں مل پاتا؟

ج: دیکھیں، طلب اور رسد تو بڑا ایشو ہے، مگر شہر میں پانی کی چوری بھی بہت ہے۔ واٹر بورڈ اور ضلعی انتظامیہ چوری پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہیں، مگر ابھی اس پر کافی کام کرنا باقی ہے۔یقین جانیے، ہم آبادی کے بم پر بیٹھے ہیں۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے،لیکن ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھا گیا ،تو آبادی کا یہ بڑا حصّہ کسی غلط رُخ پر بھی جا سکتا ہے۔ 

بہرحال، پانی کے معاملے میں بھی ہمیں آبادی اور پانی کی دست یابی میں توازن کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔کراچی کو حب ڈیم اور کینجھر جھیل سے پانی ملتا ہے۔زیادہ سے زیادہ پانی حاصل کرنے کے کئی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔پھر یہ بھی کہ ہمیں پانی بچانے کا شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ ہم پانی بہت ضایع کرتے ہیں، نل کھول کر بھول جاتے ہیں، نہاتے ہوئے بے تحاشا پانی گراتے ہیں۔ مَیں آج بھی بالٹی میں پانی لے کر نہاتا ہوں تاکہ ضایع نہ ہو۔ بچّوں کو بھی اسی کی تربیت دی ہے۔

اگر پانی بچ جائے، تو وہ اُسے پھینکنے کی بجائے پودوں میں ڈال دیتے ہیں یا پرندوں کے لیے رکھ دیتے ہیں۔کئی ممالک میں پانی کے میٹر لگے ہوئے ہیں اور وہ اس نعمت کی قدر کرتے ہیں۔ہمیں پینے کے پانی اور استعمال شدہ پانی میں فرق کا احساس ہی نہیں۔جو پانی پیتے ہیں، اُسی سے گاڑیاں دھوتے ہیں۔جس سے بچّے کا فیڈر بناتے ہیں، وہی پودوں کو دیتے ہیں۔

س: تجاوزات کے خلاف آپریشن نے تو لوگوں کو بے روزگار ہی کردیا؟

ج: اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تجاوزات سے شاید ایک آدمی یا ایک خاندان، یا چند سو خاندانوں کو فائدہ ہوتا ہوگا، مگر اس سے لاکھوں کروڑوں افراد کا نقصان ہوتا ہے۔ فُٹ پاتھوں پر قبضے، کُھلی جگہوں پر قبضے، دُکانوں سے چالیس، چالیس فِٹ آگے سامان رکھا ہوتا ہے۔80 فِٹ کی کشادہ سڑک آدھی قبضے میں چلی جاتی ہے، تو اس طرح عوام نے پیدل چلنا چھوڑ دیا، اب لوگ گاڑیوں سے اُترنا پسند نہیں کرتے۔ 

اِسی لیے پیدل خریداری کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ سب سے زیادہ حادثات کی وجہ یہی ہے کہ فُٹ پاتھوں پر قبضے کی وجہ سے لوگ سڑک پر چلنے پر مجبور ہیں، جنھیں گاڑیاں کچل دیتی ہیں۔ تجاوزات سے چند افراد کو تو فائدہ ہوا، مگر ہمارے اسپتال بھر گئے، وہ یوں کہ لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن گئے، صحت کے دیگر مسائل الگ سے ہیں۔ اُنھیں سڑک پر چلتے ہوئے یا خریداری کرتے ہوئے سخت ذہنی اذیّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

خاص طور پر خواتین سے پوچھیں کہ اُنھیں قبضوں کی وجہ سے بازاروں میں کس قدر پریشانی ہوتی ہے؟ دنیا بھر میں لوگ اپنے بچّوں کی انگلیاں تھامے فٹ پاتھ پر چل رہے ہوتے ہیں، مگر تجاوزات کے سبب کراچی میں یہ کلچر نہیں رہا۔ جیولرز اور دیگر دُکان داروں نے بڑے بڑے بورڈز لگا رکھے تھے، شیڈ پچاس پچاس فِٹ آگے نکلے ہوئے تھے۔ٹیبلز پر پہیّے لگا کر آدھے آدھے فٹ پاتھ روک لیتے تھے، ہم نے یہ سب ختم کردیا۔ لائٹ ہاؤس کی مارکیٹ صاف کی، جو نالے پر بنی ہوئی تھی۔اسی طرح پیپر مارکیٹ میں آپریشن کیا۔ آرام باغ، چڑیا گھر کے اطراف ایک الگ تماشا تھا۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہو کہ اندر جنگلی حیات ہو اور باہر ڈیزل انجنز اور جنریٹرز کی مرمّت کی جاتی ہو۔ 

اس سے جانور بیمار ہوگئے، اُن کے تولیدی عمل کو نقصان پہنچا، قدیم اور تاریخی درخت سوکھنے لگے تھے۔ گویا، شہری تجاوزات کی صُورت ایک بڑے عذاب میں گرفتار تھے، جس سے ہم نے اُنھیں نجات دِلانے کی پوری کوشش کی اور مزید کر رہے ہیں۔ ہم نے سپریم کورٹ کے حکم پر ایمپریس مارکیٹ اور صدر کے علاقے کو تجاوزات سے پاک کیا، جو ایک بڑا چیلنج تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ پورے مُلک میں کبھی اس پیمانے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن نہیں ہوا، جیسا ہم نے کیا۔1886 ء میں تعمیر ہونے والی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف خُوب صورت باغیچے ہوا کرتے تھے، جن پر قبضے کرکے پتھارے اور دُکانیں بنا لی گئیں۔

س: مگر یہ دُکانیں تو بلدیہ ہی نے بنا کر دی تھیں؟

ج: بالکل دی تھیں، مگر بلدیہ نے اگر دس دُکانیں دیں، تو قبضہ مافیا نے اُسے کئی سو دکانوں میں بدل دیا۔ ایمپریس مارکیٹ کراچی کی شناخت ہے اور پوری دنیا میں ایسے مقامات کی حفاظت کی جاتی ہے۔

س: کہا جاتا ہے کہ تجاوزات میں بلدیہ کا عملہ بھی ملوّث ہے؟

ج: کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے، ماضی میں ادارے سے بھی کوتاہیاں ہوئیں، مگر اب اُسے اصلاحِ احوال کا موقع ملا، تو اُس نے خود کو بدلا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ غیر قانونی زمین خریدنے اور بیچنے والا، دونوں قصور وار ہیں۔ لینے والے کو بھی پتا ہوتا ہے کہ 50 لاکھ کی چیز 8 لاکھ میں کیوں مل رہی ہے؟ مگر وہ رسک لیتا ہے، تو نتیجہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کسی طرف سے بلدیہ عظمیٰ پر جانب داری کا الزام تک نہیں لگا۔ 

مہم دیانت داری، فرض شناسی اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت چلائی گئی۔ یہ کام یابی اچھی لیڈر شپ اور عملے کی بے مثال جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اب اچھے اور دیانت دار افسران کو عُہدے دیں گے۔ اگر کوئی غیر قانونی کاموں میں ملوّث ہے، تو اسے سزا دی جائے گی اور ہم نے سزائیں دی بھی ہیں۔

س: متاثرین کی بحالی کے لیے بھی کچھ کام ہوا؟

ج: جی ہاں۔ متاثرین کی بحالی کے لیے بھی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔بلدیہ نے اپنی اربوں روپے کی زمین اس کام کے لیے مختص کی ہے۔ ہماری سلطان آباد، گرو مندر، سولجر بازار اور لیاری کی زمینیں اُنھیں دی جا رہی ہیں، جہاں دُکانیں بنائی جائیں گی۔ پوری دنیا میں تجاوزات کا تصوّر ختم ہوچُکا ہے۔ بینکاک کی مثال سامنے ہے۔ دس سال پہلے والا بینکاک ایک ہول ناک منظر پیش کرتا تھا، پھر ایک ایسا ایڈمنسٹریٹر آیا، جس نے پورے شہر کو تجاوزات سے صاف کردیا۔ شہر بہتر ہوا، تو سیّاحوں نے اس کا رُخ کیا۔ عوام کی صحت بھی بہتر ہوئی، امن و امان میں بہتری آئی، کیوں کہ تجاوزات کی وجہ سے امن کے بھی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں نے مل کر مُلکی معیشت کو ترقّی دی۔

س: پارکس کا کوئی پرسانِ حال نہیں، شہری بچّوں کو لے کر یا واک کے لیے کہاں جائیں؟

ج: مسئلہ یہ ہے کہ پارکس بنانا تو آسان، مگر اُنھیں سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ بہت اچھی سپُر ویژن ہو، تب بھی سال ڈیڑھ سال میں معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور ایڈاپٹ پالیسی کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت مختلف تنظیموں، ملٹی نیشنل کمپنیز اور اداروں کو پارکس دیں گے۔ یہ بھی یاد رہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی نے بہت سے عالمی معیار کے پارکس بنائے ہیں۔ باغِ ابنِ قاسم اور جھیل پارک اِس کی مثال ہیں۔ ایک بڑا کارنامہ کڈنی ہِل پارک بھی ہے۔ 62 ایکڑز پر مشتمل یہ جگہ 1964 ء میں ادارہ ترقّیاتِ کراچی نے حاصل کی، جسے 1974 ء میں بلدیہ عظمیٰ کے حوالے کردیا گیا۔ یہ شہر کے وسط میں ایک انتہائی قیمتی جگہ ہے۔ ایک طرف شاہ راہِ فیصل، تو دوسری طرف شہیدِ ملّت روڈ اور کارساز ہے۔ 

اس میں کراچی کا سب سے بلند مقام،’’ جبل الطارق ہے‘‘، جو سطحِ سمندر سے219 فِٹ بلند ہے۔ہم نے سپریم کورٹ کے احکامات پر اس پورے علاقے کو تجاوزات سے پاک کیا۔ وہاں گھر اور دُکانیں بنی ہوئی تھیں، جب کہ بھینسوں کے باڑے بھی قائم تھے۔ نیز، افغانیوں نے لاکھوں ٹن کچرا بھی وہاں ڈال رکھا تھا۔ ہم نے اُسے صاف کرکے ایک شان دار تفریحی مقام میں بدل دیا۔ اسے اربن فاریسٹ کے طور پر بنایا گیا ہے۔ وہاں سے شہر کے ایک بڑے حصّے کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ صرف چار ماہ میں35 ہزار سے زاید درخت لگا چُکے ہیں، جن میں بہت سے پھل دار درخت بھی شامل ہیں۔ 

پھر یہ کہ اس پر حکومت کا ایک پیسا بھی نہیں لگا، سب کچھ ہم نے اپنے وسائل سے کیا ہے۔ اپنی نرسریز سے پودے لیے، ہمارے انجنئیرز نے نقشے بنائے اور دیگر کاموں کی نگرانی کی، ہم نے اپنی گاڑیاں استعمال کیں، کسی پی سی وَن وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑے، جس سے لاکھوں روپے کی بچت ہوئی۔ اچھی تدبیر، بہترین منصوبہ بندی اور فعال ٹیم ورک کے نتیجے میں چند ماہ کے اندر اندر ایک خُوب صُورت پارک وجود میں آگیا۔ اب وہاں فیملیز آتی ہیں۔ تتلیاں، گلہریاں اور بہت سے پرندوں نے وہاں ڈیرے ڈالنا شروع کردئیے ہیں۔ مستقبل میں یہ منصوبہ شہر کو آکسیجن فراہم کرے گا۔

س: کراچی تو کنکریٹ کا جنگل بن گیا ۔کہیں شجرکاری بھی کی جا رہی ہے؟

ج: حکومتِ سندھ نے لیاری اور ملیر ایکسپریس وے کے اطراف بہت بڑا جنگل بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جو شہر کے لیے بے حد فائدہ مند ہوگا۔نیز، ہم سرکاری دفاتر میں شجر کاری کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ دوسروں کے لیے ماڈل ہوتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں درخت نہ ہونے کے برابر ہیں، جو انگریز لگا گئے، وہی ہیں یا وہ بھی کٹ گئے۔ نیز، پارکس اور کھیل کے میدانوں کے اطراف بھی درخت لگوا رہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کو کم ازکم دو پودے ضرور لگائے اور صرف لگائےہی نہیں، بلکہ اُن کی اپنے بچّوں کی طرح آب یاری کرنی چاہیے تاکہ کل کو وہ درخت بھی بن سکیں۔

س: شہر کب صاف ہوگا؟

ج: جب آپ اور مَیں شہر کو صاف کرنا چاہیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ جتنی زیادہ ترقّی ہو رہی ہے، اتنا ہی کچرا بھی زیادہ پیدا ہو رہا ہے۔ 3600 اسکوائر کلومیٹر پر پھیلے شہر کا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں کئی بورڈز اور اتھارٹیز ہیں، جن کے اپنے اپنے علاقے ہیں اور کوئی دوسرا اس میں مداخلت نہیں کرسکتا، مگر عام آدمی کو ان پیچیدگیوں سے کوئی غرض نہیں، اُسے تو جب وہ گھر سے باہر نکلے، گلیاں صاف ملنی چاہئیں۔ 

اصل مسئلہ یہ ہے کہ شہر میں جتنا کچرا پیدا ہوتا ہے، اتنا ٹھکانے نہیں لگایا جاتا، تاہم، اب بہتری آئی ہے۔ پھر یہ کہ اس میں عوام کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں صفائی ستھرائی کا کلچر ناپید ہوتا جا رہا ہے، حالاں کہ ہمارے مذہب نے تو صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ لوگ چلتی گاڑیوں سے باہر کچرا اچھال دیتے ہیں۔ان کی غیر ذمّے داری سے دیگر شہریوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

س: بلدیہ عظمیٰ کے تحت چلنے والے اسپتالوں کی بہتری کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے؟

ج: کراچی میٹرو پولیٹن کا اپنا میڈیکل کالج ہے۔ بلدیہ کے تحت شہر کا تیسرا بڑا اسپتال، عبّاسی شہید اسپتال عوام کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کر رہا ہے، جہاں اندرونِ سندھ، بلوچستان سے بھی مریض لائے جاتے ہیں۔ بلدیہ کا دوسرا بڑا اسپتال’’ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز‘‘ ہے، جو دستگیر کے علاقے میں ہے۔ اُردو بازار کا سوبھراج میٹرنٹی ہوم ایک سو برس پرانا ہے، اسی طرح آئی اسپنسر ہاسپٹل بھی بہت قدیم ہے۔

کراچی انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز بھی قائم کیا ہے، تاہم ہمیں اعتراف ہے کہ ان اسپتالوں کو عالمی معیار تک لانے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ اسپتالوں کے نظم و نسق کی بہتری کے ضمن میں ہم نے بورڈ آف گورنرز کا نظام متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ان بورڈز میں نجی شعبے، بزنس سیکٹر اور ماہرینِ تعلیم شامل ہوں گے۔

س: کس قدر سیاسی مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ج: مجھے اس عُہدے پر تقریباً دوسال ہوگئے اور مَیں ایک سخت انتظامی افسر کے طور پر جانا جاتا ہوں، لیکن کبھی سیاسی مداخلت نہیں دیکھی۔ حالاں کہ مجھے سیاسی ٹیم کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ یونین کاؤنسلز کے چئیرمین، سٹی کاؤنسل، مئیر صاحب وغیرہ۔ مگر کبھی پریشانی نہیں ہوتی، سب کام باہمی افہام و تفہیم اور مشاورت سے کام کیے جاتے ہیں۔

س: سٹی وارڈنز تو فارغ ہی بیٹھے نظر آتے ہیں؟

ج: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ یہ ہمارے شہر کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ پندرہ برس قبل یہ شعبہ قائم ہوا تھا۔ یہ وارڈنز ٹریفک پولیس کے ساتھ مل کر ٹریفک کی روانی بہتر بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔انھیں خصوصی تربیت بھی دلوائی گئی ہے۔بلدیہ عظمیٰ کی عمارتوں میں تعینّات ہیں۔ نیز، ہنگامی حالات میں سندھ پولیس، کراچی پولیس اور ٹریفک پولیس کا بازو بنتے ہیں۔ 

اسی طرح ہمارا فائر بریگیڈ کا عملہ ہے، جو وسائل کی کمی کے باوجود بہترین کام کر رہا ہے، 50 فائر ٹینڈر اور دو واٹر باؤزر وفاقی حکومت سے مل رہے ہیں، سندھ حکومت نے تین اسنارکل، دو فائر ٹینڈرز دئیے ہیں۔ گاڑیاں اور جدید آلات ملنے سے کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔ ہمارا اربن سرچ اینڈ ریسکیو کا بھی ادارہ ہے، جو ناگہانی آفات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔2005ء کے زلزلے میں اس ادارے نے مثالی امدادی کام کیا۔

س: عوام کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی شہری حکومت کے دفاتر میں آنا پڑتا ہے، مگر وہ اہل کاروں کے رویّے سے شاکی ہی نظر آتے ہیں؟

ج:آپ نے بجا فرمایا۔ لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے پریشان پِھرتے ہیں، مگر اب ہم نے اُن کی سہولت کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ کوئی بھی شہری پانی، بجلی، گیس، سڑک کی ٹوٹ پھوٹ، سیوریج اور درخت گرنے وغیرہ سے متعلق ہماری ہیلپ لائن 1339 پر کال کرسکتا ہے۔ پھر یہ کہ ہم نے اداروں میں میٹنگ آورز رکھے ہیں، جن کے دَوران افسران عام لوگوں سے ملتے اور ان کے مسائل سُنتے ہیں۔ اسی طرح، ادارہ ترقّیاتِ کراچی نے عوامی شکایات کے ازالے کے لیے باقاعدہ سیل قائم کیا ہے۔

لوگوں کو اپنی جائیداد کی بہت فکر ہوتی ہے کہ کہیں کوئی ڈبل فائل بنا کر اسے بیچ ہی نہ ڈالے یا قبضہ کرلے، تو کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پورا نظام کمپیوٹرائزڈ کر رہی ہے، ایک کِلک پر جائیداد کی ساری تفصیل سامنے آ جائے گی۔ پھر یہ کہ جائیداد کی منتقلی یا وَرثے کے معاملے میں بیانات کے لیے عوام کو بہت پریشانی ہوتی تھی، وہ رُلتے رہتے تھے۔ ہم نے عوام کی سہولت کے لیے’’ اسٹیٹمنٹ لاؤنج‘‘ متعارف کروایا ہے۔ جہاں ائیر کنڈیشنر کمرے میں بیٹھنے کی بہترین سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ اب گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہوتا ہے۔

س: سرکاری سطح پر واش رومز کی سہولت کا بہت فقدان ہے۔ خاص طور پر خواتین کو اس حوالے سے بہت پریشانی ہوتی ہے؟

ج: واقعی یہ ایک اہم سماجی اور طبّی ایشو ہے۔ اس پر کئی فلمز بھی بن چُکی ہیں۔ ہمارے ہاں اس بنیادی ضرورت کو سرے سے اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔چند جدید شاپنگ سینٹرز چھوڑ کر شہر کی کسی مارکیٹ میں بیت الخلا کا کوئی وجود نہیں، جس کی وجہ سے عوام کی پریشانی کے ساتھ گردے اور مثانے کے امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔تاہم، بلدیہ عظمیٰ پبلک ٹوائلٹس کی تعمیر کے لیے ایک منظّم منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت مختلف مقامات پر پبلک ٹوائلٹس بنا کر ایسے افراد کو مفت دئیے جائیں گے، جو اُنھیں صاف ستھرا رکھ سکیں، کیوں کہ اُن کی مینجمنٹ بھی اہم ہے۔

س: افسران کی تربیت کا بھی کوئی انتظام ہے؟

ج: بہت اچھا سوال ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس بات کا فقدان ہے، خاص طور پر افسران تو عام طور پر ضروری تربیت سے فارغ ہی نظر آتے ہیں۔ تاہم مَیں نے عُہدہ سنبھالتے ہی اس جانب توجّہ دی۔ ہمارا ادارہ’’CIIM‘‘ اس حوالے سے خاصا فعال ہے، جہاں افسران کو مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں، جن میں فائل ورک، ٹینڈرنگ، نوٹس، فنانشل مینجمنٹ، کمپیوٹر سے آگاہی، پبلک ڈیلنگ وغیرہ شامل ہے۔ اسی طرح ہماری’’ نیم‘‘ سے بھی شارٹ کورسز کے لیے بات چل رہی ہے۔فائر بریگیڈ سے وابستہ افراد کی تربیت کے لیے سِول ڈیفینس اور عالمی اداروں سے رابطہ کر رہے ہیں۔

س: منتخب بلدیاتی عوامی نمایندوں کو بھی تو تربیت کی ضرورت ہے؟

ج:جی ہاں، ہم اُنھیں بھی ضروری تربیت فراہم کرتے ہیں۔ ’’CIIM‘‘ مختلف کورسز کا انعقاد کرتا ہے، جس میں ماسٹر ٹرینرز، پبلک اسپیکرز اور اپنی فیلڈ کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہے۔ کاؤنسلرز اور چئیرمین کو دفتری کام، قرار داد، پوائنٹ آف آرڈر پیش کرنے کا طریقہ، کمیٹی اور اجلاس میں کیسے بولنا ہے، فائل کیسے چلتی ہے اور کے ایم سی کے اداروں کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔

س: بلدیہ اپنے ملازمین کو کیا سہولتیں دے رہی ہے؟

ج: بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ملازمین کو وقت پر تن خواہ مل رہی ہے، جو ایک زمانے میں چیلنج بن گئی تھی۔اب پینشنرز کو بھی وقت پر پینشن ملتی ہے۔ عملے کو میڈیکل کی سہولت بھی حاصل ہے۔ادارہ ترقّیاتِ کراچی مالی پریشانی سے گزرا ہے، تاہم اب وہاں بھی بہتری آئی ہے۔ ملازمین کے بقایا جات ادا کیے جا رہے ہیں۔ تن خواہ میں ایک ماہ کا گیپ دُور کردیا اور میڈیکل کے اخراجات کی ادائی کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

س: کراچی کی بہتری کے لیے آپ کیا تجویز دیں گے؟

ج: شہر کی بہتری و ترقّی کے لیے سب سے اہم بات بھرپور منصوبہ بندی ہے۔پھر یہ کہ ہم جو بھی ماڈل اپنائیں، وہ ہمارے سماجی اور جغرافیائی حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ ٹوکیو، نیو یارک یا لندن کی ہو بہو نقل کراچی کے لیے قابلِ عمل نہیں۔ ہمیں اپنی اقدار، مسائل اور وسائل سامنے رکھنا ہوں گے کہ اسی طور منصوبے پائیدار ثابت ہوں گے۔نیز، ہمارے ہاں مینجمنٹ بھی ایک اہم ایشو ہے۔ لہٰذا ہر ادارے میں انتظامی معاملات بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین