• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کی وبا پوری دنیا کو لپیٹ میں لے چکی ہے مگر ہمارے ہاں اب بھی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی گنجائش موجود ہے۔ مثال کے طور پر حوصلہ بڑھانے والے خیر خواہ بتا رہے ہیں کہ ہر سال ملیریا سے کتنے لوگ مرتے ہیں۔

ڈینگی کتنے لوگوں کی جان لیتا ہے، بھوک سے کتنے لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ٹریفک حادثات میں کتنی اموات ہوتی ہیں اور یہ سب اعداد و شمار پیش کرنے کا مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ کورونا بیچارہ ان مسائل کے سامنے کیا بیچتا ہے، ہم تو ایسی مشکلات جھیلنے کا بہت تجربہ رکھتے ہیں۔

اس طرح کی باتیں بظاہر معقول محسوس ہوتی ہیں اور انسان سوچتا ہے کہ بات تو ٹھیک ہے کورونا سے دنیا میں بمشکل 42ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں اور پاکستان میں اب تک صرف 26لوگوں نے زندگی گنوائی ہے۔ انہی باتوں سے متاثر ہو کر ہمارے ہاں اس نعرے نے مقبولیت حاصل کی ہے کہ ’’کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘۔ ارے بھئی! کیوں نہیں ڈرنا؟ ڈرنے کی بات ہے تو ڈرنا چاہئے۔اس سے ڈرنا کیوں چاہئے، میں بتاتا ہوں۔

جب بھی کسی نئے وائرس کے بارے میں خبر ملتی ہے تو شعبۂ صحت کے ماہرین اس سے متعلق دو باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اس وائرس کی شرح افزائش جسے انگریزی میں Reproductive Rateجبکہ تکنیکی زبان میں (R-Nought) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیلتا ہے اور اگر ایک شخص کو یہ چپک جائے تو اس سے کتنے مزید افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ معلوم کی جاتی ہے کہ اس وائرس کا Incubation Periodکتنا ہے یعنی کسی انسان تک رسائی حاصل کرنے کے بعد کب تک اس مرض کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔

کوئی بیماری خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، اگر وہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو بہ آسانی منتقل نہیں ہو سکتی یا پھر اس کے منتقل ہونے کی شرح کم ہے تو اس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایڈز ناقابل علاج ہونے کے باوجود افراتفری اس لیے نہیں مچا سکا کہ ہاتھ ملانے۔

گلے لگانے یا کسی کے ساتھ کھانا کھانے سے اس بیماری کے منتقل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اب آتے ہیں بے خوفی کی اس تاویل کی طرف کہ موسمی نزلہ بھی تو ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہوسکتا ہے تو پھر کورونا کی اتنی دہشت کیوں؟ جب پولیو کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تھی تو اس کا Reproductive Rate تھا 4-6۔ چیچک بھی اچھوتی بیماری تھی اور جب اس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس کے پھیلنے کی شرح 3تھی۔

طاعون کا مرض جس نے آدھی دنیا کو نگل لیا، اس کا ’’آر۔ناٹ‘‘ 1.4تھا۔ موسمی زکام جو کسی بھی طرح مہلک اور جان لیوا نہیں، اس کا ’’آر۔ناٹ‘‘ 1ہے جبکہ کورونا کا ’’آر۔ناٹ‘‘ 2.2ہے۔ اسی طرح اگر Incubation periodکی بات کی جائے تو موسمی زکام کی علامات 3دن میں ظاہر ہونے لگتی ہیں جبکہ کرونا اس لئے خطرناک ہے کہ اس کی علامات بالعموم 5-6دن میں ظاہر ہوتی ہیں، بعض لوگوں میں 14دن لگ جاتے ہیں اور بیشمار افراد میں یہ علامات کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتیں اور یہی آخری بات سب سے خطرناک ہے۔

جب آپ کو کسی بھی بیماری کے حملہ آور ہونے کی خبر ملتی ہے تو آپ نہ صرف خود خبردار ہو جاتے ہیں بلکہ دیگر لوگ بھی محتاط طرزِعمل اختیار کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کون کورونا سے گھائل ہو چکا ہے تو بےخبری میں اس وائرس کی منتقل کی شرح کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آپ پر کورونا کا حملہ ہوا، آپ کو محسوس ہی نہیں ہوا، علامات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے ٹیسٹ نہیں کروایا یا پھر معمولی زکام سمجھ کر نظر انداز کر دیا، آپ کے قدرتی دفاعی نظام نے اس حملے کو پسپا کر دیا، آپ صحتمند ہو گئے مگر آپ کے ذریعے جن لوگوں کو یہ وائرس منتقل ہوا، ان کے ہاں قوتِ مدافعت اتنی اچھی نہیں تھی اس لئے وہ شدید بیمار ہوگئے اور ممکن ہے کہ ان میں سے بعض زندگی کی بازی ہار گئے۔

کورونا وائرس جاندار نہیں ہے اس لئے انسانی جسم کے باہر اس کی افزائش ممکن نہیں تاہم یہ کسی بھی سطح پر چند گھنٹوں سے 3دن تک زندہ رہ سکتا ہے اور یہ کس شے پر کتنی دیر زندہ رہتا ہے اس کا انحصار درجہ حرارت سمیت بیشمار عوامل پر ہے۔

بالعموم ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ کورونا بعض صورتوں میں 3گھنٹے فضا میں معلق رہ سکتا ہے، تانبے پر اس کی زندگی 4گھنٹوں پر محیط ہو سکتی ہے، کارڈ بورڈ اور گتے پر یہ زیادہ سے زیادہ 24گھنٹے زندہ رہ سکتا ہے جبکہ پلاسٹک اور اسٹین لیس اسٹیل پر اس کی زندگی کا دورانیہ 72گھنٹوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو باہر سے آپ کے گھر آتی ہے یا جسے آپ گھر سے نکل کر چھوتے ہیں، اس کے ذریعے کورونا وائرس منتقل ہو سکتا ہے لیکن کیا باہر سے سبزیاں، دالیں اور دودھ بھی نہ لایا جائے؟

یہ سب چیزیں جب پکائی جاتی ہیں توان میں موجود جراثیم مر جاتے ہیں مگر جن بیگز میں یہ چیزیں لائی جاتی ہیں ان پر کورونا وائرس ہو سکتا ہے اس لئے باہر سے آئی ہر چیز کو چھونے کے بعد صابن سے ہاتھ دھونا ضروری ہے۔

کورونا سے ڈرنا اس لئے ضروری ہے کہ ہم روزانہ 2سے 3ہزار مرتبہ اپنے چہرے، ناک اور آنکھوں کو چھوتے ہیں اور موقع کی تاک میں بیٹھا کورونا کسی وقت بھی حملہ آور ہوسکتا ہے۔

کورونا سے اس لئے ڈرنا چاہئے کہ ہیضہ، چیچک، ملیریا، یہاں تک کہ ٹائیفائد بخار جیسے امراض وبا کی صورت میں تباہی مچا چکے ہیں اور طاعون جسے ’’بلیک ڈیتھ‘‘ کہا جاتا ہے، نے تو بیشمار شہر اجاڑ ڈالے۔ کورونا سے ڈر لگتا ہے کیونکہ ہم نے وبائوں سے متعلق پڑھا اور سنا ہے مگر یہ پہلی وبا ہے جسے دیکھ رہے ہیں۔

تازہ ترین