• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں 11 دن کی توسیع








لاہور کی احتساب عدالت نے ایک بار پھر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 11 دن کی توسیع کر دی۔

احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے کیس کی سماعت کی۔

میر شکیل الرحمٰن کی طرف سے چوہدری محمد نواز ایڈووکیٹ احتساب عدالت میں پیش۔

چوہدری نواز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ امجد پرویز ایڈووکیٹ میر شکیل الرحمٰن کی درخواستِ ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ میں ہیں۔

چوہدری نواز ایڈووکیٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر نیب نے میر شکیل الرحمٰن کا جسمانی ریمانڈ نہیں مانگنا تو میں پیش ہوں۔

نیب کے پراسیکیوٹر عاصم ممتاز نے کہاکہ نیب نے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرنی ہے۔

جج جواد الحسن نے انہیں جواب دیا کہ چلیں پھر آج لاہور ہائی کورٹ کے ضمانت کے فیصلے تک انتظار کر لیتے ہیں۔

لاہور کی احتساب عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی تک سماعت ملتوی کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد احتساب عدالت میں دوبارہ کارروائی شروع ہوئی۔

احتساب عدالت میں میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز پیش ہوئے جنہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق تمام دستاویزات نیب کو میر شکیل الرحمٰن فراہم کر چکے ہیں، تمام کارروائی قانون کے مطابق ہوئی، اب اس کو انتقامی کارروائی کے طور پر کیاجا رہا ہے، نیب نے میر شکیل الرحمٰن سے اب کچھ ری کور نہیں کرنا۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جسمانی ریمانڈ اس وقت دیا جاتا ہے جب ملزم سے کچھ ری کور کرنا ہو، میر شکیل الرحمٰن سے کچھ ری کور کرنا نہیں بلکہ عدالتی وقت ضائع کیا جا رہا ہے، ہر پیشی پر نیب حکام معمولی گراؤنڈ لے کر عدالت کے روبرو پیش ہو جاتے ہیں اور اسی معمولی گراؤنڈ کی بنیاد پر جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہیں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ تمام ریکارڈ نیب اہلکار میر شکیل الرحمٰن سے لے چکے ہیں، اس وقت کے تمام افسران کو نیب اہلکار بلوا کر تفتیشی کر چکے ہیں۔

احتساب عدالت میں میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ریمانڈ پر نیب نے ڈی جی ایل ڈی اے سے آمنا سامنا کروانے کا کہا تھا، آج بھی یہی کہا جا رہا ہے۔

نیب پراسکیوٹر عاصم ممتاز نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن اپنے بھائی کی وفات کی وجہ سے 7 روز تک کراچی میں رہے، ان کے کراچی میں ہونے کے سبب تحقیقات مکمل نہ ہو سکیں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کا ایل ڈی اے کے نقشے سے کوئی تعلق نہیں، ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کی جائے، نیب کہتا ہے کہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے اور میر شکیل الرحمٰن کا آمنا سامنا کرانا ہے، ڈی جی ایل ڈی اے کا بیان ریکارڈ کروایا جا چُکا، آمنا سامنا کروانے کی کیا ضرورت ہے؟

انہوں نے کہا کہ ماضی میں عدالتی فیصلے موجود ہیں جن کے مطابق آمنا سامنا کروانا ضروری نہیں، نیب کہتا ہے کہ ایل ڈی اے سے نقشہ مانگا ہے، ایل ڈی اے کا نقشہ دینے یا نہ دینے سے میر شکیل الرحمٰن کے ریمانڈ کا کیا تعلق ہے؟ 28 فروری کو پہلا نوٹس آیا تو ہم نے لبیک کہا، دوسری پیشی پر اچانک گرفتار کر لیا گیا۔

میر شکیل الرحمٰن کے وکیل نے کہا کہ ہم نے نیب کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا ہے، میر شکیل الرحمٰن کا پرائیوٹ لینڈ مالکان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، سابق ڈی جی ایل ڈی اے اس کیس سے متعلق بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں، سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکریٹری بھی بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔

امجد پرویز نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت میر شکیل الرحمٰن کو جوڈیشل کرنے کا حکم دے۔

احتساب عدالت لاہور نے فیصلہ محفوظ کر لیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں 18 اپریل تک 11 دن کی توسیع کر دی۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت لاہور نے 25 مارچ کو میر شکیل الرحمٰن کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کیا تھا۔

احتساب عدالت لاہور نے میر شکیل الرحمٰن کے بڑے بھائی میر جاوید الرحمٰن کی وفات کے باعث انہیں 7 روز کے راہداری ریمانڈ پر کراچی جانے کی اجازت دی تھی تاکہ وہ اپنے بھائی کے جنازے میں شرکت کر سکیں۔

نیب حکام نے میر شکیل الرحمٰن کو جوہر ٹاؤن میں ایک پرائیویٹ شخص سے 54 کینال پر مشتمل پلاٹ خریدنے کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے۔

تازہ ترین