• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کہ انصاف کا پہیہ آہستہ سے گھومتا ہے مگر میرے کیس میں لگتا ہے کہ یہ جمود کا شکار ہے۔ ایک سال تک بگرام کے ہوائی اڈے پر تشدد اور انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنانے کے بعد 2004میں مجھے گوانتا نامو لایا گیا۔ پندرہ سال بعد (2019میں) آخرکار ایک امریکی عدالت نے اس کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا کہ آیا حکومت میری حراست کو جاری رکھ سکتی ہے یا نہیں۔ گویا کسی عمر رسیدہ بزنس مین کے بجائے میں کوئی دہشت گرد ہوں۔ مجھ پر کبھی کسی جرم کا الزام تک عائد نہیں کیا گیا تھا۔ واشنگٹن کی وفاقی عدالت میں چالان کی سماعت بس جارج اورویل کے کسی ناول کی طرح تھی۔

کیس کی سماعت 21اکتوبر 2019کو شروع ہوئی۔ مجھے بس یہ علم تھا کہ میں اپنے وکیلوں سے گفتگو اور کیوبا سے براہِ راست عدالتی کارروائی ملاحظہ کر سکوں گا۔ جیل کے گارڈز نے مجھے وڈیو روم کے نام پر ایک ایسی وین میں بٹھا دیا جس میں کوئی کھڑکی تک نہ تھی۔ ہمارے وہاں پہنچنے پر علم ہوا کہ کیمرہ کام نہیں کر رہا، اب میں عدالتی کارروائی صرف سن سکتا تھا، نہ میں انہیں دیکھ سکتا تھا، نہ وہ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ عدالتی کارروائی صبح 10بجے شروع ہوئی اور میں نےابتدائی بیانات سنے۔ چند منٹ تک حکومتی وکیل بولا، پھر میرے وکیل نے بہت احسن انداز سے تقریباً آدھ گھنٹے تک میرا کیس پیش کیا۔ یہ ایک اچھی شروعات تھی ،مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ 10دن تک جاری رہے گی لیکن 40 منٹ بعد ہی مجھے واپس حوالات میں بھیج دیا گیا۔

یہ بہت عجیب ہے کہ آپ کا فیصلہ ان الزامات کی بنیاد پر کیا جائے جو آپ نے کبھی دیکھے نہیں۔ میں بہت شدت سے چاہتا تھا کہ کورٹ میں ہونے والی کارروائی سے نہ صرف آگاہ ہو سکوں بلکہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکوں، تاہم مجھے یہ تسلی تھی کہ میں اپنے وکلا کو یہ حقائق بتا چکا تھا کہ کیسے مجھے تھائی لینڈ سے اغوا کیا گیا اور کس طرح افغانستان میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہ کہ کیسے مجھ پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات خود لگانے والوں پر اُلٹے پڑ رہے ہیں۔ اس سماعت کی صدارت جج پال فرائیڈمین کر رہے تھے، اور جیسے میں نے سنا، اس کے مطابق ہم دونوں میں کافی چیزیں مشترک تھیں۔ ہم دونوں 70سال سے زائدالعمر ہیں، میرے وکلا کے مطابق‘ وہ بھی ایک شریف آدمی ہیں، میں توریت اور بائبل جبکہ وہ قرآن پاک کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ اگر کبھی ہم ڈنر پر گفتگو کریں تو مجھے یقین ہے کہ بہت سی چیزوں میں ہمارے خیالات یکساں ہوں گے؛ تاہم مجھے اُن سے گفتگو کرنے کی اجازت نہ تھی۔ مسیحی شادیوں کی تقریب میں ایک لمحہ آتا ہے جب وزیر (پادری) پوچھتا ہے کہ آیا کسی شخص کے پاس کوئی ایسی وجہ ہے کہ ان دونوں افراد کو شادی کے مقدس بندھن میں نہیں بندھنا چاہئے؟ مجھے شک ہے کہ امریکی حکومت کے کسی وکیل نے ہاتھ کھڑا کر کے میرے خلاف من گھڑت اور جھوٹے الزامات بیان کر دیے ہیں لیکن میں انہیں نہیں سن سکتا، نہ ہی ان کا جواب دے سکتا ہوں کیونکہ یہ سب ایک راز ہے۔

اگر میں وہاں ہوتا تو میں جج فرائیڈمین کو بتا سکتا تھا کہ نہ میں نے کسی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور نہ ہی مجھے کسی میدانِ جنگ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ 2003میں مجھے تھائی لینڈ میں بہانے سے بلایا گیا اور بعد میں اغوا کر لیا گیا، وجہ صرف یہ تھی کہ تشدد کے دوران کسی قیدی نے میرا نام لیا تھا کہ میں دہشت گردی میں ملوث ہوں حالانکہ میرا کبھی کسی ایسی سرگرمی سے تعلق نہیں رہا۔ اگر جج مجھ سے ملتا تو میں اسے یہ سب بتا سکتا تھا اور وہ فوری طور پر جان لیتا کہ میں سچ بول رہا ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ کا فیصلہ ایک ایسا شخص کر رہا ہو جس سے آپ کبھی ملے بھی نہیں، وہ بھی اُن الزامات کی بنیاد پر جو آپ کے علم میں نہ ہوں، ایسے حقائق پر جو آپ دیکھ نہ سکیں۔ مجھے اب بھی علم نہیں کہ میں نے کیا غلط کیا یا یہ کہ گواہوں نے میرے متعلق کیا کہا، بس میں کیس ہار گیا تھا۔ میرے ایک وکیل کو خفیہ فیصلے کا مطالعہ کرنے واشنگٹن سے 370میل دور جانا پڑا۔ جج فرائیڈمین نے 124صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا تھا جس کے مطابق مجھے ہمیشہ کے لیے گوانتا نامو میں قید کیا جانا تھا۔ کیوں؟ وہ مجھے نہیں بتا سکتے۔ کیوں؟ میں نہیں جانتا۔ چونکہ یہ فیصلہ ایک راز ہے لہٰذا میں اس کا مطالعہ بھی نہیں کر سکتا۔ البتہ میرے وکلا نے کہا ہے کہ وہ کوشش کریں گے کہ وہ اب سے چند ماہ بعد مجھے اس کا ترمیمی (سنسر شدہ) مسودہ مہیا کر دیں۔

کچھ بے حد غلط ہوا ہے، بےحد مایوس کن، جس کا بار مجھ پہ ہے۔ میں شوگر کا مریض ہوں، جوڑوں کا درد بھی مجھے لاحق رہتا ہے، ہفتے میں ایک یا دو بار سینے میں شدید درد بھی ہوتا ہے جو موت کا الارم بجاتاہے، مجھے دو بار دل کا دورہ پڑ چکا ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ تیسرا دورہ آخری ہوگا، لگتا ہے میں یہیں مروں گا، شاید جلد ہی۔ میں نے پچھلے سترہ سال سے اپنے خاندان کو نہیں دیکھا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم پہلے ہی گوانتا نامو میں دفن ہو چکے ہیں اور یہی ہمارا انجام ہے۔ جب ہماری سانسیں بند ہوں گی تو وہ ہمیں سمندر کی قبر میں اتار دیں گے۔میں نیویارک میں بھی رہا ہوں، میں اس سارے عمل کو جانتا ہوں، یا کم از کم یہ میرا خیال ہے کہ میں جانتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں جانتا تھا کہ امریکہ میں انصاف کے کیا معنی ہیں لیکن گوانتا نامو بے شاید کوئی الگ ہی دنیا ہے۔

(مضمون نگار گوانتانامو بے کے سب سے پرانے قیدی ہیں جہاں 2004سے انہیں کسی الزام کے بغیر گرفتار کرکے رکھا گیا ہے)

تازہ ترین