کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کے بڑا ٹیکس دہندہ اور روزگار فراہم کرنے والے شخص کا احتساب نہیں کیا جارہا انتقام لیا جارہا ہے، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری میڈیا کو دبانے کی کوشش ہے، میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہر جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر اسمبلی میں آواز اٹھائی مگر اس کے بعد اسمبلی provok کردی گئی، ن لیگ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر اسلا م آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کرنے جارہی ہے ، توقع ہے دیگر جماعتیں بھی ہماری اس پٹیشن میں شامل ہوں گی، کسی شخص کے ساتھ بھی ایسا سلوک انصاف کے نظام کی نفی ہے، ملک کے بڑا ٹیکس دہندہ اور روزگار فراہم کرنے والے شخص کا احتساب نہیں کیا جارہا انتقام لیا جارہا ہے، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری میڈیا کو دبانے کی کوشش ہے، میڈیا کو پیغام دیا جارہا ہے کہ آپ حق وا نصاف کی بات کریں گے تو آپ کے ساتھ یہی ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی ویڈیو سب سے پہلے ہمارے پاس آئی تھی لیکن ہم نے اسے استعمال کرنے سے انکار کردیا تھا، چیئرمین نیب کی ویڈیو بھی معاملات کی تحقیقات کرنے والے کمیشنوں کی نذر ہوگئی، چیئرمین نیب کے علاوہ کسی شخص کا ایسا معاملہ ہوتا تو کبھی معاف نہ کیا جاتا، اس ویڈیو کے بعد چیئرمین نیب کی مورال اتھارٹی ختم ہوگئی تھی وہ خود استعفیٰ دیتے تو بہتر ہوتا، یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا چیئرمین نیب اس ویڈیو کی وجہ سے بلیک میل ہورہے ہیں، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری جیسے کام چیئرمین نیب خود کررہے ہیں یا کوئی ان سے کروارہا ہے، نیب کے کنڈکٹ کے بارے میں پورے ملک میں شبہات سامنے آرہے ہیں جو احتساب کے عمل کیلئے بڑا دھچکا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آپ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کررہے اور میڈیا کو دبارہے ہیں ،اب اگر آپ خود اپنے ملک میں سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کے ایڈیٹر کو پکڑلیں تو دوسری طرف کیا الزام لگائیں گے، آج لوگ آپ پر ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی، میڈیا کو دبانے کا الزام لگارہے ہیں، اس سے ہمارا انڈیا اورکشمیر پر موقف اور انڈیا و افغانستان سے متعلق پالیسی متاثر ہوتی ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ اس معاملہ کو ختم کیا جائے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے، نائب معاون وزیرخارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے، ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم پاکستان کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی کے مالک میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، صحافت کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہر جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں، یہ ایک بہت بڑی خبر ہے اور بری خبر ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ صرف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں دیگر عالمی ادارے بھی میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی مذمت کررہے ہیں، یہ بری خبر اس لئے ہے کہ اب سے کچھ دن پہلے تک ہم پاکستان میں ناظرین کو بتارہے تھے کہ وزیراعظم مودی نے بھارت میں جس طرح میڈیا پر کریک ڈاؤن کیا ہے اس سے بھارتی حکومت کا چہرہ بے نقاب ہورہا ہے، بھارت میں آزادیٴ اظہار کریک ڈاؤن پر ساری دنیا کے بڑے بڑے ادارے بات کررہے تھے مگر اب بڑے بڑے ادارے میڈیا کی صورتحال پر پاکستان کے حوالے سے تشویش کا اظہار کررہے ہیں، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری جنگ گروپ کے صحافیوں کو ہراساں کرنے کا اقدام ہے، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نے بھی میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتاری آزادیٴ صحافت کے حکومتی دعوؤں کی ہنسی اڑانے کے مترادف ہے، اس کے علاوہ فریڈم نیٹ ورک نے بھی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتاری کا براہ راست تعلق نیب پر تنقیدی رپورٹنگ سے ہے، دیگر ادارے بھی پاکستان میں میڈیا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں وہ بھی ایسی صورتحال میں جبکہ ہم دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دکھارہے تھے اور بتارہے تھے کہ بھارت میں میڈیا پر پابندی ہے، عالمی میڈیا مودی حکومت کو بے نقاب کررہا تھا، ایسے وقت میں اب عالمی ادارے اور میڈیا پاکستانی حکومت اور نیب پر تنقید کررہا ہے، پاکستان پر تنقید کررہا ہے کہ پاکستان میں آزادیٴ اظہار رائے پر کریک ڈاؤن ہورہا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے میڈیا پر ہی تنقید شروع کردی ہے، ایک طرف حکومت پر تنقید ہورہی ہے کہ انہوں نے نیب چیئرمین کو استعمال کر کے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا تاکہ جیو کے صحافیوں اور جیو پر دبائو ڈالا جاسکے، حکومت کہہ رہی ہے کہ نیب سے ان کا تعلق نہیں مگر اسی پریس کانفرنس میں فردوس عاشق اعوان بتارہی ہیں کہ انہیں جیو جنگ گروپ سے کیا کیا شکایتیں ہیں، فردوس عاشق اعوان کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد کیبل آپریٹرز پر دباؤ ڈال کر جیو چینل کو بند کرادیا گیا، کیبل آپریٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں پیمرا نے ہدایت کی ہے کہ جیو نیوز کو بند کردیا جائے یا پھر پیچھے کے نمبروں پر ڈال دیا جائے، یہ اہم بات ہے کہ پہلے میرشکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا اس کے باوجود جیو پر رپورٹرز اور اینکرز بات کرتے رہے تو پیمرا نے جیو بند کرنے کے ہی احکامات دیدیئے، حکومت کہتی ہے کہ نیب کا اور اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، وزیراعظم کی مشیر اطلاعات جیو پر تنقید کرتی ہیں، اس کے بعد پیمرا ایکشن لیتا ہے تو پھر نیب اور پیمرا کا کیا تعلق ہے کہ پیمرا جیو کو بند کرنے کیلئے کیبل آپریٹرز پر دبائو ڈال رہا ہے، پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اگلے ہی دن اس کے چینل کی نشریات بند کردی جاتی ہیں تو کیا یہ کیس ایک پراپرٹی سے متعلق ہے یا جیو نیٹ ورک کی کوریج سے مسئلہ ہے، یہ نیب حکومت گٹھ جوڑنہیں ہے تو اور کیا ہے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ نیب نے آج میرشکیل الرحمٰن کو احتساب عدالت میں پیش کیا، میر شکیل الرحمٰن کے وکیل اعتزاز احسن نے ریمانڈ کی مخالفت کے ساتھ میرشکیل الرحمٰن کو رہا کرنے کی بھی درخواست کی، اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے پاس میرشکیل الرحمٰن کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں ہے، چیئرمین نیب نے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کیے لیکن ہمیں ابھی تک وارنٹ گرفتاری نہیں دیا گیا، چیئرمین نیب اور تحقیقاتی افسر نے گرفتاری کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کی، اعتزاز احسن نے جج صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ جج صاحب آپ کو اختیار ہے آپ میر شکیل الرحمٰن کو رہا کرسکتے ہیں اور انہیں رہا ہوناچاہئے، تاہم احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نیب کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست منظو ر کرتے ہوئے میرشکیل الرحمٰن کا 12روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا، عدالت میں پیشی کے بعد میرشکیل الرحمٰن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے جو سوالات پوچھے میں نے ان کا جواب دیا، سب دستاویزات نیب کو دیدی ہیں، وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے خاص طو ر پر جمعے کو اس معاملہ پر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ یہ کیس میڈیا میں نہیں عدالت میں لڑا جائے، انہوں نے جیو پر پراپیگنڈہ کرنے اور مہم چلانے کا الزام لگایا۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ہم آپ کو بتاتے ہیں میر شکیل الرحمٰن کا کیس تو عدالت میں چل رہا ہے مگر پراپیگنڈہ کہاں ہورہا ہے، نیب حراست سے جمعے کو میر شکیل الرحمٰن کی ایک تصویر لیک کی گئی، سب سے پہلے یہ تصویر اے آر وائی ٹی وی نے جاری کی، سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تصویر نیب نے خود جاری کی ہے یا پھر ٹی وی چینل نے نیب دفتر جاکر تصویر لی ہے، دونوں ہی صورت میں نیب کی ذمہ داری ہے کہ کیسے ایک ایسے شخص کی لاک اپ میں تصویر جاری کی گئی جس پر ابھی الزام ثابت نہیں ہوا بلکہ ابھی تو نیب شکایت کی تصدیق ہی کررہا ہے مگر گرفتاری کرلی ہے اور پھر لاک اپ کی تصویر بھی جاری کردی گئی ہے، نیب کا مقصد تفتیش ہے یا تضحیک ہے، اس سے پہلے گزشتہ روز جب میر شکیل الرحمٰن نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے اس دوران ان کی نیب کے ساتھ ہونے والی بات چیت بھی لیک کی گئی، سوال جواب چل رہے تھے اور اس دوران وہ باتیں اے آر وائی نیوز پر نیب ذرائع سے چلائی جارہی تھیں، ایک ایک بات رپورٹ کی گئی جس پرجمعے کو میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ نیب نے ویڈیو بنائی ہے وہ ویڈیو میڈیا کو جاری کردے تاکہ پتہ چلے کہ ان سے کیا سوالات کیے گئے اور ان کے کیا جوابات تھے، یعنی تصویر بھی اے آر وائی نیوز کو لیک کی گئی ، کارروائی کی دوران ہونے والی باتیں بھی اے آر وائی نیوز کو لیک کی گئیں تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ میڈیا پر مقدمہ کون لڑ رہا ہے، پراپیگنڈہ کون کررہا ہے، تصویر چلنے کے بعد چیئرمین نیب نے اس کا نوٹس لیا، نیب اعلامیہ کے مطابق چیئرمین نیب نے میر شکیل الرحمٰن کی حوالات میں تصویر لینے اور مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل لاہور کو تحقیقات کرکے رپورٹ سات دن میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے، اہم یہ بات ہے کہ جس شخص پر ذمہ داری ہوتی ہے جس کے ماتحت میر شکیل الرحمٰن گرفتار ہیں وہاں سے لیک ہوئی اسی شخص کو چیئرمین نیب نے تحقیقات کی ذمہ داری دیدی ہے، دیکھنا ہوگا کہ ڈی جی نیب اس حوالے سے کیا تحقیقات کرتے ہیں کیونکہ وہ ماضی میں جیو سے خوش نہیں رہے۔