دُنیا بھَر میں ہر سال ورلڈ فیڈریشن آف ہیمو فیلیا کے زیرِ اہتمام17اپریل کو ایک تھیم منتخب کرکے ’’ ہیمو فیلیا کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ1963ء میںFrank Schnabelنے مذکورہ فیڈریشن کی بنیاد رکھی اورپھر پہلی بار اس پلیٹ فارم سے 1989ء میں یہ یوم منایا گیا، جس کا مقصد مرض سے متعلق ہر سطح تک معلومات عام کرنا تھا۔چوں کہ فرینک کا یومِ پیدایش 17اپریل ہے،تو انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے ہی کے لیےاس تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔ امسال کا تھیم ’’Get+involved‘‘ہے۔یہ تھیم منتخب کرنے کا بنیادی مقصد مریضوں، ان کےگھر والوں، رضاکاروں اور معالجین کوآگاہی مہم میں شامل کرکے متاثرین و مشتبہ افراد کی مناسب دیکھ بھال تک رسائی یقینی بنانا ہے۔ قارئین کی معلومات میں مزید اضافے اور شعور و آگہی کے لیے مرض سے متعلق مضمون پیش ِخدمت ہے۔
ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جسے عام اصطلاح میں خون بہنے کی بیماری کہاجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم میں موجودخون جمانے والے ذرّات میں اس حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے کہ اگرکوئی چوٹ یا زخم لگ جائے ،تو خون رُکنے یا جمنے میں کافی وقت لگتا ہے اور زیادہ خون بہہ جانےکے نتیجے میں موت کے امکانات بڑھ جاتےہیں ۔ بیماری کی شدّت میں کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہوسکتا ہے۔اصل میں خون ،پروٹین، سُرخ و سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس کے مجموعے کا نام ہے۔ جب کسی عام صحت مند فرد کو چوٹ لگتی ہے، تو قدرتی طور پرایک خاص وقت تک خون بہنے کے بعد اس پر خود بخود ایک جھلّی سی بن جاتی ہے، جوخون روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس جھلّی کو طبّی اصطلاح میں’’کلاٹ ‘‘ کہتے ہیں،لیکن اگر جھلّی بنانے والے پروٹین (فیکٹر) کی جین متاثر ہو جائے، تو پروٹین بننے کا عمل رُک جاتا ہے اور خون جم نہیں پاتا ۔اور یہی عمل ہیموفیلیا کا سبب بن جاتاہے۔ یہ ایک موروثی مرض بھی ہے، جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہو سکتاہے۔ دُنیا بَھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے ،لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے 75فی صدافراد میں اس کی تشخیص نہیں ہوپاتی یا وہ ناکافی علاج کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں سِرے سےعلاج کی سہولت ہی میسّر نہیں ہوتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ بیس ہزار بچّے اس مرض کا شکار ہیں۔ صرف کراچی ہی میں تین ہزار بچّے مرض سے متاثر ہیں،مگرالم ناک صُورت ِحال یہ ہے کہ مُلک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سےمتاثرہ بچّوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔
ہیمو فیلیا کی تین اقسام ہیں ۔ہیموفیلیا اے، بی اور ریئرفیکٹر ڈیفیشنسیز (Rare Factor Deficiencies) ۔ ان میں سب سے عام ہیموفیلیا اےہے کہ ہر پانچ ہزار نوزائیدہ بچّوں میں سے ایک بچّہ ہیموفیلیااے کا شکار ہوتا ہے۔ اس قسم میں فیکٹر 8کی کمی ہوتی ہے۔اصل میںخون رُکنے یا جمنے کے عمل میں 12اجزاء حصّہ لیتے ہیں، جنہیں کلاٹنگ فیکٹرز (خون جمانے والے عناصر) کا نام دیاگیا ہے۔ اگر ان 12فیکٹرز میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے، تو خون جمنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ہیموفیلیا بی میں فیکٹر9،جب کہ ریئرفیکٹر ڈیفیشنسی میں ایک تا بارہ مختلف فیکٹرزکی کمی واقع ہوجاتی ہے۔واضح رہے کہ ایک عام صحت مند فرد میںکلاٹنگ فیکٹرز کی نارمل مقدار50تا 200انٹرنیشنل یونٹ ہوتی ہے۔ہیمو فیلیا کی شدّت کے اعتبار سے درجہ بندی کی گئی ہے، جس کے مطابق پہلا درجہ مائلڈ ہیموفیلیا (Mild Hemophillia) ہے، جس میںکلاٹنگ فیکٹرز کی تعداد5فی صد سے زائد پائی جاتی ہے۔دوسرے درجے،معتدل ہیموفیلیا (Moderate Hemophillia) میں فیکٹرز کی تعداد ایک سے 5فی صد اورشدید ہیموفیلیا (Severe Hemophillia)میں کلاٹنگ فیکٹرز کی مقدار ایک فی صد سے بھی کم پائی جاتی ہے۔عمومی طور پر مرض کی ابتدائی تشخیص اُسی وقت ہوجاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر تک بہتا رہتا ہے۔علاوہ ازیں بچّے کی ناک سے مسلسل خون کا بہنا،پیشاب میں خون کا اخراج،مسوڑھوں سے خون رِسنااور جوڑوں میں سوجن اس مرض کی ممکنہ علامات ہو سکتی ہیں۔ عموماً ہیموٹولوجسٹس سےشدید ہیموفیلیا سے متاثرہ مریض ہی رجوع کرتے ہیں،موڈریٹ اور مائلڈ ہیموفیلیا والوں کو علاج کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے، جب ان کی کوئی سرجری ہو،کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر چوٹ وغیرہ لگ جائے۔مائلڈ اور موڈریٹ ہیمو فیلیا والوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے،لیکن اس مرض کا ایسا کوئی مستقل علاج نہیں ،جس کے نتیجے میں مکمل طور پر شفا مل سکے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ مرض میں مبتلا والدین کا علاج کر دیا جائے ،تو ان کے بچّوں میں مرض منتقل نہ ہو۔
دُنیا بھَر میں ہیمو فیلیا کے مریضوں کو اڑتالیس گھنٹے کے فرق سے تین بار فیکٹر8یا9 بذریعہ انجیکشن لگایا جاتا ہے۔یہ وہ فیکٹرز ہیں،جومریض کے خون میں قدرتی طور پر نہیں پائےجاتے۔ مگر چوں کہ یہ فیکٹر انجیکشن بہت زیادہ منہگے ہوتےہیں اور پاکستان میںدستیاب بھی نہیں ،چناں چہ ہمارے یہاں مریضوں کوفریش فروزن پلازما (FFP: Fresh Frozen Plasma) یا منجمد پلازما دیا جاتا ہے، یعنی صاف اور صحت مند خون کا بروقت انتقال۔ صحت مند خون سے خون کے خلیے اورپلیٹ لیٹس نکالنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے، وہی فریش فروزن پلازما کہلاتاہے۔ویسے توبہترین صُورت یہی ہے کہ ہیمو فیلیا کے مریضوں کے جسم میں صرف خون جمانے والے وہی فیکٹرز داخل کیے جائیں، جن کی جسم میں کمی ہو۔بہرحال ،ایف ایف پی کا طریقۂ علاج بھی مؤثر ہے ،لیکن اس بات کا اندیشہ ہی رہتا ہےکہ خون اور پلازما محفوظ بھی ہیں یانہیں ۔ اگر محفوظ انتقالِ خون نہ ہو، تو ہیمو فیلیا کے مریض ہیپاٹائٹس بی ،سی اور ایچ آئی وی سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں ہیمو فیلیا ہی کی طرح کی ایک اور بیماری von Willebrand Disease بھی عام ہے ۔ اس مرض میں بھی خون جمنے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے اوریہ بھی موروثی طور پر منتقل ہو تی ہے ،مگر چوں کہ پاکستان میںاس کے ٹیسٹ کی سہولت میسر نہیں ،لہٰذا اس کا بھی ہیموفیلیا کہہ کرعلاج کر دیا جاتا ہے،حالاں کہ اس بیماری کے اپنے فیکٹرز ہیں ،جو اس بیماری میں لگائے جاتے ہیں۔
یہاں اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ ہیمو فیلیا کا مرض بچوں کی نفسیات پر بھی اثرات مرتّب کرتاہے۔ اس کے نتیجے میں بچّہ بے چینی، پژمردگی (ڈیپریشن)،کسی کام کو بار بار دہرانے کی نفسیاتی بیماری(Obsessive-Compulsive Disorder)، احساس کم تری کا شکار ہوسکتا ہے۔یوںہیموفیلیا کے علاج کے ساتھ ادویہ پر بھی انحصار بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں دیگر مُمالک کے برعکس ہیموفیلیا کے مریضوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےکہ قومی سطح پر اس مرض سے متاثرہ مریضوں کے لیے کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہیموفیلیا کی روک تھام کے لیے حکومت ترجیحی بنیادوں پر مریضوں کو مطلوبہ فیکٹر زمہیا کرنے کے ٹھوس قدامات کرے۔نیز، مرض کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جائے، تاکہ والدین اپنے بچّوں کا بہترسے بہتر علاج کروا سکیں۔
(مضمون نگار، معروف ہیموٹولوجسٹ ہیں اور چلڈرن اسپتال اور بلڈ ڈیزیز سینٹر، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر بھی ہیں)