• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کورونا کی وبا نے پوری دنیا مفلوج کرکے رکھ دی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں مکمل لاک ڈائون ہے اور انتظامات سیکورٹی فورسز کے حوالے۔ ایسے میں کاروباری و اقتصادی سرگرمیوں کوجو زک پہنچی ہے اس کا ازالہ آسان نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اسے 1980 کے مالی بحران سے کہیں زیادہ سنگین قرار دے رہے ہیں۔ دریں صورت عالمی مالیاتی فنڈ کا یہ اعلان امید افزاء ہے کہ معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کے تناظر میں آئی ایم ایف کی ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ سہولت کے تحت اسلام آباد کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور بجٹ سپورٹ کیلئے مالی معاونت کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا جارجیوا نے اس درخواست پر تیزی سے عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے تاکہ عوام اور معیشت کو فوری ریلیف مہیا کیا جاسکے ۔ اس مالی تعاون سے حکومت پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن اور ملک کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے مثلاً سماجی تحفظ‘ یومیہ اجرت کمانے والوں اور نظامِ صحت کو بآسانی فنڈ مہیا کرنا ممکن ہوگا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر لے رہا ہے جس پر شرح سود ڈیڑھ فیصد ہے اور واپسی کا دورانیہ تین سے پانچ سال۔ پاکستان اگرچہ پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہواہے لہٰذا مزید قرضہ لینا بادی النظر میں بہتر نہیں لیکن موجودہ صورتحال میں اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ عوام کو معاشی پیکیج دینے کیلئے حکومت نے ماہرین اور اسٹیٹ بینک کی معاونت سے بروقت مالیاتی اقدامات کیے ہیں۔ شرح سود میں بھی کمی کی گئی ہے تاکہ کریڈٹ کے بہائو میں مدد ملے۔ پاکستانی جن حالات سے نبرد آزما ہے ان میں یہ اقدامات ناگزیر تھے۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ حکومت کی پالیسیوں کی خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ قابلِ عمل مشورے بھی دے اور حکومت خوشدلی سے ان کا خیر مقدم کرے کہ اس دورِ ابتلا سے سب مل کر ہی نمٹ سکتے ہیں۔

تازہ ترین