• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کورونا وائرس: عالمی معیشت بیٹھ گئی سیاست سہم گئی

کورونا وائرس کے عفریت نے عالمی سطح پر جو بحران پیدا کئے ہیں ان سے نہ صرف پوری دنیا کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں اور اول ترجیح انسانی بقاء بن چکی ہے۔ چین کے ایک شہر سے پھوٹنے والی اس وبا نے دنیا کی ’’سپر پاورز‘‘ کو بھی ان کی حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے اب وہ بے بسی کے عالم میں آسمانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اصل ’’سپر پاور‘‘ سے مدد کے طلب گار ہیں۔ طاعون اور اس جیسی وبائیں سینکڑوں سال پہلے پھیلتی تھیں جن میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہو جاتے تھے لیکن سائنسی ترقی کے حوالے سے وہ ایام لاعلمی کے زمانے تھے اب تو انسان ایک بٹن دبانے سے اپنے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا دعویدار ہے۔ ربوٹ بناکر اس سے انسانوں کے متبادل کام لینے پر فخر کرتا ہے۔ سمندر میں بسیرا کرنے قدرت کے معجزوں پر دسترس حاصل کرنے اور بھید پانے کیلئے مصروف عمل ہے لیکن اپنے سامنے دم توڑتے انسانوں کو بچانے کیلئے کوروناوائرس کی ویکسین نہیں بنا سکا۔ قدرتی آفات اور وبائیں بادشاہوں، راجائوں، مہاراجائوں، دنیا کے امیر ترین سے لیکر طاقتور ترین اور مفلوک الحال سے لیکر بے اختیار لوگوں تک کسی میں کوئی امتیاز نہیں رکھتیں نہ کسی منصب اور اس پر ممتکن فرد کے جاہ و جلال کا اور کوروناوائرس سے متاثر اور ہلاک ہونے والی بعض شخصیات نے یہ بات ثابت کر دی۔ کوروناوائرس سے ہلاکتوں اور متاثرین کی تعداد میں بتدریج اضافے سے پوری دنیا سہمی ہوئی ہے۔ 

غیر یقینی صورتحال سے خوف بڑھتا جارہا ہے نئے نئے وسوسے جنم لے رہے ہیں رواں ہفتے مین امریکہ کے شہر لاس اینجلس سے ٹی وی پر ایک براہ راست رپورٹ پیش کی جارہی تھی جہاں اسلحہ فروخت کئے جانے والے ایک سٹور کے باہر لمبی قطار میں قدرے فاصلے سے کھڑے ہوئے افراد اسلحہ خریدنے کیلئے اپنی باری کے منتظر تھے۔ ٹی وی اینکر کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ۔ حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ عنقریب خوراک کی عدم دستیابی کے باعث لوگ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں گے اس لئے ہم حفاظتی اقدامات کیلئے اسلحہ خرید رہے ہیں۔ سعودی وزارت تجارت کے مطابق وزارت کے افسران غلہ جات کے سرکاری اور غیر سرکاری گوداموں اور زخیروں کا دورہ کرکے اس بات کا اطمینان حاصل کر رہے ہیں کہ ملک میں کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں موجود ہیں یا نہیں۔ 

سعودی وزارت تجارت کے مطابق فوری اقدامات کے بعد مشرق وسطیٰ میں خوراک کا سب سے بڑا ذخیرہ اس وقت سعودی عرب کے پاس ہے۔ یہ محض ان دو ملکوں کا حوالہ ہے جو سپر پاور اور امیر ترین ملک سمجھے جاتے ہیں۔ ایسی خبروں کے بعد ترقی پذیر ملکوں جن میں پاکستان بھی شامل ہے کے عوام کا کیا مستقبل ہوگا اب ایک طرف تو کوروناوائرس کے خوف سے نظام زندگی تقریباً معطل ہوچکا ہے ہر شعبے میں پیش رفت نصف سے بھی رہ گئی ہے تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے۔ کھیلوں کے گرائونڈ ویران ہوگئے۔ سڑکیں سرشام ویران ہو جاتی ہیں اور زندگی کے شور سرابے سمٹ کر افواہوں اور قیاس آرائیوں میں بدل گئے ہیں مصافے اور معانقے احتیاط کی دوری اختیار کرتے جارہے ہیں۔ 

وفاقی دارالحکومت میں بالخصوص ’’سفارتی کمیونٹی‘‘ ایک تذبذب کے عالم میں ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوروناوائرس کے ابتدائی متاثرین میں یورپی اور دیگر ممالک شامل تھے اور پاکستان اس دنیا سے محفوظ تھا اس لئے دنیا بھر کے سفارتخانوں میں متعین سفیر، ہائی کمشنرز اور خاندان اور دیگر سفارتی اہلکار خود کو پاکستان میں محفوظ سمجھتے تھے لیکن اب جوں جوں پاکستان میں اس کے پھیلائو کی خبریں آرہی ہیں ان کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بیرون ملک فضائی آمدورفت بھی معطل ہو رہی ہے اور پھر بعض ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے متاثرہ ممالک سے آنے والے اپنے شہریوں پر بھی فی الوقت سفر کی پابندی عائد کر دی ہے پھر تمام سفارتی سرگرمیاں اور تقاریب جن میں بعض ممالک کے قومی دن کی تقاریب بھی شامل ہیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بھی غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کئے جاچکے ہیں۔ 23 مارچ کی پریڈ بھی منسوخ کر دی گئی ہے البتہ ’’نیب کی کارروائیاں‘‘ اور گرفتاریاں جاری ہیں۔ 

پاکستان کے سب سے بڑے صحافتی اور نشریاتی گروپ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کی ایک ’’مضحکہ خیز الزام‘‘ میں گرفتاری نے ملکی صحافت، صحافتی اداروں اور کارکنوں میں بھی اضطراب پیدا کر دیا ہے حالانکہ ملک کی موجودہ صورتحال ایک افہام وتفہیم اور معاملات کو حل کرنے کی متقاضی ہے لیکن نیب کے اس اقدام کو جسے بالخصوص صحافتی اور سیاسی برادری میں حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیا جارہا ہے ملک بھر کے صحافی کارکنوں میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے اور پھر 12 روزہ ریمانڈ نے نیب کے اس اقدام پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور نہ صرف پورے پاکستان میں بلکہ صحافت کی بین الاقوامی تنظیموں اور غیر ملک شخصیات نے بھی پاکستان میں اظہار آزادی کی قدغن پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کوروناوائرس کے عفریت سے نمٹنے کیلئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے سارک ممالک کی ’’ویڈیو کانفرنس‘‘ میں شرکت کیلئے پاکستان سے باضابطہ درخواست کرنا دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ صورتحال میں ایک غیر متوقع بات تھی اور اس سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ سارک ممالک کی ’’سربراہی وڈیو کانفرنس‘‘ کے حوالے سے پیشگی طور پر پاکستان کی جانب سے واضح کر دیا گیا تھا پاکستان کے وزیراعظم اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ ان کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا جن کی سرکاری حیثیت وزیر مملکت کی ہے وزیراعظم کی نمائندگی کریں گے جسے بھارتی قیادت نے بغیر کسی ہچکچاہٹکے فوری قبول کر لیا۔ 

چنانچہ اس ویڈیو کانفرنس میں میزبان ملک کے وزیراعظم نریندر مودی، افغان صدر اشرف غنی، مالدیپ کے صدر ابراہیم محمد صالح، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما، سری لنکا کے صدر جے پاکسا اور بھوٹان کے وزیراعظم لوٹے شیرنگ نے شرکت کی۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھارت کسی کانفرنس مذاکرات یا ملاقات کے حوالے سے ہمیشہ مساوی ہم منصب کا مطالبہ سامنے رکھتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ سارک ممالک کے صدر اور وزرائے اعظم جن میں نریندر مودی بھی شامل تھے کی موجودگی میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کی۔

تازہ ترین
تازہ ترین