سپریم کورٹ کی جانب سے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی پیراگون ہاؤسنگ کیس ضمانت منظور کر لی گئی ہے ۔
سپریم کورٹ میں خواجہ برادران کی ضمانت کی درخواست پر جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سماعت کی، اس دوران عدالت کی جانب سے خواجہ برادران کی تیس تیس لاکھ کے دو مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرتے ہوئے ریمارکس دیئے گئے کہ نیب عدالت کو مطمئن نہیں کر سکی، نیب کے پاس ابھی بھی کوئی واضح شواہد موجود نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس مقبول باقر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ گواہ بھی سوسائٹی کا شیئرہولڈر ہے؟ جس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ 16 سال کےعرصے میں نیب کے پاس بےضابطگی کےبجائے ایک وعدہ معاف گواہ کا بیان ہے، چیئرمین نیب نے نیب آرڈیننس کےسیکشن 26 کےتحت معافی دی تھی، چیئرمین نیب نے قیصرامین بٹ کو 2دفعہ معافی دی ہے۔
وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ کسی بھی جگہ قیصرامین بٹ کاریمانڈ نہیں لیا گیا۔
سماعت کے دوران وکیل خواجہ برادران کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایل ڈی اے کے ریکارڈ میں مقدمہ غیر قانونی اختیارات کا ہے، نیب کی جانب سے انکوائری کے دوران تین خطوط سامنے لائے گئے، پیراگون سوسائٹی کی حد تک یہ خطوط جھوٹے ہیں۔
وکیل خواجہ برادران نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ نے 2013ء میں ایل ڈی کو اختیارات میں توسیع دی تھی۔
جسٹس مقبول باقر کی جانب سے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ برادران نے ٹرائل کے دوران بیان ریکارڈ کرانے میں نیب کے ساتھ تعاون کیا، کیس میں کوئی التوا نہیں مانگا گیا، نیب کوئی ایسی چیز بتائےجس سے ثابت ہو کہ خواجہ برادران کو ضمانت نہ دی جائے۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ نیب کی نیت کا مسئلہ ہے یا تو اہلیت کا، جب پلان کی منظوری ٹی ایم اے نے دی تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا، نیب کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس کی وجہ سے اب خواجہ برادران کو حراست میں رکھا جائے۔
سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار د یتے ہوئے کہا کہ نیب میں نیت اہلیت یا دونوں کا فقدان نظر آتا ہے۔