خیرپور میں امن و امان کی صورت حال گزشتہ کئی عشرے سے ابترہے ۔ کچھ عرصے سے اس ضلع میں جرائم میں ہوشربااضافہ ہوا ہے۔ کچی شراب پینے سے تین افراد ہلاک ہوئے۔موٹر سائیکلیں چھیننے کی وارداتیں، مزاحمت پر تشدد، قتل چوری ، ڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتیں سر فہرست ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام ہیں اور منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چشم پوشی کی وجہ سے اس ضلع میں سماجی اور اخلاقی برائیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ یہ تمام جرائم پولیس کی سرپرستی میں ہورہے ہیں۔اس ضلع میں غریب کی عزت محفوظ نہیں رہی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون یہاں رائج ہے۔ با اثرافراد غریب کے گھروں میں گھس کر اس کی عزت پامال کر رہے ہیںلیکن کوئی ان کی دادرسی کرنے والا نہیں۔ اگر فریاد کرنے تھانے جائیں تو وہاں براجمان افسر و اہل کار فریادی کو ہی ڈراتے، دھمکاکر بھگا دیتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں گائوں زبیر حاجی میں رینجرزکے ریٹائیرڈ اہلکار علی حسن موجائی نے اپنے اہل وعیال کےہمراہ پیر وسن پولیس اور با اثرافراد کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران علی حسن موجانی نے الزام عائد کیا کہ علاقے کے ایک بااثر نوجوان شاہد راجپرنے مبینہ طور پر اپنے ساتھی کی مدد سے میرے گھر میں داخل ہوکر میری بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے کے بجائے اسےتحفظ دے رہی ہے۔
گائوں احمد موجائی کےنوجوان اختر موجائی کو اغوا کرلیا گیا۔ جس کی اطلاع پولیس کو دی گئی لیکن پولیس اسے بازیاب کرانے میں ناکام رہی ہے۔ گائوں کے افراد حبیب اللہ موجائی، شمشاد احمد اور عبدالغفور موجائی کی قیادت میں موجائی برادری کے مرد ،خواتین اور بچوں نےمذکورہ نوجوان کی بازیابی کے لیے ٹھری ،محراب پور روڈ پرسیٹھارجہ تھانے کی پولیس چوکی کے سامنےمظارہ کیا ۔ انہوں نے ٹائر جلاکر روڈ بند کردیا اور دھرنا دیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ گذشتہ شب نامعلوم کار سوارمسلح افراد ،نوجوا ن کو اغوا کرکے لئے گئےہیں۔ اس دوران مظاہرین اورپولیس چوکی پر موجود اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔مظاہرین کی طرف سے اینٹوں اور لاٹھیوں کا استعمال کیا گیا جس کے باعث پولیس پکٹ کے انچارج طالب حسین سہتواور پولیس کانسٹیبل ساجد علی عامرزخمی ہوگئے۔ سیٹھارجہ تھانے کے ایس ایچ او نے زخمی اہل کاروں کو اسپتال پہنچایا۔ پولیس کی جانب سے دھرنا ختم کرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی۔ بعد ازاں ڈی ایس پی میرواہ عبدالقیوم مہر نے وہاں پہنچ کر مظاہرین سے مذاکرات کیے اور انہیںانصاف دلانے اورمغوی نوجوان کو بازیاب کرانے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہوگئے۔
دھرنا ختم ہونے کے بعد سیٹھارجہ پولیس نے اے ایس آئی عبدالغفور کی مدعیت میں حبیب اللہ، عزیزاللہ، بڈھل، اختر حسین ,،ایم، شمشاد، طارق علی، غفار علی، نثار سمیت بیس نامعلوم افراد کے خلاف روڈبلاک کرنے اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام میں ایف آئی آردرج کرلی گئی۔دھرنے کے شرکاء کے خلاف ہی دوسری ایف آئی آرٹاؤن کمیٹی محراب پور کے وائس چیئرمین جاوید حسین میمن نےدرج کرائی جس میں الزام لگایا گیا ہےکہ گائوں احمد موجائی میں مذکورہ ملزمان نے مبینہ طور پر زرعی اراضی پر قبضہ کرکے مکانات تعمیر کئےہیں ۔ جاوید میمن کے مطابق اس زمین کے مالک ناصر عبداللہ نے انہیںپاور آف اٹارنی دی ہوئی ہے ۔ جس کےمطابق انہوں نے اس زمین پرکمرشل پلاٹنگ کی ہوئی ہے۔میرے منع کرنے کے باوجود ان افراد نے دو ایکڑ زمین پر قبضہ کیاہواہے اور مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہےہیں۔ دوسری جانب ایف آئی آر میں نامزملزمان حبیب اللہ موجائی اور دیگر کا کہنا ہےکہ انہوں نے کسی کی زمین پر قبضہ نہیںکیا۔نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے آباء و اجد اداس زمین پر صدیوں سے آبادہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ زمین’’بالو شاہ قبرستان‘‘ کے لئے مختص ہے۔انہوں نے الزام لگایاکہ جاوید میمن اپنے اثررسوخ اور دولت کے بل بوتےپر ہمیں یہاں سے بے دخل اور قبرستان کو مسمار کرکےاس پر پلاٹنگ کرنا چاہتا ہے ۔ اسے پولیس کی بھی مدد حاصل ہے جو اس کی ایماء پر عدالت کے احکامات کے بغیر بھاری مشینری کے ذریعے قبرستان اورہمارے گھروں کو مسمار کرنے کے علاوہ ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے ہمیں ہراساں کررہی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر سکھر کے نئے ڈی آئی جی سے مطالبہ کیا کہ انہیں جاوید میمن جیسے بااثر افراد اور پولیس کے مظالم سے بچایا جائے ۔
شہر و قصبات میںمنشیات کی آزادانہ خرید و فروخت جاری ہے۔ چند روز قبل سیٹھارجہ میںمبینہ طور سے کچی شراب پینے سے معراج خالد میڈیکل اسٹور کے مالک خالد سولنگی،رضوان وسان ، عرفان راجپراور ارشاد راجپر کی حالت خراب ہوگئی جس کے باعث خالد سولنگی ہلاک ہوگئے جبکہ عرفان راجپراور رضوان وسان نے اسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا۔منشیات سے متاثرہ چوتھاشخص ،ارشاد راجپراسی اسپتال میں زیر علاج ہے ۔ چند روز قبل سیٹھارجہ کے مٹیریل سپلائیر زوار علی بخش لوند کو دو مسلح افراد نے دوکان میں داخل ہوکر لوٹنے کی کوشش کی۔ مزاحمت پر اس کو گولی مار دی جسے تشویش ناک حالت میں سول اسپتال خیرپور پہنچایا گیا جہاں وہ فوت ہوگیا ۔ورثاء نےمقتول کی لاش سئی گیس چوک
پر رکھ کر دھرنا دیا۔ پولیس کی جانب سے ملزمان کو گرفتار کرنے کی یقین دہانی کے بعد دھرنا ختم کردیاگیا، لیکن اب تک کسی بھی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔
منشیات اور جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے شہری خوف و ہراس کا شکار ہیں۔اس سلسلے میں سماجی رہنماؤں صنم راجپر، ایڈووکیٹ پرویز مہدی ، ایڈووکیٹ گلشیر منگنیجو اور دیگر افراد نے سکھر ریجن کے اعلی پولیس حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ منشیات فروشوں جرائم پیشہ افراداور پولیس میں موجود کالی بھیڑیوں کے خلاف کارروائی کرکےخیرپور میں امن و امان کی فضا بحال کی جائے۔