• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس سے نمٹنے میں سندھ دیگر صوبوں پر سبقت لے گیا

اسلام آباد (عمر چیمہ) کورونا وائرس سے نمٹنے میں سندھ بازی لے گیا ہے، اس نے ایسے اقدامات کئے ہیں جو دیگر صوبائی حکومتوں کیلئے معیاری ہیں۔

پنجاب سے موازنہ کریں تو سندھ ایک ایسے مقام پر ہے جہاں کبھی پنجاب کسی بحران کی صورت میں ہوا کرتا تھا یعنی درست وقت پر درست فیصلہ اور تیاری کا احساس۔

 لاہور میں ایک عمدہ بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ حتیٰ کہ پنجاب میں اعلیٰ افسران اتفاق کریں گے کہ اگر کوئی صوبہ اپنا ذہن استعمال کر رہا ہے اور آزاد فیصلے لے رہا ہے تو وہ سندھ ہے۔ 

ایک اور افسر کا کہنا تھا کہ سندھ فیصلے لے رہا ہے اور ہم صرف نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیسز میں ہم کام صرف اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ سندھ میں ہو رہے ہیں۔

 دونوں صوبوں میں افسران کے ساتھ پس منظر کی گفتگو سے پتہ چلا ہے کہ سندھ میں انتظامات پنجاب میں کئے گئے اقدامات سے کہیں بہتر ہیں۔ 

ٹھیک ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے مسافروں کی آمد سے لے کر ان کی نگرانی اور تصدیق شدہ کیسز کے علاج تک سندھ نے پالیسیاں تشکیل دی ہیں جو بہت زیادہ نتیجہ خیز اور عوام دوست ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی ایئرپورٹ پر آغاز میں وفاقی حکومت کا ہیلتھ اسٹاف تھا۔ 

اس وقت کی گئی اسکریننگ تسلی بخش نہیں تھی۔ مسافروں کو وفاقی حکومت کے اسکریننگ انتظام کے تحت میڈیکل ڈیکلیریشن فارم جمع کرانا اور تھرمل اسکیننگ سے گزرنا تھا۔ سندھ نے سوچا بہت ہوگیا۔ 

صوبائی حکومت نے اپنا خود کا میڈیکل اسٹاف تعینات کردیا جو کورونا علامات سے متعلق طبی سوالات اور اسکریننگ کرتا تھا۔ ایک دفعہ کلیئر ہوگئے تو مسافروں کو اگلے 14 دنوں کیلئے ہدایات پر مشتمل ایڈوائزری دی جاتی۔ 

کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ انہیں 14 دنوں کیلئے روزانہ صوبائی حکومت سے دو پیغامات ملتے رہتے ہیں (ایک انگریزی اور ایک اردو میں) جن میں ان سے کہا جاتا ہے کہ کھانسی، بخار، درد یا سانس کے مسئلے کی صورت میں دئیے گئے نمبروں پر رابطہ کریں۔

 اس کے برعکس پنجاب میں ایئرپورٹس پر مسافروں کو محض وفاقی حکومت کی مجوزہ اسکریننگ (ڈیکلیریشن فارم اور تھرمل اسکیننگ) سے گزرنا ہوتا تھا۔ اگر کلیئر ہوجاتے تو انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی۔

 صرف ایک ہی مرتبہ انہیں صوبائی حکومت سے کال موصول ہوتی یہ دیکھنے کیلئے کہ آیا انہیں کوئی مسئلہ ہے اور انہیں کسی بھی شکایت کی صورت میں کہاں رابطہ کرنا چاہئے۔ 

اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا جاتا جب تک کسی میں ٹیسٹ مثبت نہ آجاتا۔ حتیٰ کہ پنجاب حکومت کے ایک عمدہ افسر نے تسلیم کیا کہ یہ وقتی ٹیلیفونک اسکریننگ مشکوک افراد کو اس کے مضمرات کی حساسیت کا احساس دلانے میں مددگار نہیں۔ 

جہاں تک مشتبہ مریضوں کی شناخت کا تعلق ہے تو دونوں صوبوں کی اس سے نمٹنے کی مختلف حکمت عملی ہے۔ 

مثال کے طور پر سندھ میں تمام نجی اور سرکاری اسپتال کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب بھی ان کا سامنا کسی مشتبہ مریض سے ہو تو ڈسٹرکٹ رسپانس ٹیم کو آگاہ کریں۔ یہ ٹیم مریض کے پاس پہنچ کر اس کا انٹرویو کرے گی اور ٹیسٹ کیلئے نمونہ اکٹھا کرے گی۔ 

تمام ٹیسٹنگ سندھ میں مفت کی جاتی ہے۔ اگر نتیجہ مثبت آجائے تو مریض کو دو آپشنز دئیے جاتے ہیں کہ یا تو اپنے گھر پر خود کو آئیسولیٹ کرلو یا اسپتال میں داخل ہوجاؤ۔ 

صرف تشویشناک حالت میں ہی مریضوں کیلئے اسپتال میں داخل ہونا لازمی ہے۔ جو اپنے گھروں پر خود کو آئیسولیٹ کرتے ہیں ان سے باقاعدگی سے تازہ ترین صورتحال کیلئے رابطہ کیا جاتا ہے اور مخصوص وقت کے بعد یہ جاننے کیلئے ان کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں کہ آیا وہ شفایاب ہوگئے ہیں یا نہیں۔

 انہیں اس وقت کلیئر کردیا جاتا ہے جب دو مرتبہ ان کے منفی نتیجوں کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ 

ان کے رابطہ کاروں کا سراغ لگایا جاتا ہے اور ان کا بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ آیا انہیں یہ مرض تو نہیں لگا۔ جس کسی میں بھی مثبت ٹیسٹ آجائے تو اسے اسی طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے۔ 

پنجاب میں جس کسی نے بھی جس کسی بھی جگہ سے خود کا ٹیسٹ کروایا ہے، لیبارٹریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مثبت کیسز کے حوالے سے محکمہ صحت کو اطلاع کریں۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے وہ ناقابل فراموش کہانی بن جاتی ہے۔ 

برطانوی پاکستانی سلمان حسن پنجاب میں پہلا تصدیق شدہ کیس تھا۔ پاکستان آمد پر انہوں نے چغتائی لیب سے خود کا ٹیسٹ کروایا تھا جس نے حکومت کو آگاہ کیا جیسا کہ ان کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ 

سلمان کو اس کا معلوم نہیں تھا۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے خود کو اپنے گھر پر آئیسولیٹ کرلیا تھا۔ 

انہوں نے دی نیوز کو لکھا کہ ایڈیشنل سیکریٹری ہیلتھ رات 12 بجے ان کے گھر آئے۔ ان سے اس بات پر اتفاق ہوا کہ اب بہت دیر ہوگئی ہے اس لئے وہ صبح اسپتال جائیں گے۔

تازہ ترین