• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں نئے مالی سال کے بجٹ کے بنیادی خدوخال مرتب کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور اگلے ماہ اس حوالےسے متعلقہ اداروں میں خط وکتابت،تجاویز طلب کرنے اور خصوصی کمیٹیوں کے قیام کے مراحل اور آخر میں APCCاور NECکے اجلاسوں کی باری آئےگی۔بجٹ 20-21ء اس بار ماہ رمضان کے فوراً بعد لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تاہم مشیر خزانہ اور ان کی ٹیم نے اس حوالےسے ابھی وزیر اعظم عمران خان سے مشاورت کرنی ہے۔ بجٹ ساری دنیا میں ہر ملک کے مقررہ مالی سال کے آغاز سے کچھ دن قبل آتا ہے لیکن وہاںسال میں ایک ہی بجٹ آتا ہے اور پھر اس میں بڑا ہی معمولی ردوبدل کرنے کی نوبت آتی ہے ۔ایک زمانے میں پاکستان میں بھی ایسے ہی ہوتا تھا لیکن اب پچھلے 35،40سالوں میں مالی سال میں بجٹ ایک نہیں بار بار آتا ہے اور سیاسی و فوجی حکمران اس کا ذمہ دار بیوروکریسی کو قرار دیتے ہیںجبکہ اصولی طور پر وہی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں دنیا بھر کی بیوروکریسی کا ایک ہی ماڈل ہوتا ہے۔ صرف رنگ ونسل کا فرق ہوتا ہے ہر ملک کی نوکرشاہی اپنے نظام چلاتی ہے لیکن اکثر کسی ملک میں ادارے کمزور ہوں اور حکمران اپنی غلطی ماننے کی بجائے الزام برائے الزام کی سیاست میں الجھے رہیں تو ہر جگہ ایسے ہی رول ادا کرتی ہے جیسے جنوبی ایشیا خاص کر بھارت اور پاکستان میں کرتی ہے۔ اب رہی بات پاکستان کی تو یہاں اس وقت انتظامی صورتحال بڑی ہی مایوس کن ہے نہ بیوروکریسی کا نظام چلتا نظر آ رہا ہے اور نہ ہی سیاسی حکومت کی گورننس کی صلاحیت بہتر ہو رہی ہے،ایسی صورتحال کے حوالے سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی کچھ مطمئن نظر نہیں آرہے، اس کے باوجود وہ پاکستان کو سپورٹ کر رہے ہیں تو وہ ان کی اپنی مجبوری ہے ، انہوں نے کسی نہ کسی طرح پاکستان کو زندہ رکھنا ہے لیکن وہ بھی نہیں چاہتے کہ ہم ان کے چنگل سے آزاد ہو جائیں، اس لئے ان کو ڈیزائن کردہ پالیسیاں انہی کی اپنائی جاتی ہیں وجہ یہ کہ اگر طرز حکمرانی ٹھیک ہو اور باصلاحیت افراد نظام چلا رہے ہوں تو بیرونی دبائو پر پالیسیاں بدلنے یا چلانے کی نوبت نہیں آسکتی۔یہ سلسلہ عملاً تو بھٹو دور سے شروع ہوا لیکن 1980ء کے بعد ہر حکومت کے دور میں ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔اب بھی سارا کچھ عالمی اداروں کی مرضی کے تابع ہو رہا ہے جو اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اور مشرف دور یا ضیاء دور میں ہوتا رہا ہے پھر میڈیا کے ذریعے ان چیزوں کا عوام کو پتہ نہیں چلتا تھا۔ اب سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج داخلی معیشت کو صحیح سمت میں مایوسی اور خوف سے نکال کر ٹریک پر لانا ہے۔ ملک کی اپنی معیشت صحیح چلے گی تو پھر عالمی اداروں کی ڈکٹیشن نہیں لی جا سکے گی ۔اس وقت ملک میں نہ زراعت نہ معیشت حتیٰ کہ SMEسیکٹر بھی فعال نظر نہیں آ رہا ایسے حالات میں نئے بجٹ میں عوام حکمرانوں سے کیا توقعات رکھیں،۔یہ سلسلہ ہی 30،40سال سے جاری و ساری ہے۔نئے بجٹ میں عوام کو کیا ملے گا یہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب حکمران جماعت یا پارلیمنٹ کے پاس بھی نہیں ہے ۔ویسے دیکھا جائے تو نئے مالی سال کے بجٹ سے ہی پتہ چل سکے گا کہ یہ نظام اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر سکے گا یا درمیان میں ’’سکائی لیب‘‘ آ سکتی ہے، اس لئے کہ نئے بجٹ میں عوام کو ریلیف صرف مہنگائی ہی کادے دیں تو اس حکومت کی سب خیر ہے لیکن ایسا نہ کر سکی تو حکومت مخالف جماعتیں اس کو ایشو بنا کر ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے جس میں ان کا کوئی نقصان نہیں ہو گا مارے عوام ہی جائیں گے ۔اس لئے بہتر تجویز یہی ہے کہ بجٹ کو اعدادو شمار کی جادوگری سے نکال کر حقیقت پسندانہ بجٹ لانے کی روایات بحال کی جائیں جو 1950اور 1960کی دہائی میں ہوتی تھیں۔

تازہ ترین