• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاک ڈائون کے تحت سخت حفاظتی اقدامات، پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کے باوجود کورونا وائرس کے پھیلائو میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اب تک 206ممالک اس مہلک مرض کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50ہزار کی حد کو چھونے والی ہے۔ ان میں سے 30ہزار کا تعلق صرف یورپ سے ہے۔ مریضوں کی تعداد ساڑھے 9لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے غریب ممالک کی مدد کیلئے عالمی فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت پر کورونا کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں صورتحال بظاہر زیادہ سنگین نہیں دکھائی دیتی۔ پھر بھی اب تک تقریباً ڈھائی ہزار افراد میں اس مرض کی تشخیص کی گئی ہے اور گزشتہ 24گھنٹے میں مزید 5افراد کے دم توڑ دینے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 31تک پہنچ گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس مزید بڑھے گا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں اضافہ کس شرح سے ہوگا۔ انہوں نے درست کہا کہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو متاثرین کی تعداد 50ہزار سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ بےیقینی کی اس کیفیت میں وفاقی حکومت نے صوبوں کی جانب سے نافذ کیے گئے ملک گیر لاک ڈائون کی مدت میں مزید دو ہفتے یعنی 14اپریل تک اضافے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد اس میں مزید سختی یا نرمی لانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ حکومت سندھ نے اپنے طور پر جمعہ کو یعنی آج دوپہر 12بجے سے 3بجے تک پورے صوبے کو مکمل بند رکھنے کا حکم جاری کیا ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے پولیس کو خصوصی ہدایت کی ہے۔ بیرونِ ملک پھنسے ہوئے 2ہزار اوور سیز پاکستانیوں کو لانے کے لیے پی آئی اے کی 17پروازیں بحال کی گئی ہیں جبکہ وزیراعظم نے تعمیراتی صنعت کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مزدور طبقے کو روزگار مل سکے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے گندم کی کٹائی میں سہولت کے لیے لاک ڈائون میں نرمی کے اعلان کے علاوہ دہاڑی دار مزدوروں کے لیے امدادی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر، نرسیں، دوسرا طبی عملہ اور فوج کے جوان نہایت دل جمعی سے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے انتہائی قابلِ تحسین عملی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سینٹر میں ایک بریفنگ کے دوران جوانوں سے کہا ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں مدد کے لیے ہر شہری تک پہنچیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم نے بلاتفریق رنگ، نسل و مذہب ایک قوم بن کر اس وبا سے لڑنا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں لوگوں کو کورونا وائرس کے برے معاشرتی و معاشی اثرات سے بچانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں مگر یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وسیع تناظر میں سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ہمیں شاید توقع سے زیادہ عرصے تک اس وبا کے ساتھ رہنا ہوگا اس لیے اس سے بچائو کے روایتی اور غیر روایتی تمام طریقے اپنانا ہوں گے۔ لہٰذا جب تک اس کی ویکسین تیار نہ ہو جائے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ ٹھنڈے ممالک میں گرم کپڑے اور بارش والے خطوں میں چھتریوں کا استعمال لوگوں کا معمول ہے اسی طرح کے طریقے کورونا کے خلاف بھی تلاش کیے جانے چاہئیں جو احتیاطی تدابیر پر مبنی ہوں۔ انسانوں میں قدرت نے مزاحمت کی قوت پیدا کی ہے، جب تک کورونا سے لڑائی جاری ہے یہ قوت ہماری حفاظت کرے گی۔ یقین رکھنا چاہیے کہ دنیا میں آنے والی دوسری آفات کی طرح اس وبا پر بھی جلد قابو پالیا جائے گا۔ ضرورت صرف احتیاطی اقدامات پر عمل کرنے کی ہے جنہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

تازہ ترین