• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی صنعت و تجارت کی اپیکس باڈی فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہر سال مرکزی بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور پاکستان کے تمام بینکوں کے صدور کی فیڈریشن ہائوس کراچی میں ملک کے تمام چیمبرز، ایسوسی ایشنز کے نمائندوں، ایکسپورٹرز اور بزنس کمیونٹی کے لیڈرز کے ساتھ پاکستان کی مالی (Fiscal) اور مالیاتی (Monetary) پالیسیوں پر میٹنگ منعقد کرواتی ہے۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی میں نے FPCCI کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بینکنگ، کریڈٹ اینڈ فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ، ڈپٹی گورنر ریاض الدین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو فیڈریشن ہائوس میں مدعو کیا حالانکہ گورنر اسٹیٹ بینک کو اِسی روز وزیراعظم پاکستان نے اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس بلایا تھا مگر اشرف محمود وتھرہ نے میٹنگ کی اہمیت کے پیش نظر اجازت لے کر فیڈریشن کے اجلاس میں شرکت کی۔ میٹنگ میں بینک الفلاح، بینک الحبیب، میزان بینک، البرکہ بینک، حبیب بینک، نب بینک، حبیب میٹروپولیٹن بینک، سندھ بینک، سامبا بینک، سلک بینک، سٹی بینک کے صدور اور دیگر بینکوں کے کارپوریٹ سربراہان بھی شریک تھے جبکہ اجلاس میں فیڈریشن کی نمائندگی میرے علاوہ FPCCI کے صدر عبدالرئوف عالم، سینئر نائب صدر خالد تواب، ٹی ڈیپ کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیر، فیڈریشن کے نائب صدور رحمن چین، حنیف گوہر، فیصل دشتی، زبیر طفیل، عارف حبیب، ملک بھر کے ممتاز ایکسپورٹرز، چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے شرکت کی۔
فیڈریشن کے صدر عبدالرئوف عالم اور میں نے اپنی تقاریر میں سی پیک (CPEC) کے پاور پروجیکٹس پلانٹس مشینری کی امپورٹ ایل سی کھولنے، سی فریٹ اور بین الاقوامی ہوٹلوں کی فرنچائز فیس کی اسٹیٹ بینک سے تاخیر سے ادائیگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ بینکوں کے حکومتی ٹریژری بلز میں محفوظ سرمایہ بڑھ کر 7کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے جس سے نجی شعبے کو بینکوں سے قرضے لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداواری لاگت میں اضافے کو ایکسپورٹس میں کمی کی وجہ قرار دیتے ہوئے میں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو بتایا کہ ایک اچھی مانیٹری پالیسی کے مقاصد افراط زر میں کمی کیساتھ جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی موثر مانیٹری پالیسی سے افراط زر میں تو ریکارڈ کمی حاصل کرلی لیکن ہم ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے اونچی جی ڈی پی گروتھ حاصل نہیں کرسکے۔ ٹی ڈیپ کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیر نے ایکسپورٹرز کے 300 ارب روپے کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈز کی ایف بی آر سے عدم ادائیگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اِن ریفنڈز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کمپنیوں کی لیکوڈیٹی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ اس موقع پر گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک، حکومت کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں بینکوں کی فنانسنگ اور ایکسپورٹ پیمنٹ ملک میں واپس لانے کے سخت قوانین میں ترامیم کیلئے حکومت کے ساتھ کام کررہا ہے تاکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو نئے قوانین کے تحت باآسانی بینکنگ قرضے دستیاب ہوسکیں۔ انہوں نے بزنس کمیونٹی کو یقین دلایا کہ اسٹیٹ بینک سی پیک کے پاور پروجیکٹ کیلئے مطلوبہ زرمبادلہ فراہم کرے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے درآمدات اور برآمدات کے ذریعے منی لانڈرنگ کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ چند برسوں میں امپورٹ بلز کیلئے غیر قانونی طورپر تین تین بار ادائیگیاں کرکے زرمبادلہ ملک سے باہر بھجوایا گیا جبکہ اسی طرح ایکسپورٹ میں بھی بدعنوانیاں سامنے آئی ہیں جس پر انہوں نے غفلت کرنے والے متعلقہ بینکوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا۔ ان کے مطابق نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضوں کا حجم بدستور بڑھ رہاہے اور اسٹیٹ بینک نجی شعبے کی طلب ہر حال میں پورا کرے گا۔ انہوں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے بحران کی وجہ اس سیکٹر میں ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن اور ویلیو ایڈیشن کا نہ کرنا بتایا۔ ان کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 5% تک پہنچنے کی توقع ہے۔ گورنراسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال بنیادی شرح سود میں320 بیسز پوائنٹس کی کمی کے بعد اب شرح سود 42سال کی کم ترین سطح 6% پر آگئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایران پر معاشی پابندیاں ختم ہونے کے بعد دونوں ممالک میں تجارت بحال ہوچکی ہے اور جلد ہی دونوں ممالک کے بینکنگ چینلز بحال ہوجائیں گے، اس سلسلے میں انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ آئے ہوئے سینٹرل بینک آف ایران کے گورنر سے اسلام آباد میں ملاقات بھی کی ہے۔
قارئین! اِس وقت پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 20.35ارب ڈالر ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 15.5 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے 4.85 ارب ڈالر کے ذخائر شامل ہیں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرضوں کی 502 ملین ڈالر کی دسویں اور آخری قسط جاری کردی ہے۔ حکومت کو 31 مارچ 2016ء کو اپنے گزشتہ 10 سالہ 500 ملین ڈالر کے بانڈز کی 17 ملین ڈالر مارک اپ کے ساتھ ادائیگی کرنی تھی۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال حکومت پاکستان کو مقامی کرنسی میں قرضوں کی ادائیگی کے علاوہ تقریباً 5.5ارب ڈالر غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھے گا۔ پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر کا دارومدار 4 ذرائع یعنی ملکی ایکسپورٹس، غیر ملکی سرمایہ کاری، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ملنے والے قرضوں پر ہے۔ جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے ان ممالک کی معیشت پر منفی اثرات پڑرہے ہیں جس کی وجہ سے مستقبل میں ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں کمی متوقع ہے۔ دنیا میں مندی اور کساد بازاری کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری (FDI) جمود کا شکار ہے۔ ملکی ایکسپورٹس میں 14% کمی کی وجہ سے بھی اس سال ہماری ایکسپورٹس سے متوقع زرمبادلہ کا حصول ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سی پیک کے تحت متبادل توانائی کے منصوبوں کیلئے پلانٹ اور مشینری امپورٹ کرنے کیلئے حکومت کو خطیر زرمبادلہ کی ضرورت ہے اور پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر اس کیلئے ناکافی ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ بزنس کمیونٹی متبادل توانائی کے منصوبوں کی پلانٹ مشینری کی امپورٹ کیلئے فارن کرنسی قرضے حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اجلاس کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک کی تجویز پر بزنس کمیونٹی کے مسائل حل کرنے کیلئے پاکستان بینکنگ سروسز کے ایم ڈی قاسم نواز، فنانس گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ثمر حسنین، چیف اکنامک ایڈوائزر ڈاکٹر سعید احمد، محمد علی ملک، محمد شاہد اشرف سمیت اسٹیٹ بینک کے دیگر ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے میری سربراہی میں بزنس کمیونٹی کے ساتھ ایک علیحدہ میٹنگ کی جس پر میں فیڈریشن کی جانب سے گورنر اسٹیٹ بینک، اُن کی ٹیم، مختلف بینکوں کے صدور اور دیگر بینکوں کے کارپوریٹ سربراہان کا مشکور ہوں جنہوں نے اس اہم اجلاس میں بزنس کمیونٹی کے زیادہ تر خدشات دور کئے جو ملک میں نئی سرمایہ کاری کیلئے راہ ہموار کریں گے۔ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ ایکسپورٹ اورینٹیڈ 6% سے 7% جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کیلئے ایسی پالیسیاں مرتب کرے جس سے ملک میں سرمایہ کاری سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں اور غربت میں کمی آئے۔
تازہ ترین