میں نے سوچا ہے کہ اس بار میں بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کے الیکشن کیلئے خود کو بطور امیدوار پیش کر دوں۔ اس فیصلے کی پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ میری عمر پچیس سال سے اوپر ہو چکی ہے اور میرے پاس بی اے بلکہ ایم اے کی بالکل اصلی ڈگری بھی ہے حالانکہ موجودہ فارم میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں۔ اس لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ مجھے اوورکوالیفائڈ کہہ کر مسترد کر دیا جائے، بہرحال امید پر دنیا قائم ہے۔
اسمبلی کے امیدوار کیلئے پاکستانی شہری ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے کردار کا حامل اور ایماندار فرد ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں خوبیاں ایسی ہیں جن کی گواہی کوئی دوسرا انسان ہی دے سکتا ہے، خود اپنے منہ سے کون خود کو بدکردار اور بے ایمان کہے گا لیکن ایک بات جو خود کو بھی معلوم ہوتی ہے اور دوسرے بھی بتا سکتے ہیں کہ کسی قسم کے جرم میں ملوث اور قانون سے سزایافتہ کوئی فرد الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پولیس یا ایس ایچ او کی شکل بھی میں نے صرف اس وقت دیکھی تھی جب مجھے اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوانا تھا۔ ڈرائیونگ ٹیسٹ دینے اور لائسنس لینے کے بعد اسی دفتر میں مجھے اپنے اخبار (جنگ نہیں) کے ایک کرائم رپورٹر مل گئے۔ مجھے دیکھ کر بہت خفا ہوئے۔ ”بھابھی آپ کیوں آئیں ٹیسٹ دینے؟ مجھے کہا ہوتا، میں آپ کا لائسنس گھر پہنچا دیتا“۔
خیر دوسری بار ایک ایس ایچ او کی شکل اس وقت دیکھی جب میرے میاں پر حکومتی دباؤ کی وجہ سے کسی بھی قسم کی صحافتی سرگرمیاں انجام دینے پر پابندی تھی تو مجبوراً میرے نام سے ایک پرچے کا ڈیکلریشن فائل کیا گیا۔ چوتھے دن ہی ایک ایس ایچ او صاحب میرے کردار اور سیاسی وابستگی کے بارے میں جانچ کرنے کے لئے ہمارے گھر تشریف لے آئے تھے۔ بہت گرم جوشی کے ساتھ میرے میاں سے گپ شپ کرنے اور چائے وائے پینے کے بعد وہ تشریف لے گئے لیکن ڈیکلریشن ہمیں کبھی نہیں ملا، یہ ضیاء الحق کا سنہری دور تھا۔
امیدوار کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ ہو۔ نیک بختو! ہمارے تو ماں باپ بھی کشتیاں جلا کر آئے تھے، پھر کبھی پلٹ کر اپنے آباؤاجداد کی مٹی کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ہم ہیں کہ ہم سے تو یہی اکلوتی شہریت نہیں سنبھلتی۔ دو دو جگہ ٹانگیں پھیلا کر کیا کرینگے، رہی پاکستانی آئیڈیالوجی کی مخالفت اور ملکی سالمیت کیخلاف کوئی کام کرنا…تو جس تھالی میں کھائیں…اس میں چھید کرنا ہمارے ماں، باپ نے ہمیں کبھی نہیں سکھایا۔
اسمبلی کے امیدواروں سے ان کے اثاثہ جات کی فہرست بھی مانگی جاتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ روزمرّہ کے استعمال میں آنے والی چیزوں مثلاً ٹی وی، فریج اور گاڑی وغیرہ کے علاوہ ہمارے پاس ایسا کوئی اثاثہ نہیں کہ ہماری رات کی نیندیں اور دن کا چین غارت ہو جائے۔ رہنے کا ٹھکانہ ہے تو وہ مالک مکان جانے اور ٹیکس لینے والے، ہمیں تو کرایہ دینے سے غرض ہے اور وہ بھی ایمانداری سے۔ اب رہی پچھلی کارگزاری تو چونکہ یہ پہلا پہلا تجربہ ہو گا اس لئے یہ خانہ بھی خالی ہے۔
لیکن آپ شاید حیران ہو رہے ہوں گے کہ میرے سر میں یہ سودا سمایا ہی کیوں، تو وجہ بتاتی ہوں۔ خیر سے اس ضمن میں میں تجربہ کار ہو چکی ہوں یعنی گزشتہ سندھ اسمبلی کے آخری سیشن میں چار گھنٹے گزار چکی ہوں۔ وہی سندھ اسمبلی کی عمارت جس کے قریب سے ہزار دفعہ گزرنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پہلی دفعہ مدعو کئے جانے والے کچھ لوگوں کے ساتھ اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کا موقع ملا۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے پہلی دفعہ اپنی مدت پوری کی تو اس خوشی میں جناب نثار کھوڑو (اسپیکر سندھ اسمبلی) کو یہ خیال آیا کہ اس حکومت کے دور میں موجود کچھ دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو مدعو کیا جائے تاکہ وہ آخری سیشن کی کارروائی میں شریک ہوں۔ کھوڑو صاحب وہ پہلے معقول انسان ہیں جنہوں نے مجھے بھابھی کے قابل احترام رتبے پر متمکن کرنے کی بجائے مجھے میرے نام سے یاد کیا۔ سو اس طرح خوشی خوشی میں بھی میاں کی ہم راہی میں وہاں پہنچ گئی اور چار گھنٹے وہاں گزارے، مختلف چیزوں پر ارکان کے اظہار خیال اور جناب قائم علی شاہ (وزیراعلیٰ سندھ) کی تفصیلی رپورٹ سنتے سنتے مجھے پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ ہمارے یہ نمائندے جنہیں ہم ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، وہاں پہنچ کر کس مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔
پہلا تاثر تو یہ ہے کہ سب نمائندے سنجیدہ نہیں ہوتے یعنی انہیں خود کو سونپی گئی ذمہ داری کا احساس ہی نہیں ہوتا لیکن جو لوگ اپنے کام اور ذمہ داریوں سے سنجیدہ ہوتے ہیں انہیں بولنے یا اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا۔ اول تو ہر فرد بولنا چاہتا ہے، دوسرے حکومتی اور اپوزیشن بینچوں میں رسہ کشی کی سی کیفیت رہتی ہے۔ ایک مسئلہ ابلاغ کا بھی ہے۔ ضروری نہیں کہ اسمبلی میں الیکشن کے ذریعے آنے والا ہر ممبر، وہ خاتون ہو یا مرد، اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر آسانی سے قادر ہو۔ اس سلسلے میں یہ بات ضروری ہے کہ خوبصورت اسمبلی ہال کا ساؤنڈ سسٹم ٹھیک کیا جائے تاکہ مقررین کی تقاریر گیلریوں میں بیٹھے مہمانوں کے کانوں تک بھی پہنچ سکیں، اس کے لئے ہال کی دیواروں کو ECHO PROOF کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ صورت میں پیدا ہونے والی گونج کے سبب بولے جانے والے الفاظ مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں۔یہاں میں اسپیکر نثار کھوڑو کے صبر اور تحمل کی داد دینا ضروری سمجھتی ہوں جنہوں نے نہ صرف ایوان کے نظم و ضبط اور وقار کو برقرار رکھا بلکہ ریزولیوشن پیش کرنے والوں کی سمجھ میں نہ آنے والی باتوں کو خندہ پیشانی سے سن کر اور ضابطے کی کارروائی کے مطابق دوبارہ پڑھ کر ارکان کو بتایا کہ ریزولیوشن پیش کرنے والے کیا کہنا چاہتے ہیں۔
ایک بات جو مجھے سب سے زیادہ دلچسپ لگی وہ یہ ہے کہ گورنر باکس میں صرف ہم چار لوگ ایسے تھے جو آخر تک اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے، باقی ارکان اسمبلی میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ہر چار پانچ منٹ بعد ایوان سے باہر نہ جاتا ہو۔ بظاہر اس پر کوئی قدغن بھی نہیں تھی اور شاید اس سے ایوان کا وقار بھی متاثر نہیں ہوتا تھا۔
ایک بات پر البتہ تعجب بھی ہوا کہ اکثر اخبارات اور ٹی وی کی خبروں میں اسمبلی کی کارروائی کے دوران شور ہنگامے اور جھگڑے کی سی کیفیت دکھائی جاتی ہے مگر افسوس ہمارے وہاں ہوتے ہوئے ایسا کوئی تماشہ نہ ہوا۔