لاہور ہائیکورٹ نے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کی سینئر رہنما مریم نواز کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
عدالت نے اس نکتے پر فیصلہ محفوظ کیا کہ آیا مریم نواز کی درخواست کی سماعت نواز شریف کی درخواست کے ساتھ کی جائے یا نہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے اس نکتے پر بھی معاونت طلب کرلی کہ مجرم کے کون سے حقوق معطل ہوتے ہیں۔
جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل بنچ نے مریم نواز کا پاسپورٹ واپس کرنے اور نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نواز شریف کو واپس لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، ایسے میں یہ درخواست کیسے آگے چل سکتی ہے؟
مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے بیان حلفی پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دی تھی، حکومت نے اس لیے اجازت دی تھی کہ سرکاری ڈاکٹروں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ جب نواز شریف کو توسیع نہیں دی جا رہی تو مریم کو کیسے جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
عدالت نے مریم نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے توسیع کا معاملہ چیلنج کیا، مریم نواز کے وکیل نے بتایا کہ درخواست تیار کی جا رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ جب نوازشریف صحتمند ہوں تو واپس آ جائیں، وکیل نے کہا کہ تمام میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کرادی ہیں، مریم نواز کے والد کی طبیعت سخت خراب ہے، پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے بنیادی حق ہے کہ بیٹی باپ کی تیمارداری کرے۔
عدالت نے کہا کہ جب تک نواز شریف کی توسیع کے حوالے سے حکومتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا جاتا، مریم نواز کی درخواست کس طرح قابلِ سماعت ہے، کیا نواز شریف اور مریم نواز کے کیسز اکٹھے سن لئے جائیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس سے اتفاق کیا تاہم مریم نواز کے وکلا نے اعتراض کیا کہ دونوں کیسز مختلف ہیں، الگ الگ سنےجائیں، عدالت نے دونوں مقدمات کو اکٹھا سننے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔