(ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر)
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو آج 37سال ہونے کو ہیں ان گزرے دنوں کا ایک ایک لمحہ عوام الناس کی اذیت اور کرب کا گواہ ہے۔ 3اور 4اپریل1979ءکی درمیانی شب قائد عوام کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ یوںبھٹو نے اپنا نام تاریخ کے باغیوں میں لکھواتے ہوئے خود کو وقت کا سقراط ثابت کیا۔
موسم آیا تو نخل دار پہ میرؔ
سر منصور ہی کا بار آیا
بھٹو نے بزدلی کے لاکھوںدقیقوں پر بہادری کے ایک لمحہ کو فوقیت دی اورغاصب و آمر کے ہاتھوں شہید ہو کر تاریخ میں امر ہونے کا راستہ چنا۔ عوام الناس اُس ایک لمحہ کو بھٹو کی موت سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ اُسے ابدی زندگی کا استعارہ مانتے ہوئے بھٹو کی روح کو اپنے اندر محسوس کرکے کہتے ہیں’’میں بھٹو ہوں‘‘تو قاتل گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گڑھی خدا بخش میں کون دفن ہے؟ ‘‘ عوام نے اُس لمحے کے غم کو اپنی طاقت میں تبدیل کر لیا اور وہ جو وارثوں کے بغیر صرف چند لوگوں کے ساتھ بھٹو کی تدفین کرکے سمجھ رہے تھے کہ ’’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ وہ اس دور افتا دہ قصبہ میں لاکھوں لوگوں کا میلہ سجا دیکھ کر آج بھی دہل جاتے ہیں کہ جیالے ملک بھر سے جو ق در جوق بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے پہنچ جاتے ہیں۔بھٹو نے پسے اور کچلے ہوئے طبقے میں شعور بیدار کیا کہ بے بسی کی ایسی زندگی تمہارا مقدر نہیں ہے بلکہ تم ہی اصل حاکم ہو ۔بھٹو نے مظلوم طبقات کو متحد کرکے رعایا کو عوام بنا دیا اور پھر اپنی تحریک اور جدوجہد کے ذریعہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قراردیا۔ یوں عوام کو حق حاکمیت ملا عام آدمی پہلی دفعہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا عوام کا قائد پہلے صدر اور پھر وزیر اعظم منتخب ہوا۔ پاکستان کا پہلا متفقہ آئین منظور ہوا جس میں عوام کے حقوق کا تعین ہوا اور وفاق کی اکائیوں کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوئے جس سے وفاق مضبوط ہوا۔ اس طرح پہلی دفعہ عوام اور ریاست کے درمیان تعلق قائم ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو نے پرامن خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کے عزم کو آگے بڑھاتے ہوئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تاکہ خطہ میں جنگ و جدل کا خاتمہ ہو۔ شملہ معاہدہ اور ایٹمی پروگرام پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل ترین امن کے دور کی بنیاد بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کے ذریعہ عوام کو مضبوط بنایا اور پاکستان کی اندرونی سلامتی کو یقینی بنایا۔ ایٹمی پروگرام کے ذریعے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا کر ریاست کی بیرونی سلامتی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ متفقہ آئین کے ذریعہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانے پر ایک طبقہ بھٹو کا دشمن بن گیا اور ایٹمی پروگرام نے عالمی استعمار کو ذوالفقار علی بھٹو کے خون کا پیاسا بنا دیا اور ان دونوں نے مل کر بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ ریاست کے اداروں کے ذریعہ5جولائی1977ءکو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین منسوخ کر دیاگیا۔ جس کے نتیجہ میں عوام اور ریاست کے درمیان تعلق ٹوٹ گیا۔3اور 4اپریل1979ءکی درمیانی رات عدالتی فیصلہ کے ذریعے قائدعوام کو پھانسی دے کر عوام اور ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔عوام کو جب جب موقع ملا انھوں نے بھٹو وز کومنتخب کرکے ریاست کے امور انکے سپرد کئے۔ ریاست کے سب سے بڑے اور معتبر عہدے پر منتخب ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے عدالت عظمیٰ میں ریفرنس دائر کیا تاکہ ریاست کے چہرے سے خون کے یہ داغ دھل سکیں۔ کیونکہ بھٹو کے عدالتی قتل کا فیصلہ ایسا فیصلہ ہے جسے کبھی بھی عدالتی نظیر کے طور پر نہیں مانا گیا اور عوام تو روز اول سے ہی اس فیصلہ کو ماننے سے انکاری رہے۔ جمہوری پاکستان کا بانی اور آئین کا خالق تو سزاوار ٹھہرا مگرپاکستان کو دہشت گردی کی آماجگاہ بنانے والے اور آئین شکن بے گناہ قرار پاتے ہیں۔ شہید بھٹو نے دوران مقدمہ جو کچھ کہا اُس کی بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ ’’میرا مقام ستاروں پر رقم ہے۔ میرا مقام بندگان خدا کے دلوں میں ہے۔ میں محکوموں اور محنت کشوں کا نمائندہ ہوں اور تم امیروں کی نمائندگی کرتے ہو۔ میں ادارے بنانے پر یقین رکھتا ہوں اور تم انھیں ہتھیانے کی متمنی ہو۔ میں ٹیکنالوجی پر یقین رکھتا ہوں۔ تم ریاکاری میں مصروٖف ہو۔ میرا دستور پر یقین ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ دستور کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ میں خواتین کی آزادی جاہتا ہوں تم انھیں اندھیرے میں چھپائے رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے سرداری نظام ختم کیا تم اسے بحال کرنا چاہتے ہو۔ میں مشرق پر یقین رکھتا ہوں۔ تم مغرب کے کاسہ لیس ہو۔ ہم ایک دوسرے سے قطبین کی دوری پر کھڑے ہیں اور میں اس دوری پر خدا کا شکر بجا لاتا ہوں۔ تم تعفن زدہ ماضی کی بھی نمائندگی نہیں کرتے اورمیں مستقبل کی درخشانیوں کا نمائندہ ہوں۔ تم نے تو ہمارے مذہب کی تبلیغ کو پراگندہ کر دیا ہے یہاں تک کہ قتل و غارت پورے قہر کے ساتھ شروع ہو گئی ہے۔ جب تم پاکستان کی سلامتی کی بات کرتے ہو تو براہ کرم ہمیں بتا دو کہ تم پاکستان کیا بنانا چاہتےہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ایک ایک حرف کی صداقت کی گواہی 13515دنوں کا ایک ایک لمحہ دے رہا ہے۔ یہ پھانسی کے اُس لمحہ کا خراج ہی ہے کہ ارض وطن لہو رنگ ہے۔ عوام تو 37سال قبل یہ فیصلہ کر چکے کہ وہ کس صف میں ہیں اور یہی آواز ِخلق ہے کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘
ریاستی اداروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں خلق خدا کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا نہیں۔ ریاست کو دوبارہ اپنا تعلق عوام کے ساتھ جوڑنا ہے یا نہیں۔ سیاست کے قلندر بھٹو کی روح آج بھی ریاست اور ہم سے سوال کر رہی ہے کہ
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا؟