• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اخلاق احمد

 ایسا لگتا ہے ، ہر جانب سناٹا چھا گیا ہے ۔

کوئی کوئی خبر ایسی ہوتی ہے کہ سینہ لرز جاتا ہے ۔ کوئی کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے کہ رخصت ہوتا ہے تو لگتا ہے ، آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والی دنیا کی رونق ذرا دیر کو مدھم پڑ گئی ہے ۔

ہر آدمی کے سینے کو ویران کر دینے والی خبر مختلف ہوتی ہے ۔ ہر دل کے لئے ایسی اداسی کا سامان کرنے والا آدمی مختلف ہوتا ہے۔

آج پتا چلا کہ میرے لئے وہ آدمی ، میر جاوید رحمان تھے ۔ یعنی ایم جے آر ۔ یعنی جاوید صاحب ۔

چالیس برس قبل میں نے انہیں اخبار جہاں میں اپنے کمرے کی سیدھ میں بنے ہوئے شعبہ کتابت میں بیٹھے دیکھا تھا اور حیرت سے سوچا تھا کہ سفید براق قمیض شلوار میں ملبوس ، یہ اونچا لمبا ، گورا چٹا آدمی کون ہے جو خطاط اعلی رشید رستم قلم اور ہیڈ کاتب وثیق افضل صاحب سے محو گفتگو ہے ۔ باتیں کرتے کرتے جاوید صاحب نے گردن گھما کر ایک نظر میرے کمرے کی طرف ڈالی۔ جسے میں میرا کمرہ کہہ رہا ہوں وہاں دراصل تین سب ایڈیٹرز بیٹھتے تھے ۔ محمد انور علی ، شاہد جمیل ، اور میں ۔ مجھے پتا نہ تھا کہ وہ جاوید صاحب ہیں ، ایڈیٹر انچیف ہیں ، میرے باس ہیں ۔ اور وہ نہیں جانتے تھے کہ میں ان کے تازہ ماتحتوں میں سے ایک ہوں ۔ وہ عمرے پر گئے ہوئے تھے جب اس وقت کے ایڈیٹر نثار احمد زبیری صاحب نے مجھے کنٹریکٹ پر بھرتی کر لیا تھا ۔

میرے جاوید صاحب
میر جاوید رحمٰن کی اخبارِجہاں ٹیم کے ساتھ ایک یادگار تصویر

ذرا دیر بعد وہ شعبہ کتابت سے اٹھ کر میرے کمرے کی طرف آئے ۔ انہیں دیکھ کر دونوں سب ایڈیٹرز کھڑے ہو گئے اور انہیں سلام کیا ۔ میں نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا ، میرا نام پوچھا ، اور چلے گئے ۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ وہ کون ہیں اور دفتری امور میں ان کی کتنی اہمیت ہے ۔

اب سوچتا ہوں ، ان چالیس برسوں کو میں طرح طرح تقسیم کر سکتا ہوں ۔

ان میں ابتدائی چار سال ایسے ہیں جب وہ صرف ایک سخت گیر باس تھے جن کی ڈیوٹی اچھے کام پر تھوڑی بہت شاباش دینا اور گڑبڑ کرنے پر ڈانٹ پلانا تھا ۔

پھر پانچ چھ سال ایسے ہیں جنہیں میں اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کے سال کہتا ہوں ۔ایک وحشت کے عالم میں کام کرنے کا اپنا مزا ہے ۔ روزنامے کے بجائے جریدے کا کام ہو تو یہ لطف اور بھی سوا ہو جاتا ہے ۔ آپ انٹرویو بھی کرتے جاتے ہیں ، رپورٹنگ بھی ، سنجیدہ تجزیئے بھی ، تحقیقی کام بھی ۔ کھلی آزادی ہوتی ہے کہ جس شعبہ میں چاہیں ، کام کر کے دکھائیں ۔ جاوید صاحب نے اخبار جہاں میں ایڈیٹوریل آزادی خوب دی ہوئی تھی جس کا ہم سب بھر پور فائدہ اٹھاتے رہے ۔

پھر لگ بھگ دس برس ایسے ہیں جب میں نے جاوید صاحب کو ایک باس کی طرح نہیں ، ایک ساتھی ، ایک ہم کار کی طرح جاننا شروع کیا ۔ اور مجھ پر منکشف ہوا کہ وہ اپنے رعب داب والے امیج سے خاصے مختلف ہیں ۔ ایک ایسے آدمی ہیں جو قہقہہ بھی لگاتے ہیں ، لطیفے بھی سناتے ہیں ، اپنے ماضی کے تذکرے سے کبھی گریز نہیں کرتے ۔ محفل آرائی ان کا شوق تھا ، مگر بس ایسی محفل آرائی جس میں ان کے قریبی لوگ ان کے ارد گرد ہوں ۔

اور پھر وہ سات آٹھ سال جن کے دوران جاوید صاحب میرے لئے ، اور شاید میں ان کے لئے بہت اہمیت اختیار کرتا گیا۔ اس بات کا تعلق میرے عہدے یا دفتری کام یا ذمہ داریوں سے نہیں تھا ۔ یہ کوئی الگ ہی معاملہ تھا ۔ شاید جب آپ کسی کے ساتھ دس ، پندرہ ، بیس سال گزار لیتے ہیں تو کوئی نظر نہ آنے والا گہرا تعلق خود بخود بن جاتا ہے جس میں دوسرے پر مکمل اعتبار کیا جاتا ہے ۔ جس میں بہت نجی باتیں شئیر کی جاتی ہیں ۔ جس میں سینے میں چھپے دکھ اور آنکھوں سے بہہ نہ پانے والے آنسو ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ یہ دل جوئی کا اور حوصلہ دینے کا اور راہ نمائی کا باہمی تعلق ہوتا ہے ۔

میں لگ بھگ بارہ تیرہ سال تک اخبار جہاں کا باقاعدہ ایڈیٹر رہا ، اور لگ بھگ چار برس تک بے قاعدہ ایڈیٹر ، کیونکہ اس وقت کے ایڈیٹر شفیع عقیل صاحب بیمار ہو گئے تھے ۔ یوں میں نے جاوید صاحب کے ساتھ بحیثیت ایڈیٹر بہت وقت گزارا اور انہیں دھیرے دھیرے اتنا جاننے لگا کہ کسی بھی معاملے پر ان کے ممکنہ ردعمل کا تقریبا درست اندازہ لگانے لگا۔

عام خیال یہی ہے کہ وہ بس ، انتظامی امور میں زیادہ الجھے رہتے تھے ۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ انہوں نے برسوں ، بلکہ عشروں تک اخبار جہاں کے خم و کاکل کی آرائش کا کام بڑی محنت سے اور بہت محبت سے کیا ۔ اس کے سرورق کے لئے مرکزی تصویر وہ خود منتخب کرتے تھے ۔ اور اندر سینٹر اسپریڈ کی تصویریں بھی ۔ عام لوگوں کے لئے شاید اس کام کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔ لیکن جو لوگ درجنوں ، سینکڑوں تصویروں میں سے کسی ایک بہترین تصویر کو پہچان کر منتخب کرنے کے فن سے آشنا ہیں ، وہ جانتے ہوں گے کہ یہ صلاحیت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے اس کے لئے وہ غیر معمولی نظر چاہئیے جس کی مدد سے آپ تصویر کی شارپ نیس ، لائٹ کی کوالٹی ، چہرے کا زاویہ ، آنکھوں کا تاثر ، سب کچھ ایک نگاہ میں جانچ سکیں ۔

جب وہ تصاویر منتخب کر کے ہمیں دے دیتے تھے تو ہم لوگ ان تصویروں پر غور کرتے رہتے تھے کہ آخر ان میں کیا خاص بات ہے کہ جاوید صاحب نے انہیں منتخب کیا ۔ رفتہ رفتہ ہمیں کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا کہ جاوید صاحب کا فارمولا کیا ہے ۔ پھر ایک دفعہ جب میر جاوید رحمان صاحب اپنی فیملی کے ساتھ مہینے بھر کے لئے بیرون ملک جانے کی تیاریاں کر رہے تھے ، ہم لوگوں نے ہمت کر کے یہ کام خود انجام دینے کا فیصلہ کیا ۔ جاوید صاحب کی عادت تھی کہ وہ دو تین گھنٹے کی طویل نشست میں پانچ چھ ٹائیٹلز کی تصویریں منتخب کر کے ہمارے حوالے کر جاتے تھے ۔ اس مرتبہ انہوں نے ایسی نشست منعقد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے ان سے کہا کہ یہ چار پانچ ٹائیٹلز ہم لوگ خود ہی منتخب کر لیں گے ، آخر ہم لوگوں کی بھی تو کچھ تربیت ہونی چاہئے ۔ جاوید صاحب کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے ۔ یوں جیسے کچھ سوچ رہے ہوں ۔ پھر آہستہ سے بولے ۔" چلو ، ٹھیک ہے ۔"

میں نے کہا ۔" جاوید صاحب ، بے فکر رہیں ۔ آپ واپس آئیں گے تو یہ ٹائٹل کی مملکت آپ کو واپس کر دی جائے گی ۔"

انہوں نے بھرپور قہقہہ لگایا اور ہمیں گویا اس کی اجازت دے دی ۔

بے شمار یادیں ہیں جو اداسی کے اندھیرے میں جگنووں کی طرح جگمگاتی ہیں ۔ یادیں ، جو جنگ گروپ کے پرانے ساتھیوں سے بھی وابستہ ہیں ، فاروق اقدس اور حنیف خالد ، محمود شام اور نصیر ہاشمی ، مدثر مرزا اور ناصر بیگ چغتائی ، رضیہ فرید اور سلمی رضا ، سرمد علی اور عظمی رضوی ، محمد سلیمان اور منصور احمد ، خالد حمید خان اور انوار علیگی ، اور نہ جانے کتنے لوگوں کی یادوں میں محفوظ ہوں گی ۔ سیاسی دباؤ کے معاملات ، حکومت کی دخل در معقولات ، مارشل لاء کے قواعد ، نیوز پرنٹ کے جھگڑے ، سرکاری فرمائشیں ۔ ان برسوں میں جنگ گروپ کیسے کیسے امتحانوں سے گزرتا رہا ہے ۔ ان سب معاملات میں جاوید صاحب اپنے چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمن کے ساتھ کھڑے رہے ۔ یہ استقامت ہی شاید جنگ گروپ کی پہچان تھی۔

لگ بھگ بارہ برس قبل جب میں نے صحافت ترک کرنے کا فیصلہ کیا تو جاوید صاحب مجھ سے ناراض ہو گئے ۔ شاید دو سال ایسے گزرے جب ہمارے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہ ہوا ۔ لوگوں کے ذریعے میں ان کی خیریت جان لیتا تھا ۔ پھر ایک روز مجھے اخبار جہاں کے سینئر قاصد عاشق علی کے انتقال کی اطلاع ملی ۔ میں نماز جنازہ میں شرکت کے لئے لائنز ایریا کی ایک مسجد پہنچا ۔ مسجد کے اندر جانے والی کشادہ راہداری میں میرے پیچھے چلنے والے کسی شخص نے اچانک میرے کاندھے پر کسی دوست کی طرح ہاتھ رکھ دیا ۔ اور میں نے ان کی مخصوص گرج دار، پرجوش آواز سنی ۔"السلام علیکم ۔" دو سال کی علیحدگی دو سیکنڈ میں یوں غائب ہو گئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں ۔

اس کے بعد ان سے مسلسل رابطہ رہا ۔ کبھی فون پر ، کبھی کسی تقریب کے بہانے ، کبھی بالکل علیحدگی میں ملاقات ۔ میں اسلام آباد میں تھا جب انہوں نے عارف پنہور کے ذریعے اچانک رابطہ کیا ۔ مجھے جلد کراچی آنے کو کہا ۔ ایک پنج ستارہ ہوٹل میں اخبار جہاں کی پوری ٹیم کو لے کر آئے ، ایک چھوٹے سے کانفرنس ہال میں بیٹھ کر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اخبار جہاں کی عمر پچاس سال ہونے والی ہے ، اس سال گرہ پر ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟ یہ سوال ، یہ میٹنگ ، یہ توجہ میرے لئے کیسا بڑا اعزاز تھا ، یہ میں ہی جانتا ہوں۔

مجھے ان کی طبیعت کی ناسازی کا علم بہت دیر سے ہوا ۔ اور جب میں نے گھبرا کر معلومات کے لئے ادھر ادھر فون کرنے شروع کئے تو اندازہ ہوا کہ بہت تاخیر ہو چکی ہے ۔

جاوید صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری ۔ ہر لمحہ متحرک ، ہر وقت جوش سے بھرے ہوئے ۔ دکھ کی یہ گھڑی گزر جائے گی تو شاید میں بھی ، اور جاوید صاحب کے دیگر ساتھی بھی ، اس متحرک اور بھرپور زندگی کو رشک سے دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے ۔

تازہ ترین