• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی وبا نے جہاں ساری دنیا کے چھوٹے بڑے ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا وہیں پاکستان بھی اس وبا کا شکار نظر آیا، اس وجہ سے دنیا کے اور ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی مایوسی کا طوفان آگیا۔

جب ہر طرف مایوسی تھی تو اس وقت مایوسی کے ان بادلوں میں سے ایک مثبت امید بھی جھلکتی نظر آئی، یہ مثبت سوچ یہ تھی کہ ساری سیاسی پارٹیاں، حکومت اور اپوزیشن ایک ساتھ بیٹھ کر ساری قوم کو متحد کرکے اس خطرناک وبا کا اجتماعی طور پر مقابلہ کریں۔

جب کورونا وائرس کے پاکستان میں بھی پھیلنے کے بارے میں اطلاعات آنے لگیں تو اپوزیشن کے دو اہم رہنمائوں میاں شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر اس وبا کا مقابلہ کریں۔

بلاول بھٹو شروع دنوں سے حکومت کو تجاویز دیتے رہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، آیئے مل کر اس وبا کا مقابلہ کریں، جب اس وبا کے حملے میں پاکستان میں کچھ کیسز ہوئے تو اس بات کے باوجود کہ شہباز شریف کے بڑے بھائی میاں نواز شریف ابھی لندن میں زیر علاج تھے۔

انہوں نے واپس پاکستان آکر عوام کو منظم کرکے حکومت کے ساتھ مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا، پھر ایک دو دنوں میں وہ پاکستان واپس لوٹ آئے اور لاہور میں پریس کانفرنس کرکے اپنی پارٹی اور عوام کو منظم کرنے کے علاوہ آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کرنے کے بھی اعلانات کئے، ساتھ ہی انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ آگے آئے اور آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کرے۔

جب شہباز شریف کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا تو عوام توقع کرنے لگے کہ وزیراعظم عمران خان کا بیان بھی آئے گا جس میں وہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے ان بیانوں کی حمایت کرنے کے ساتھ وزیراعظم کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کریں گے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حسرت پوری نہیں ہوئی۔

بہرحال ایک مثبت پیشرفت ضرور ہوئی وہ یہ کہ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں، اس کانفرنس میں بشمول شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت، بیشتر مخالف جماعتوں کے قائدین کو مدعو کیا گیا تھا، اس اعلان کی وجہ سے عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی کہ چلو اسپیکر کی صدارت میں ہی ایسی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے اس کانفرنس کو وڈیو لنک کے ذریعے ایک اجتماعی پلیٹ فارم میں تبدیل کردیا گیا۔

عوام کو خوش آئند بات یہ نظر آئی کہ خود وزیراعظم عمران خان بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے اور سب سے پہلے وڈیو پر انہوں نے کانفرنس کے شرکا سے خطاب کیا حالانکہ یہ تقریر توقعات کے مطابق نہیں تھی مگر عوام اس وقت مزید سخت مایوس ہوئے جب اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کرسی سے اٹھ کر چلے گئے۔

اس کا شدید ردعمل ہوا اور دیگر رہنمائوں نے وزیراعظم کے اس قدم کو اپنی توہین سمجھا اور شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی بطور احتجاج کانفرنس سے الگ ہو گئے، اس طرح یہ سب امیدیں مایوسی میں تبدیل ہو گئیں۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ اس ساری صورتحال میں سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ایک مثبت قدم اٹھایا جس کے تحت انہوں نے سندھ صوبے میں لاک ڈائون کردیا تاکہ لوگوں کے آپس میں ملنے جلنے کو روک کر کورونا وائرس کی رفتار کو کم کیا جا سکے مگر وزیراعظم عمران خان نے بلا سوچے سمجھے سندھ میں کیے گئے لاک ڈائون کی بھی مخالفت کی مگر حیرت اس وقت ہوئی جب بعد میں پنجاب، کے پی، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرمیں بھی لاک ڈائون کردیا گیا، اس مرحلے پر وزیراعظم عمران خان اکیلے نظر آئے۔

اس وجہ سے یا خود ان کے مشیروں کے مشورے کے بعد وزیراعظم نے لاک ڈائون کی حمایت کی مگر وزیراعظم عمران خان کے اس فیصلے نے بھی ایک نیا رخ اختیار کیا اس کے برعکس کہ بشمول سندھ سارے صوبے اور بشمول شہباز شریف اور جماعت اسلامی ساری سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ مل کر دہاڑی پر کام کرنے والے اور دیگر غریب لوگوں کی مل کر مالی امداد کرنے کی تجویز دی۔

وزیراعظم عمران خان نے اس ایشو پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر غریب لوگوں کو راشن فراہم کرنے کے بجائے کورونا ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا جن کے زیادہ تر پی ٹی آئی کے ورکرز پر مشتمل ہونے کے بارے میں اطلاعات آنے لگی۔

پھر ٹائیگر فورس ورکرز کی شرٹس کا معاملہ اٹھا، اطلاعات کے مطابق ان شرٹس پر پی ٹی آئی نقش ہے لہٰذا وزیراعظم عمران خان اس سارے عمل کو اپنی پارٹی کے کھاتے میں ڈالنے پر پُرعزم نظر آئے، بعد میں انہوں نے گزشتہ ہفتہ لاہور میں کورونا ٹائیگر فورس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا جس میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز اور دیگر رہنمائوں کو مدعو کیا گیا تھا یہاں خان صاحب نے جو تقریر کی اس میں وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کو پی ٹی آئی کو تقویت دینے اور پی ٹی آئی کو پاکستان کی واحد پارٹی کے طور پر ابھارتے ہوئے نظر آئے۔

نوٹ:جس دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ جیو اور دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو نیب کے ہاتھوں گرفتار کرایا گیا ہے اور اس کے باوجود کہ ان کے خلاف سارے ملک میں صحافی احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں ان کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا اور ان کے بڑے بھائی میر جاوید رحمٰن کے انتقال پر ابھی تک وزیراعظم کا تعزیتی بیان بھی نہیں آیا حالانکہ ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی میر جاویدرحمٰن کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا اور تعزیتی بیان بھی جاری کیا۔

تازہ ترین