• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:۔ مولانا محمد حنیف جالندھری
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان
کرونا وائرس کی عالمی وبا نے کم و بیش دنیاکے دو تہائی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس مُہلِک عَالمی وبا سے جہاں ایک طرف میڈیکل سائنس کے ماہرین فکر مند اور پریشان ہیں وہاں دوسری طرف ماہرین معیشت نے بھی سر پکڑ لیا ہے اس لیے کہ اس وبا کے نتیجے میں عالمی سطح پر کروڑوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے پاکستان میں ماہرینِ معیشت کے مطابق اس کے نتیجے میں ڈیڑھ سے دو کروڑ افراد مزید بیروزگار ہو جائیں گے ۔ پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں پاکستانی معیشت کو دو کھرب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے اس لیے کہ کارخانے فیکٹریاں اور دکانیں بند ہیں معیشت کا پہیہ جام ہو چکا ہے ہے اور تمام ترقیاتی اور پیداواری منصوبے بند ہوچکے ہیں اس کساد بازاری کا اثر معاشرے کے تمام شعبوں پر پڑ رہا ہے ہمارے دینی مدارس بھی پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں اور معیشت کی خوشحالی یا بدحالی کے اثرات مدارس پر بھی پڑتے ہیں دینی مدارس وطن عزیز کے حوصلہ مند دیندار اور مخیر مسلمانوں کے تعاون سے سے تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں ان مدارس میں مجموعی طور پر لاکھوں کی تعداد میں ایسے طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کی تمام ضروریات مدارس کی طرف سے پوری کی جاتی ہیں جن میں کھانا رہائش لباس کتب علاج معالجہ اور ماہانہ وظائف شامل ہیں ۔الحمدللہ دینی مدارس وجامعات مُلک وقوم کی جو خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ تاریخ کاروشن باب ہے ۔مدارس امتِ مسلمہ کاسرمایہ اور اثاثہ ہیں موجودہ ایک سال میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحق مدارس وجامعات میں قرآنِ کریم کے جو حافظ تیار ہوئے ان کی تعداد اٹہتر(78)لاکھ ہے جن میں چودہ(14) ہزارطالبات ہیںجنہیں حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہوئی ،اور انتیس(29) ہزارعالم تیار ہوئے جن میں اٹھارہ(18) ہزار چارسو پچانوے طالبات ہیں جو عالمہ ،بنی ہیں ۔
دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ رجب شعبان اور رمضان المبارک کے مہینے دینی مدارس کی سالانہ تقریبات امتحانات اور اور تعطیلات کے ایام ہیں ان ایام میں اہل اسلام عشر، زکوۃ ،صدقات اور عطیات سے دینی مدارس کی اعانت فرماتے ہیں جس کی بدولت مدارس میں تعلیم و تدریس کا مبارک سلسلہ جاری رہتا ہے شعبان اور رمضان میں سالانہ امتحانات کی وجہ سے درجہ کتب کے طلبہ چھٹی پر ہوتے ہیں لیکن تحفیظ کی تعلیم بدستور جاری رہتی ہے اور پیشتر مدارس میں سینکڑوں طلباء حفظِ قرآن کریم کی تعلیم میں مشغول رہتے ہیں ان طلبہ کی رہائش خورد و نوش اور دیگر ضروریات کے اخراجات جاری رہتے ہیں اساتذہ کرام اور مدارس کے ملازمین بھی مدارس ہی میں مقیم ہوتے ہیں ۔مطبخ بھی بدستور کھلا رہتا ہے تمام اساتذہ کرام اور ملازمین کو ایام تعطیلات کی تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں مدارس میں قائم مساجد کے اخراجات اور یوٹیلیٹی بلز بھی ادا کئے جاتے ہیں غرضیکہ درجہ کتب کے طلباء کے اخراجات کے علاوہ مدارس و جامعات کے دیگر اخراجات بدستور جاری رہتے ہیں بلکہ آنے والے تعلیمی سال کی ضروریات اور ضروری تعمیرات بھی انہی ایام تعطیلات میں مکمل کی جاتی ہیں بعض مدارس ایسے بھی ہیں جو تعلیمی سال کے دوران قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں حاصل ہونے والے عطیات سے وہ قرض چکاتے ہیں۔
احقر کو دیگر مدارس کے تفصیلی حالات تو معلوم نہیں ہیں مگر جامعہ خیر المدارس ملتان میں مشاہرات کی مد میں ماہانہ 22 لاکھ روپے یوٹیلیٹی بلز پندرہ لاکھ روپے اور ضروری مرمتیں اور متفرق اخراجات تقریبا پانچ لاکھ روپے ہیں جو ایام تعطیلات میں بھی بدستور ہوتے ہیںچنانچہ اس وقت بھی تقریباًساٹھ لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہورہے ہیں آجکل اگرچہ مدارس و جامعات میں اقامتی طلباء رہائش پذیر نہیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مدارس کو مقفل(تالالگادیا) کردیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ مدارس و جامعات کے بعض شعبے پورا سال فعال رہتے ہیں ہیں ان میں دارالافتاء ،تعمیرات اور نشرو اشاعت کے شعبے ہیں مدارس کے تعارف کے سلسلے میں اساتذہ کرام کے اسفار بھی جاری رہتے ہیں چنانچہ بعض اوقات شعبان اور رمضان کے اخراجات عام معمول سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔
کرونا وائرس کی وجہ سے آنے والے معاشی بحران سے دینی مدارس بھی متاثر ہوئے ہیں چنانچہ اس سال جامعہ خیرالمدارس میں رجب اور شعبان میں وصول ہونے والے عطیات کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی صورتِ حال دیگر مدارس کی بھی ہے ۔ اگر اہل دل مخیر اور دینی تعلیم و تدریس کی اشاعت کا درد رکھنے والوں نے توجہ نہ کی تو اس طرح کی صورتحال رمضان مبارک میں بھی پیش آ سکتی ہے جو اہل مدارس کے لئے باعث فکر ہے۔
پاکستان کے مسلمان اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ ہمارے دینی مدارس میں رائج نظامِ تعلیم اور نصاب تعلیم کی نظیر دنیا بھر میں موجود نہیں ہے دینی مدارس کے اسی نصاب تعلیم کی بدولت یہاں ایسے افراد پیدا ہوئے ہیں جو دینی حمیت اور اسلامی غیرت سے سرشار ہونے کی وجہ سے کسی باطل کے سامنے سر نگوں ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ضرورت پڑنے پر کفر و الحاد کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں برصغیر کے ان مدارس کے فضلاء علم و عمل زہدوتقوی راستبازی اور تصلب و استقامت میں دیگر مسلم ممالک کی یونیورسٹیوں کے فضلاء سے بدرجہا ممتاز اور فائق ہوتے ہیں ۔
اس لیے دنیا کے مختلف ممالک سے ہزاروں طلبہ پاکستانی دینی مدارس میں تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں اگر خدانخواستہ اہل خیر نے اس سال مدارس دینیہ کی اس طرح اعانت نہ کی جیسے وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں تو اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ مدارس دینیہ میں قران وحدیث کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ معطل یا خدانخواستہ منقطع ہو جائے اس لیے میری تمام اہلِ اسلام سے درخواست ہے کہ وہ حسب معمول ان مدارس کو اپنی دعاؤں، تعاون اور اعانت میں یاد رکھیں۔
اس وقت ایک ہنگامی صورتحال ہے جس کی وجہ سے اس محنت کش طبقہ کی اعانت بھی ضروری ہے جو ڈیلی ویجز یا یومیہ اجرت پر کام کرتا تھا کارخانے فیکٹریاں اور دکانیں بند ہونے کی وجہ سے وہ اس وقت بیروزگار ہیں ان کی مدد کرنا بھی ہمارے دینی اور اخلاقی فرائض میں شامل ہے لیکن اس کے ساتھ قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس کا یہ مبارک سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ اہل خیر حضرات صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر وغیرہ کی رقوم تو بدستور مدارس کو دیں اور نفلی صدقہ سے ہمارے ان بھائیوں کی مدد کریں جو موجودہ حالات کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں اس کے ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم صدق دل سے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے حق تعالیٰ شانہٗ سے معافی مانگیں اور پوری امت کے لئے اس وبا سے سلامتی کی دعا کریں بالخصوص وطن عزیز کی سلامتی، حفاظت عزت اور ترقی کے لئے دعاگو رہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری مساجد،مدارس اور حرمین شریفین کی ان رونقوں کو بحال فرمائیں جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں اور دل روحانی مسرتوں سے لبریز ہو جاتے تھے اور اللہ تعالی اس آزمائش میں ہم سب کو توبہ و اِنابت کی توفیق عطا فرمائیں۔(آمین)
تازہ ترین