4 اپریل 1979ء نا صرف پاکستان بلکہ تمام عالم اسلام کیلئے بھی ایک سیاہ دن تھا جب ملک کے منتخب وزیر اعظم، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین اور تیسری دنیا کے عظیم قائد کا عدالتی قتل کردیا گیااب ہر سال یہ دن ہم سے سوال کرتا ہے کہ:
یہ تم نے کیا کیا لوگوں
یہ کس کو سر دار کھو دیا لوگوں
بھٹو نے عالم اسلام کے اتحاد کیلئے جدوجہدکو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا اور جب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کو ایک سازش کے تحت دو لخت کردیا گیا تو وہ شکستہ پاکستان کی تعمیر نو اور ایٹمی طاقت بنانے کیلئے عملی اقدامات کرکے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی جدوجہد میں جان سے گزر گئے۔ وقت کے حکمرانوں اور عدلیہ نے بے قصور دار پر چڑھا دیا لیکن آج تک عوام کے دلوں سے بھٹو کی محبت ختم نہیںکی جاسکی اورتاریخ دان جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھتا ہے تو اس میں بھٹو کومظلوم او اس قوت کی حکومت کو آمر وظالم ہی لکھتا ہے ۔ ’’بھٹو سے سیاسی اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکنــ ان پر کرپشن کے الزامات ان کے بدترین دشمن بھی نہیں لگاسکتے ‘‘ بھٹو بہترین انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال اور گُڈ گورننس کی اعلیٰ مثال تھے۔ جبکہ موجودہ حکمرانوں کے دور میں عام عوام کے بجائے میٹرو جیسے پر تعیش منصوبے پرکھربوں روپے صرف کئے جا رہے ہیں جس سے عام آدمی بُری طرح پِس رہا ہے ۔کیونکہ اس کی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان اورپانی و بجلی ہے لیکن ان پر تعیش منصوبوں سے صرف چند سو افراد ہی مستفید ہوںگے۔
ہمیں یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ اگر بھٹو ہوتے تو شاید یہ تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔بروقت فیصلہ سازی اور گُڈ گورننس کی بہترین صلاحتیں رکھنے والے بھٹو کو بھلا کون بھول سکتا ہے جس سے آج کے حکمراں انتہائی دور بلکہ نابلدہیں۔ نومبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کیساتھ ہی کھیتوں، کھلیانوں ،کارخانوں، مزدوروں اور دہقانوں میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے نے ایک نئی امید کے چراغ جلا دیئے ۔ بھٹو انقلابی تھے اور انہوں نے آمریت کے پنجرے میں قید قوم کو جمہوریت کی راہ دکھائی، اس طرح وہ قوم کے پہلے معمار اور سیاسی رہبر ثابت ہوئے۔ ان کی انتھک کوششوں سے ملک کے غریب عوام، مزدور، کسان اور پسے ہوئے طبقے نے جینے کا ڈھنگ سیکھا۔انھوں نے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کرعوام کی دہلیزجھونپڑپٹی تک پہنچا دیا یہی وہ اسباب ہیںجس سے جاگیردار، سرمایہ دار،وڈیرے،چوہدری، پیر اور غریب عوام کی دہلیز پر آنے پر مجبور ہوگئے اور رفتہ رفتہ سیاست میں عوا م کی اہمیت اجاگر ہوئی۔
1958ء سے 5 جولائی 1977ء تک بھٹو کی جدوجہد اور پاکستان کیلئے عظیم خدمات تاریخ کا حصہ ہیں .ان کی شہادت کے بعد گزشتہ 37 برسوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ بھٹو کا عروج و زوال دونوں بڑے پر شکوہ رہے۔ 30سال کی عمر میں وزیر بنے اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم عمر وزیر تھے۔ 12سال بعد وہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے، ان عہدوں کیلئے وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر سیاست دان تھے ۔
1971 ءمیں دو لخت ہونے والے بقیہ پاکستان کا اقتدار سنبھالتے ہوئے ان کا مقصد ملک کو انتشار سے بچانا، اس کے شکستہ وقار کو بحال کرنا ،اقوام کی برادری میں خاص طور پر اسلامی برادری میں اس کی پوزیشن کو مستحکم کرنا،ہندوستان سے تعلقات کو بحال بلکہ بہتر کرنا، ملک کے اندر پیچیدہ صورتحال ہونے کے باوجود بنگلہ دیش کو منظور کرنا، جو بعض لوگوں کے لئے موت کے برابر تھااور ملک کوایٹمی قوت بنانا تھا جس میں وہ مکمل طور پرکامیاب ہوئے،لیکن سامراجی قوتوںاور ان کے گماشتوں نے اس کی سزاانھیں پھانسی کی صورت میں دی ۔دن کی روشنی میں سزا دینے کی ان میں ہمت نہیں تھی اس لئے تمام دنیا کے جیل قوانین کو پس پشت رکھتے ہوئے انھیںعلی الاصبح کے بجائے رات2بجے پھانسی دی گئی۔ اس گھنائونی عجلت وخوف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضیاء آمر اور اس کے ساتھیوں نے رات کی تاریکی میں اپنا سیاہ کارنامہ اس لئے انجام دیا کیونکہ دن کی روشنی میں انھیں شدید مزاحمت کا ڈر تھا۔آج بھٹو جسمانی طور پر زندہ نہیں ہیں لیکن ہر پاکستانی کے دِل میں موجود ہیں چاہے وہ ان کا حامی ہو یا مخالف لیکن انھیں عظیم رہنما اور قائد عوام تسلیم کرتا ہے۔
جمہورتیں نہ تو جنگوں کو فروغ دیتی ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی دہشتگردی کا سبب بنتی ہیں جب کہ اس کے برعکس آمریت معاشرے میں مایوسی کو پروان چڑھاتی ہیں اور قنوطیت طاری کر کے عوام میں افسردگی کا سبب بنتی ہے۔ جس کے باعث مایوسی، پس ہمتی اور شکست خوردہ ذہنیت پیدا ہوتی ہے۔ آمر ظلم و تشدد، ناانصافی، کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں یا اپنی حکمرانی قائم رکھنے کیلئے دہشت گردپیدا کرتے ہیں جن کی مدد سے غریب اور کمزور عوام پر اپنی دہشت طاری کر تے ہیں۔ وہ مفاد پرست اور ابن الوقت عناصر کو بدعنوانی کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ کے نصف سے زائد عرصے میں ملک میں جمہوریت کی آبیاری نہ ہوسکی اور اسے پھلنے پھولنے اور پنپنے کاموقع نہ دیا گیا۔ جمہوریت اور جمہوری نظریہ پر کاربند جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ان آمروں کا رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا۔ مختلف حیلے بہانوں سے اسے دبانے اور اس کی قیادت پر مذموم الزامات عائد کئے جاتے رہے لیکن اان الزامات کو کبھی ثابت نہیںکر سکے۔
مصلحت آمیز سیاست اور موقع پرستی ایک آمر کا فن تو ہوسکتا ہے لیکن وہ دیرپا نہیں ہوسکتا ۔وقت کے ساتھ وہ اپنی اصل شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں قومی دھارے میں شامل جماعتوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے اداروں کو بڑی بے رحمی سے استعمال کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھاکہ سیاسی جماعتوں کو بتدریج کمزور کیا جائے۔ مذہبی انتہا پسندوںکی حوصلہ افزائی اور لسانیت کو فروغ گیا گیا جو ملکی وحدت اور سا لمیت کے لئے انتہائی مضر ثابت ہوا اس لئے ہمیںمستقبل میں اس نقطہ پرغورکرناچاہئے کہ حقیقی لیڈر ہی اصل لیڈر ہوتا ہے اور بھٹو اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔
ضیاء آمر ایک فضائی حادثہ کا شکار ہوئے ان کے لواحقین انکا دیدار بھی نہ کرسکے ۔ اور جس نے ان کی پھانسی کا فیصلہ دیا تھا ان کی زندگی میں شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھاجن کے کاٹنے سے ان کے بدن میں پھوڑے پڑ گئے تھے جس سے وہ بستر پر سیدھے لیٹ کر سو نہیں سکتے تھے ۔اسی طرح جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی لاش پر بھی شہد کی مکھیاںنے حملہ کر دیا جس پر ان کے لواحقین اور دوست احباب ان کی لاش چھوڑ کر بھاگ نکلے اور خاصی دیر تک ان کی لاش کھلے میدان میں بے گور و کفن پڑی رہی۔ بے گناہ کو سزا دینے کا انجام قدرت اسی طرح دیتی ہے۔ جبکہ بھٹو اور بھٹو ازم آج بھی زندہ ہے اورکروڑوںدِلوں میں آج بھی بھٹو کے لئے بے پناہ محبت موجود ہے، لوگوں نے ان کی خاطر خود سوزی کی، قیدو کوڑوں کی سزائوں پر آمر کے ہر کارندے کو صرف جئے بھٹو کے نعرے ہی سننے کو ملے۔