• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:قاری عبدالرشید۔۔۔ اولڈھم
ایک محترم قاری کی طرف سے ایک سوال آیا کہ حضرت امام معاویہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا ’’ماموں‘‘کہنے کا تحقیقی جواب کیا ہے؟اس پرمختصرجواب میں نے یہ لکھا کہ ماں کا بھائی ماموں ہی لگتا ہے۔اس پر تحقیق کی کیا ضرورت ہے؟جو شخص سیدہ ام حبیبہ بنت حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہما کو زوجہ رسول ﷺ مانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی ساری ازواج (بیویاں) قرآن مجید کی نص کے مطابق مومنوں کی مائیں ہیں اورسیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ان مائوں میں سے ایک ہیں اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں۔آپ ہی بتائیں ماں کا بھائی ماموں ہوا کہ نہیں؟یہ بھی یاد رہے کہ ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں جس شخص کو کسی بھی قسم کا اس بارے میں شک ہو تو اس کو چاہئے کہ پہلے وہ مومنوں کی صف میں شامل ہوکیونکہ قرآن کا یہ اعلان کہ ازواج رسولﷺ ساری کی ساری ان کی مائیں ہیں۔ یہ مومنوں کے لیے ہے،غیر مومن کو چاہئے کہ پہلے وہ ہمارا مومن بھائی بنے پھر ماں اور اس کے خاندان کے بارے میں تعارف پوچھے توضرورمطمئن کریں گےاور اگر کوئی مومن بھائی نہیں بنتا اورباہر رہ کرہماری کسی بھی ماں کے بارے میں بات کرنے کی جسارت کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وفادار اولاد اپنی ماں کے بارے میں بڑی حساس اورغیرت مند ہوتی ہے۔قرآن مجید سے دلیل کے بعد ایک حوالہ اور بھی پڑھ لیں کہ اگر کوئی یہ کہے ٹھیک ہےحضرت معاویہ ؓحضور ﷺ کے رشتے میں سالے لگتے ہیں اس نسبت سے مسلمانوں کے ماموں ہیں لیکن یہ بات ان کے نام کے ساتھ لکھی کہاں ہے؟تو لکھا ہوا بھی دیکھ لیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔محقق اہل سنت حضرت مولانا محمد نافعؒہ نے سیرت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پرکتاب لکھی ہے۔اس کے صفحہ51 پرعربی میں( بحوالہ البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 117 پر) یہ عبارت موجود ہے۔ھو معاویہ بن ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی الاموی ابو عبدالرحمن خال المئومنین ۔اس عبارت کے آخر میں’’خال المئومنین‘‘ لکھا ہے جس کےمعنی ہے۔’’مومنوں کے ماموں‘‘اب ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ مومن کون سے والے؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مومن جو ازواج مطہرات ۔سیدہ خدیجہ و عائشہ و حفصہ و ام حبیبہ اور دیگر رضی اللہ عنھن کو اپنی مائیں دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ناموس و دوپٹے کی حفاظت کے لیئے اپنی جان تک قربان کرنا سعادت سمجھتےہیں وہ مومن مراد ہیں ۔اب حضرت معاویہؓ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبی تعلقات ملاحظہ فرمائیں تاکہ خاندان بنی ھاشم اور بنو امیہ دونوں قبائل کا آپس میں قرب و تعلق واضح ہو جائے۔نسبی تعلق نمبر1:پہلا رشتہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا جن کا مختصر ذکر اوپر آپ نے پڑھ لیا۔نسبی تعلق نمبر 2:جناب نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے ساتھ حضرت امیر معاویہؓ کا ایک اور تعلق علماء انساب نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت معاویہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے’’ہم زلف‘‘تھے۔یعنی ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن قریبہ صغری ٰ حضرت معاویہ ؓکے نکاح میں تھیں اور ان سے آپؓ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ نبی کریمﷺ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نسبت نمبر 3:حضرت معاویہؓ کی بہن (ہند بنت ابو سفیان بن حربؓ)سیدنا حضرت علی المرتضیؓ کے چچا زاد بھائی کے فرزند( الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب بن ہاشم فولدت لہ ابنہ محمد ۔یعنی حضرت علیؓ کے بھتیجے) کے نکاح میں تھیں اور اس سے ایک بیٹاہوا جس کا نام محمد تھاحضرت علیؓ کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہا سے بھی حضرت معاویہ ؓ کی رشتے داری کی نسبت۔نمبر 4:سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند( علی اکبر بن حسین بن علی رضی اللہ عنہم)جو شہید کربلا ھیں۔ان کی والدہ لیلیٰ بنت ابی مرہ کی ماں میمونہ حضرت ابو سفیان بن حرب ؓ کی بیٹی تھیں۔تو حضرت علی اکبر بن حسین رضی اللہ عنھما کی نانی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ لگیں اور اوپر بات ماموں لکھنے پڑھنے اور بولنے کی ہو رہی تھی۔ماموں وہ امت کے توہیں ہی،یہاں اس رشتے پر غور کریں کہ حضرت معاویہؓ ۔حضرت علی اکبری بن حسین ؓ کی والدہ لیلیٰ بنت ابی مرہؓ کے سگے ماموں ہیں،کیونکہ حضرت حسین ؓ کے نکاح میں حضرت معاویہؓ کی سگی بھانجی تھیں۔ہم میں سےہر کوئی جانتا ہے کہ خونی رشتے سارے ہی عزیزہوتےہیں لیکن ننھیال کے رشتے کی قدروہ جانتے ہیں جنکو بچپن میں ننھیال دیکھنا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا نصیب ہواہو۔ننھیالی رشتہ باقی رشتوں سے زیادہ میٹھا اور پرکشش لگتا ہے ۔آپ اندازہ کریں کہ اولادحضرت علی و سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھما کا ننھیال نبی اکرم صلی اللہ وسلم کا گھر ہےاور اولادحضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنھما کا ننھیالی گھر سیدنا معاویہ
بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما کا گھر ہے،اب سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ حضرت علی اکبر بن حسین بن علی رضی اللہ عنہم کو اپنی والدہ کے ماموں حضرت معاویہؓ اور ناناجان حضرت ابو سفیانؓ سے کس قدرپیاراور محبت ہوگی؟ ۔یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ ساس کا بھائی بھی رشتے میں سسرلگتا ہے۔اس رشتے کی وجہ سے حضرت معاویہؓ سیدنا حسینؓ کے سسر اورحضرت علی اکبرؓ کے نانا لگتے ہیں اورحضرت حسین ؓ حضرت معاویہؓ کے داماد لگے۔ان کا ذکر بالخیرکرنے کی بات بھی حدیث میں آئی ہے۔ مشہور صحابی رسولﷺ اورصاحب زہد وتقویٰ حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت میں علاقہ حمص کے والی اورحاکم تھے۔وقتی تقاضوں کے تحت حضرت عمرؓ نے ان کو معزول کر کے ان کی جگہ حضرت امیر معاویہ ؓ کوحاکم مقررفرمایا تو کچھ لوگوں نے باتیں کیں اس موقع پرحضرت عمیر بن سعد رض نے حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں فرمایا کہ۔لاتذکروا معاویہ الا بخیر فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم اھدہ۔یعنی حضرت معاویہؓ کا تذکرہ خیروخوبی کے بغیر مت کرو ۔میں نے حضور ﷺسے سنا ہے کہ آپﷺ ان کے حق میں دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ انہیں ہدایت عطا فرما۔اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ بھی ذکر معاویہؓ بالخیر کرنے کی تلقین کرتے تھے۔رشتے داری کی نسبت نمبر 5:حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کی پوتی لبابہ بنت عبیداللہ بن عباسؓ حضرت امیر معاویہؓ کے بھتیجے ولید بن عتبہ بن ابی سفیانؓ کے نکاح میں تھیں ۔معلوم ہوا دونوں خاندان بنو ھاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے سے رشتے لیتے اور دیتے تھے ۔ ان خاندانوں کے درمیان نفرتوں اوردشمنیوں کو اچھالنے والے طبقے سے بجا طور پر یہ سوال بنتا ہے کہ وہ بتائے کہ بھلا بیٹیاں اوربہنیں مخالفوں اوردشمنوں کے گھروں میں بھی کوئی دیتا ہے؟بنوھاشم اور بنو امیہ کے درمیان چند ایک نسبی تعلقات اور رشتے داریاں بطور نمونہ کے ذکر کی ہیں۔خاندان حضرت امیر معاویہؓ اور بنو ھاشم ایک دوسرے کے قریب تر اور سب اولاد عبد مناف ھیں۔اسلام لانے کے بعد ان کی دیرینہ عداوتیں اوردھڑے بندیاں ختم ھو چکی تھیں ۔  
تازہ ترین