میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
عکّاسی: اسرائیل انصاری
ہاؤسنگ اور رئیل اسٹیٹ کو کسی بھی معیشت کا مین ڈرائیور کہا جاتا ہے۔ اکانومی کو یہ ہی صنعت جنریٹ کرتی ہے۔ اس کی وجہ اس انڈسٹری کے چلنے سے اس سے وابستہ انڈسٹریوں کی تعداد ہے جو پاکستان میں بیالیس بتائی جاتی ہے لیکن سائوتھ ایشیا اور ترقّی یافتہ ملکوں میں یہ تعداد 272 مانی جاتی ہے ،سندھ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں معیاری اور سستے گھروں کی ضرورت ہے۔ ان منصوبوں سے ہم کچی آبادیوں کو معیاری ہاؤسنگ یونٹ میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آباد کے پلیٹ فارم سے بھی مذاکرات جاری ہیں توقع ہے کہ جلد مفید پیش رفت سامنے آئے گی۔پاکستان کی آبادی دو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ہر سال ساڑھے سات لاکھ کے لگ بھگ نئے مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور گیارہ لاکھ مکانوں کی قلت کا سامنا پہلے ہی سے ہے۔ تو اگر ان پر فوکس کیا جائے تو یہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جا سکتے ہیں
ضیغم رضوی
ہر صوبہ کی ضرورت ہے کہ گھر بنیں، ہائوسنگ کی اسکیمیں سامنے آئیں کچی آبادیاں ختم ہوں اور بہتر اور معیاری رہائشی منصوبے تیار کیے جائیں۔ اس حوالے سے بہت جلد مفید پالیسی سامنے آئے گی۔ حکومت اور نجی شعبہ مل کر کام کرے تو معیاری، سستی رہائش کا خواب پورا ہو سکے گا۔ ابھی کورونا کے سبب لوگوں کی جانوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اس حوالے سے کام شروع کرنے سے پہلے ہم حکومت کی جانب سے ایس او پیز کا انتظار کررہے ہیں جس کے تحت منصوبوں پر کام شروع کیا جا سکے۔ اگر حکومت شرح سود میں کمی لائے خاص کر ہائوسنگ سیکٹر کے لیے، ڈالر کو کنٹرول میں رکھے اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کرے تو میں سمجھتاہوں کہ کاروبار اور صنعت کی صورت حال بہتر ہوگی اور روزگار کے ساتھ حکومتی وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔کنسٹرکشن سے وابستہ لیبر، ورکرز کی رجسٹریشن ہوگی۔ انہیں صنعتی مراعات، سہولتیں، جاب سیکورٹی، انشورنس سب مہیا کی جائیں گی
محسن شیخانی
پاکستان سمیت پوری دُنیا کورونا وائرس وبا کے شدید خطرے سے دوچار ہے، تادمِ تحریر اکیس لاکھ افراد اِس جان لیوا وائرس کا شکارہو چکے ہیں جن میں سےڈیڑھ لاکھ سے زائد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دُنیا کی تقریباً آدھی آبادی لاک ڈائون میں ہے اور چھوٹی بڑی تمام معیشتیں تباہی کا شکار دکھائی دے رہی ہیں، جن معیشتوں کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ شرح نمو میں نیا ریکارڈ قائم کریں گی، اب ورلڈ بینک ان کے بارےمیں پیش گوئی کر رہا ہے کہ وہ ایک یا دو فی صد کےقریب رہیں گی بعض کی شرح نمو منفی بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جن کی شرح نمو منفی میں رہنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ دُنیا کے تمام ممالک اپنی اپنی معیشتوں، روزگار اورغربت کا شکار لوگوں کے لیے خصوصی ریلیف پیکیج کا اعلان کررہے ہیں۔ پاکستان میں بھی حالیہ دنوں میں حکومت نے نچلے طبقے اور انڈسٹری کے لیے بارہ کھرب کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔
جس میں ایکسپورٹ انڈسٹری اور بزنس مینوں کے لیے مراعات اور کم شرح سود پر قرضوں کی سہولت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے بھی ایک مراعاتی اور ترغیباتی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا حکومت کے خیال میں یہ پیکیج اس جانب ایک اہم قدم ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس مراعاتی پیکیج سے تعمیراتی صنعت کا پہیہ تیزی سے گردش میں آئے گا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور تعمیراتی صنعت سے وابستہ انڈسٹری بحال ہوگی ساتھ ہی رئیل اسٹیٹ میں بھی تیزی دکھائی دے گی۔ نئی سرمایہ کاری کے لیے حکومت نے اس شعبے میں سرمایہ کاروں کو یہ بھی سہولت دی ہے کہ ان سے ذرائع آمدنی نہیں دریافت کیے جائیں گے جائداد کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ اور انڈسٹری کو صنعت کا درجہ اور فکسڈ ٹیکس بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ دُوسری طرف معروف اکنامسٹ اور ناقدین کا کہنا ہے کہ کالا دھن کو سفید کرنے کی یہ ایک نئی اسکیم ہے جس سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور منی لانڈرنگ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگی۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے سے وہائٹ آنے میں مزید مشکلات بڑھیں گی۔
ان کے خیال میں اس وقت جب کہ دُنیا کورونا سے متعلق ریلیف مہیا کر رہی ہے، تعمیراتی صنعت کو اس قسم کی مراعات مناسب نہیں۔ ان کی رائے میں سرمایہ کاروں اور بلڈرز کے لیے یہ پیکیج لایا گیا ہے جبکہ صارف کا بالکل خیال نہیں کیا۔ تمام ترغیبات سپلائی سائڈ پر ہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں ورکنگ کلاس کے لیے اپنا مکان خریدنے یا بنانے کی اس میں کوئی کشش نہیں ہے۔ جنگ فورم نے حکومت کے تعمیراتی انڈسٹری کو دیئے گئے پیکیج کے حوالے سے جنگ فورم کا انعقاد کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کا پیکیج کیا ہے؟ اس سے کیا مقاصد حاصل ہوں گے؟ کیا اس کی ٹائمنگ دُرست ہے؟ بلڈرز، سرمایہ کار اور ورکنگ کلاس کے لیے اس میں کیا مراعات ہیں؟ کیا اس پیکیج سے کنسٹرکشن انڈسٹری کا پہیہ گردش میں آئے گا؟ رئیل اسٹیٹ سیکٹر فروغ پا سکے گا؟ کم لاگت کے مکانوں کی اسکیمیں شروع اور کامیاب ہو سکیں گی؟ لوگوں کا اپنا گھر کا خواب پورا ہوگا، تحریک انصاف اپنے پچاس لاکھ گھروں کے وعدے کی تکمیل کر سکے گی؟ بلند شرح سود کی موجودگی کتنی بڑی رُکاوٹ ہے۔ ہائوسنگ لان کی دستیابی کیسے یقینی بنائی جا سکے گی؟ ان سوالوں کے جوابات کے لیے پرائم منسٹر ہائوسنگ ٹاسک فورس کے چیئرمین ضیغم رضوی اور ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی کو فورم میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ فورم کا انعقاد ’’آباد ہائوس‘‘ کراچی میں کیا گیا۔
جنگ: محسن آپ بتایئے کہ اس پیکیج کی ضرورت کیوں پڑی؟ انڈسٹری کن مسائل کا شکار تھی اور اب ایسا کیا ہے کہ وہ ایشوز حل ہو جائیں گے اور کنسٹرکشن انڈسٹری دوبارہ رواں ہو جائے گی۔
محسن شیخانی: جنگ فورم کا شکریہ کہ اس نے اس وقت ایک اہم موضوع پر اس نشست کا اہتمام کیا، یہ دُرست ہے کہ کنسٹرکشن انڈسٹری گزشتہ دو برس سے جمود کا شکار ہے۔ اس کا پاکستان کی معیشت میں ضروری کردار ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کی وجوہ میں نئی حکومت کے ساتھ ہی ویلیو ایشن کے ایشوز تھے جو فائنل نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی بزنس کمیونٹی نیب اور ایف آئی اے کے ریڈار پر بھی تھی جس کے سبب بھی سرمایہ کار پریشان تھے اور بزنس اور انڈسٹری کا اعتماد ختم ہو گیا تھا۔ بزنس کمیونٹی کے ساتھ سیاست کی جا رہی تھی بلاوجہ کی حاضریاں اور پریشانیاں درپیش تھے۔ پالیسی فرینڈلی نہیں رہی تھی جبکہ دُنیا بھر میں انڈسٹری کے لیے کاروبار دوست ماحول درکار ہوتا ہے اور حکومتیں اس کا خیال رکھتی ہیں۔
ہم دو برس سے مذاکرات میں تھے کہ تعمیری صنعت کے لیے ایک مراعاتی اور ترغیباتی پالیسی کی ضرورت ہے حکومت کا اپنا پچاس لاکھ کا نعرہ بھی موجود ہے جس کے لیے ہائوسنگ سیکٹر کو مراعات اور ترغیبات دینا تھیں۔ معیشت سکڑائو کا شکار ہے ایسے میں حکومت کے مالی سپورٹ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ پھر آپ کو روزگار کے ذرائع پیدا کرنے ہوں اور متعلقہ انڈسٹری رواں رکھنی ہو تو اس نوعیت کی پالیسی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
جنگ: انڈسٹری پیکیج میں ایمنسٹی پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس میں جائداد کی خرید و فروخت اور سرمایہ کاری پر سرمائے کی بابت کوئی سوال نہیں ہوگا۔ یہ ایک نئی ایمنسٹی ہے جس سے ٹیکس دینے والے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ایف اے ٹی ایف کا ریڈار بھی کھلا ہوا ہے تو کیا کالادھن اس کے ذریعے وہائٹ کر دیا جائے گا۔
محسن شیخانی: میرے نزدیک یہ تاثر دُرست نہیں اگر آپ پیسہ وہائٹ کرنے کے لیے کہیں بھی استعمال کریں تب تو آپ ایمنسٹی کہیں یہ تو محض ایک سیکٹر کی بات ہو رہی ہے اور یہ ایک عام فرد کی ضرورت ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں خاندانوں میں کاغذات مکمل نہیں ہوتے۔ تین چار بھائی خاندانی مکان فروخت کرکے اپنا کرنا چاہیں تو دُشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اداروں سے پریشان نہ ہوں اور اپنا نیا گھر بنائیں ان کے لیے کیپٹل گین ٹیکس بھی ختم کیا گیا ہے جو کہ جائداد کی فروخت پر وصول کیا جا رہا تھا۔
جنگ: کہا جا رہا ہے کہ اس انڈسٹری میں کالا پیسہ وہائٹ کیا جائے گا اور یہ صرف بلڈرز اور سرمایہ کار کے لیے کیا گیا ہے۔
محسن شیخانی: اس حقیقت سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری نصف معیشت ان ڈکومیٹڈ ہے۔ اگر وہ معیشت کا حصہ بنے تو یہ ملک کے لیے بہتر ہوگا۔ گزشتہ ایمنسٹی اسکیم میں تقریباً سب ہی سفید ہو چکے ہیں اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ یہ صرف بلڈرز کے لیے ہے۔ ایک عام آدمی بھی گھر بنائے گا، دفتر، شاپنگ مال، دُکانیں تعمیر کرے گا اس کے لیے بھی یہ اسکیم ہے اور محض دسمبر تک ہی ہے۔ پلاٹ کی خرید پر بھی شرط ہوگی کہ ایک سال میں تعمیر کی جائے۔ اس کا مقصد محض تعمیراتی سرگرمیوں کا فروغ ہے۔
جنگ: ہائوسنگ سیکٹر خاص کر کم لاگت کے مکانوں کی تعمیر اور رکنگ کلاس کے اپنے گھر کے خواب کی تعبیر کے لیے بلند شرح سود بڑی رُکاوٹ ہے۔ ہائوس بلڈنگ لان بھی اب دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں یہ پیکیج کیسے کامیاب ہوگا۔ اس شرح سود پر تو لوگ اسے افروڈ نہیں کر سکتے؟
محسن شیخانی: آپ نے دُرست کہا کہ معیشت کے فروغ اور پھیلائو خاص کر ورکنگ کلاس کے لیے گھر کے لیے شرح سود کو بہت کم ہونا چاہیے۔ دُنیا بھر میں ہائوسنگ کے لیے اس میں کمی کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں شرح سود بہت بلند شرح پر ہے اور لوگوں کے لیے حوصلہ شکن ہے۔ اس پیکیج میں حکومت نے تیس ارب کی سبسڈی مقرر کی ہے جس سے کم شرح سود پر قرض مل سکیں گے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ حکومت، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور آئی ایم ایف کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔ ترقی پذیر معیشتوں کے لیے انڈسٹری کے فروغ کی بہت اہمیت ہے اور اس کے لیے کم شرح سود کی۔ حکومت اسے پانچ فی صد پر لائے اور ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی طرز پر مزید ادارے قائم کیے جائیں۔ بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ کم شرح سود پر گھروں کے لیے قرضے جاری کریں۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک سے آباد اس حوالے سے رابطے میں ہے کوشش ہے کہ اسے بھی پیکیج کا حصہ بنا لیا جائے۔
جنگ: تعمیراتی صنعت کے حکومتی پیکیج میں فکسڈ ٹیکس بھی مان لیا گیا ہے جو آپ کا دیرینہ مطالبہ تھا دیگر کاروباری اور تاجر برادری کے لیے نہیں مانا گیا۔ اس سے کیا فائدہ ہوگا انڈسٹری کو؟
محسن شیخانی: آپ کا کہنا دُرست ہے کنسٹرکشن انڈسٹری کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ اس انڈسٹری پر فکسڈ ٹیکس نافذ کیا جائے۔ اس کی بڑی وجہ اداروں کا خوف اور غیرضروری کاغذات کی پریشانیاں تھیں۔ ایک پیچیدہ طویل مرحلہ جس پر وقت بھی بہت ضائع ہوتا تھا اور حکومت کو مطلوبہ ٹیکس بھی نہیں ملتا تھا۔ ایک بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو رہا تھا۔ ہمارا کہنا یہ تھا کہ حکومت اس انڈسٹری سے جو بھی ہدف ہے وہ ہم سے فکسڈ صورت میں وصول کرے۔ اس سے اس کا مطلوبہ پیسہ بھی مل جائے گا، درمیان کی کرپشن بھی ختم ہو جائے گی اور بلڈرز بھی پریشانی سے محفوظ رہیں گے۔ ہم ٹیکس چوری نہیں ٹیکس دینا چاہتے ہیں مگرآسانی سے لیا جائے۔ ون ونڈو آپریشن ہو، پورا پیسہ لو اور کام کرنے دو۔ فکسڈ ٹیکس اچھی اسکیم ہے۔ دیگر کاروباری سیکٹرز میں بھی اسے رائج کیا جا سکتا ہے۔
جنگ: دیکھا یہ گیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی کسی بھی ہائوسنگ اسکیم کی کامیابی کی ضامن ہوتے ہیں لیکن اب کورونا وائرس کی وبا کے سبب وہ خود مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں اس سیکٹر میں سرمایہ کاری اور خریداری پر کیا فرق پڑے گا اور پاکستان میں ترسیلاتِ زر کی صورت کیسے بہتر بنائی جائے تا کہ روپے پر بھی دبائو نہ رہے؟
محسن شیخانی: ابھی تک تو ترسیلاتِ زر بہتر ہیں ان میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے لیکن اب کورونا کے سبب خدشہ ہے کہ ان میں کمی ہوگی۔ حکومت کو ترسیلاتِ زر کی آمد میں آسانی فراہم کرنا ہوگی۔ عام لوگ زیادہ آزاد ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔ بینکوں کا منافع بھی کم ہے اور دُشواریاں اور پیچیدگیاں بھی ہیں۔ ہر شخص آسانی، سہولت تلاش کرتا ہے اور زیادہ فائدہ بھی۔ اگر حکومت بینکوں کے ذریعے یہ مراعات فراہم کر دے تو حکومت ملک کے ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کا بھی فائدہ ہوگا۔ حکومت سہولت کار کا کردار ادا کرے۔ نجی شعبے کو کام کرنے دے ان کی نگرانی ضرور کرے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ وہ بلاخوف اپنا سرمایہ بینکوں کے ذریعے بھیجیں اورسرمایہ کاری کریں۔ ہائوسنگ سیکٹر میں ان کا انٹرسٹ زیادہ رہا ہے اس کو مزید محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
جنگ: اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کی خودمختاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پیکیج میں کیا تمام صوبوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور جہاں صوبوں کا دخل ہوگا وہاں کوئی مسئلہ تو درپیش نہیں ہوگا۔ سندھ حکومت کے ساتھ آپ کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے اس حوالے سے؟
محسن شیخانی: بالکل دُرست ہے کہ ہائوسنگ صوبائی میٹر ہے۔ زمین تو صوبوں کی ہوتی ہے۔ وفاق کی زمین ہے لیکن صوبائی اختیارات کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کے پی کے اور پنجاب میں تو تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں اس شعبے میں کام ہو بھی رہا ہے۔ سندھ حکومت کے ساتھ ہم رابطے میں ہیں ناصر حسین شاہ سے بات چیت چل رہی ہے۔ چیف سیکرٹری سندھ اور مراد علی شاہ بھی آن بورڈ ہیں ظاہر ہے کہ ہر صوبہ کی ضرورت ہے کہ گھر بنیں، ہائوسنگ کی اسکیمیں سامنے آئیں کچی آبادیاں ختم ہوں اور بہتر اور معیاری رہائشی منصوبے تیار کیے جائیں۔ اس حوالے سے بہت جلد مفید پالیسی سامنے آئے گی۔ حکومت اور نجی شعبہ مل کر کام کرے گا تو معیاری، سستی رہائش کا خواب پورا ہو سکے گا۔
جنگ: اب اس پیکیج کے آنے کے بعد کنسٹرکشن انڈسٹری کی صورتحال میں کیا تبدیلی آئے گی اور کتنی مدت میں؟ ابھی تو کوورونا کی وبا ہے نئے منصوبوں کی شروعات کیسے اور کب ہوں گی؟
محسن شیخانی: کام کا آغاز تو جاری منصوبوں سے ہوگا۔ جن کی کافی بکنگ بھی موجود ہیں لیکن ابھی کورونا کے سبب لوگوں کی جانوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اس حوالے سے کام شروع کرنے سے پہلے ہم حکومت کی جانب سے ایس او پیز کا انتظار کررہے ہیں جس کے تحت منصوبوں پر کام شروع کیا جا سکے۔ پرانے پروجیکٹس کے ساتھ نیا کام بھ شروع ہوگا اور اگر پانچ سو منصوبے ہیں تو یہ بہت جلد پندرہ سو ہو جائیں گے۔ اگر حکومت شرح سود میں کمی لائے خاص کر ہائوسنگ سیکٹر کے لیے، ڈالر کو کنٹرول میں رکھے اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کرے تو میں سمجھتاہوں کہ کاروبار اور صنعت کی صورت حال بہتر ہوگی اور روزگار کے ساتھ حکومتی وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔
حکومت اس کورونا صورت حال میں مقامی انڈسٹری پر انحصار کرے ان کی سہولت کار بنے۔ ابھی درآمد اور برآمد کا کچھ نہیں پتہ۔ تو لوکل انڈسٹری کو ہی پروان چڑھانا بہترین حکمتِ عملی ہوگی۔ امپورٹ کے متبادل انڈسٹری لگانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ تعمیراتی صنعت ایسی انڈسٹری ہے جو مکمل طور پر مقامی اشیاء سے کام کر سکتی ہے۔ یہ بھی وجہ ہے اس شعبے کو ریلیف دیا گیا ہے۔
جنگ: ضیغم رضوی آپ پہلے پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے بارے میں مختصراً بتا دیں یہ منصوبہ کیا ہے کس مرحلے میں ہے اور اس وقت کورونا وائرس وبا کے دور میں کنسٹرکشن انڈسٹری پیکیج کے کیا مقاصد ہیں؟
ضیغم رضوی: ہائوسنگ اور رئیل اسٹیٹ کو کسی بھی معیشت کا مین ڈرائیور کہا جاتا ہے۔ اکانومی کو یہ ہی صنعت جنریٹ کرتی ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے کہ اس انڈسٹری کے چلنے سے اس سے وابستہ انڈسٹریوں کی تعداد پاکستان میں بیالیس بتائی جاتی ہے لیکن سائوتھ ایشیا اور ترقّی یافتہ ملکوں میں یہ تعداد 272 مانی جاتی ہے وہاں گھروں میں لگائے جانے والے پردوں کو بھی اس سے وابستہ تصور کیا جاتا ہے اور خود پردوں سے بھی کئی انڈسٹریاں وابستہ ہیں۔ میرا ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور ورلڈ بینک کی خدمات کا تجریہ تھا جس کے تحت عمران خان نے مجھے ہائوسنگ پالیسی بنانے کی ہدایت کی۔
انہیں خود بھی ہائوسنگ سیکٹر کی اہمیت کا اندازہ ہے جس کے سبب انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کی پالیسی کا اعلان میں خود کروں گا۔ ہائوسنگ پالیسی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ حکومت صرف سہولت کاری کردار ادا کرے گی۔ نجی شعبہ اس کو لے کر آگے چلے گا۔ پالیسی کے بعد ہائوسنگ ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا میں چیئرمین ہوں اور دو اراکین نجی شعبے سے ہیں۔ بنیادی طور پر ہائوسنگ صوبائی معاملہ ہے۔ اس لیے میں نے تمام صوبوں کا دورہ کیا۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے وہاں سے کام کا آغاز کیا گیا اور وہاں ہائوسنگ اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں آیا۔ وہاں رہائشی منصوبوں کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔
جنگ: آپ نے کہا کہ ہائوسنگ صوبائی معاملہ ہے تو تین صوبوں میں تو تحریک انصاف یا اتحادیوں کی حکومتیں ہیں لیکن سندھ میں اپوزیشن پارٹی کی تو کیا سندھ کو اس پر اعتماد میں لیا گیا؟
ضیغم رضوی: سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے ملاقات رہی ہے۔ میں نے انہیں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا بنیادی نعرہ روٹی، کپڑا، مکان بھی یاد دلایا تھا۔ ساتھ ہی کہا کہ ایشیا میں یہ اعزاز صرف بھٹو کو حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ ہائوسنگ کا منشور دیا اور نعرہ بلند کیا۔ یہ بدنصیبی ہے کہ منشور آگے نہیں بڑھا۔ بنیادی طور پر یہ معیشت کی ترقّی کا نعرہ تھا۔ میں نے وزیراعلیٰ سندھ کو تجویز کیا ہے کہ آپ ہائوسنگ منصوبوں کو کوئی بھی نام دے لیں عوامی، نیا پاکستان، پیپلز یا کوئی اور لیکن منصوبوں کا آغاز کریں۔ سندھ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں معیاری اور سستے گھروں کی ضرورت ہے۔ ان منصوبوں سے ہم کچی آبادیوں کو معیاری ہائوسنگ یونٹ میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آباد کے پلیٹ فارم سے بھی مذاکرات جاری ہیں توقع ہے کہ جلد مفید پیش رفت سامنے آئے گی۔
جنگ: عمران خان نے اپنے انتخابی منشور میں پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا۔ اس پر کئی سوال اُٹھتے ہیں؟ کیا یہ محض ایک نعرہ ہے یا اس پر عمل درآمد ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ یہ نیا پیکیج کتنا معاون ہوگا؟
ضیغم رضوی: آپ دُرست کہہ رہے ہیں عمران خان کے پچاس لاکھ گھر کے وعدے کو لے کر کافی تنقید کی جاتی ہے لیکن میرا کہنا ہے کہ یہ قابل عمل منصوبہ ہے۔ اس برس دس لاکھ کا ہدف ہے جو کہ کوئی بڑا عدد نہیں ہے۔ اس طرح پانچ برسوں میں پچاس لاکھ گھر بنائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی دو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ہر سال ساڑھے سات لاکھ کے لگ بھگ نئے مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور گیارہ لاکھ مکانوں کی قلت کا سامنا پہلے ہی سے ہے۔ تو اگر ان پر فوکس کیا جائے تو یہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ ہائوسنگ پروگرام میں دیہی شہری دونوں علاقے شامل ہیں۔ شہری علاقوں میں چالیس فی صد شہروں میں کچی آبادیوں کی متبادل منصوبوں کے لیے بیس فی صد اور دیہی علاقوں کے لیے چالیس فی صد منصوبے رکھے گئے ہیں۔ ان تین ایریاز میں کام کیا گیا تو یہ ہدف پورا ہو سکتا ہے۔ ان منصوبوں پر آباد سے رابطے میں ہیں کیوں کہ ان منصوبوں کو نجی شعبہ ہی پروان چڑھائے گا۔
جنگ: معیاری گھر کے ساتھ سستے گھر کے لیے کیا حکمت عملی ہے؟ صوبوں میں وفاق کی زمینیں بھی ہیں ان کا کیا ہوگا؟
ضیغم رضوی: ہم بنیادی طور پر سپلائی سائڈ پر کام کر رہے ہیں۔ پالیسی کے مطابق سہولت کار کا کردار ادا کریں گے۔ کم لاگت کے لیے روایتی تعمیر کو ترک کرنا ہوگا لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب بڑے پیمانے پر گھر تیار کیے جائیں۔ ٹیکنالوجی اور میٹریل اب ایسا ہے کہ کم لاگت کے مکانات تیار کیے جا سکتے ہیں لیکن بڑے منصوبوں میں ہی یہ ممکن ہے۔ اس پیکیج کے تحت ایسے رہائشی منصوبے تیار کیے جائیں گے۔ کراچی میں حسن اسکوائر اور گلشن معمار کی مثالیں موجود ہیں۔ ایسے بڑے منصوبوں کی آج زیادہ ضرورت ہے۔ سپلائی سائیڈ پر ہمارا بڑا مسئلہ زمین کی دستیابی ہے جس پر وفاق، صوبوں اور وفاقی اداروں کا تعاون درکار ہے۔
یہ منصوبے حکومتوں اور نجی شعبے کے اشتراک سے ہی ممکن بنائے جا سکیں گے۔ نجی شعبے کی زمین پر تو کام آسان ہے لیکن حکومتی زمینوں کے حصول میں دُشواریاں حائل ہیں۔ حکومت کو کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ مثال کے طور پر ریلوے کی زمینوں پر نجی شعبے کے تعاون سے بڑے ہائوسنگ منصوبے تیار کیے جا سکتے ہیں جو بے شک صرف اور صرف ریلوے ورکرز کے لیے ہی مختص کیے جائیں۔ ریلوے ٹریک کے ساتھ زمینوں پر قبضے ہیں۔ کچی آبادیاں قائم ہیں جنہیں ان منصوبے کی ذریعے معیاری شکل دی جا سکتی ہے۔ حکومت ہائوسنگ سوسائٹی کے لیے قانون سازی کرے اور بڑے ڈیولپرز کے ساتھ اشتراک سے کام کرے۔ بھارت میں اس شعبے میں بہترین کام ہو رہا ہے۔ کچی آبادیوں کو ماڈل سٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح دیہی بستیوں کو بھی ولیج ہائوسنگ کے رُوپ میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں بھی دو تین مرلہ پر اس قسم کی اسکیموں پر کام کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں گرومندر کے اطراف، جہانگیر اور مارٹن کوارٹرز 332ایکڑ زمین ہے۔
اس پر خُوبصورت ماڈل شہری ہائوسنگ اسکیم تیار کی جا سکتی ہے۔ دس پندرہ ایکڑ پر کمرشل ایریا نکالا جائے تو پورا منصوبہ تیار ہو جائے گا اور پیسے کی بچت بھی ہوگی۔ لوگوں کو معیاری رہائش بھی میسر آئے گی۔ اس میں ہائی رائز پر مشتمل آبادیاں قائم ہوں گی۔ اسکول، کالج، کھیل کے میدان، اسپتال، پارکس سب میسر ہوں گے۔ اسی طرح بلوچ پاڑہ، پٹیل پاڑہ، جیکب لائنز کے منصوبے تیار کیے جا سکتے ہیں۔ کم لاگت کی معیاری رہائش۔ حکومتوں کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ نجی شعبہ تیار ہے۔ سرمایہ تو پروجیکٹ خود فراہم کرے گا۔ حکومت کو بچت بھی ہوگی جو شہر کے دیگر رہائشی منصوبوں میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ان آبادیوں کے تیس فی صد لوگ بھی تیار ہوں تو منصوبے کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب ہائوسنگ اتھارٹی کے تحت مختلف شہروں میں زمین تلاش کر لی گئی ہیں۔ تین شہروں میں کام کا آغاز ہو چکا ہے لیکن بڑی رُکاوٹ نیب اور ایف آئی اے کا خوف ہے جس کے سبب نجی شعبہ اور سرکاری اہل کار بھی خوف کے سبب آگے بڑھ کر کام نہیں کر پا رہے ہیں۔ حکومت رولز میں ترمیم پر کام کر رہی ہے جس کے بعد صورت حال بہتر ہو جائے گی۔
جنگ: گھروں ک تعمیر کے لیے ہائوسنگ لان کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک زمانے میں ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے بآسانی قرض مل جایا کرتا تھا اور لوگ بنابنایا خرید لیا کرتے تھے اب ایسا ممکن نہیں۔ پرائیویٹ بینکس بھی ہائوسنگ پر قرض آسانی سے نہیں دیتے۔ یہ پیکیج تو مخصوص صارف کے لیے ہے عام آدمی کیا کرے کہاں جائے؟
ضیغم رضوی: پاکستان میں بینکوں کو گھروں کے لیے قرضوں کی طرف آنا ہوگا۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی ہدایت بھی ہے لیکن عملاً کام نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں ایچ بی ایف سی 2008ء تک روزانہ تیس قرضے جاری کرتا تھا آج صرف چار پانچ کررہا ہے۔ بھارت میں ہائوسنگ لان کا سرکاری ادارہ ایک ہزار قرضے روزانہ جاری کرتا ہے اس کے علاوہ نوّے نجی شعبے کے ادارے ہیں، پاکستان میں اس وقت عملاً کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا۔ بھارت میں رہائشی قرضوں کی شرح جی ڈی پی کے 11 فی صد ہے۔
ملائیشیا میں 28، بنگلہ دیش میں 5 جبکہ پاکستان میں یہ شرح 0.3 فی صد ہے۔ اسٹیٹ بینک نے پابند کیا ہے کہ یہ شرح 6 فیصد پر لائی جائے لیکن عمل نہیں کیا جا رہا۔ اس حوالے سے پالیسی پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ شرح سود میں کمی کے ساتھ تمام بینکس ترجیحی بنیادوں پر رہائشی قرضے آسان شرائط پر جاری کریں اور ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کو بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
جنگ: ہائوسنگ سیکٹر میں حکومت کا کیا ہدف ہے۔ ایک برس میں کتنے گھر یا منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچیں گے۔
ضیغم رضوی: نیا پاکستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی پوری تندہی سے کام کررہی ہے۔ پالیسی کے اعلان میں تاخیر ہو رہی تھی لیکن کورونا کا ایسا اثرہوا کہ تمام رُکاوٹیں دُور ہوگئیں، لوگ نیب سے خوف زدہ تھے، نئے قانون کی ضرورت تھی جو اَب ہوگیا ہے۔ تمام قانونی معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔ فکسڈ ٹیکس جاری منصوبوں پر بھی اَپلائی ہوگا اور فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔ تعمیراتی صنعت سے وابستہ انڈسٹریوں کو بھی ٹیکسوں میں چھوٹ ملے گی۔ اگر دو ہزار فی اسکوائر فٹ لاگت ہو تو چار سو تو ٹیکس میں چلے جاتے ہیں جو کم لاگت کے منصوبوں کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔
تاخیر اسی میں ہے کہ قوانین ایک مرتبہ بن جائیں۔ کم از کم ایک سال کے لیے نافذ ہوں۔ آن لائن پروسیس اور منظوری کا نظام ہو۔ 45 دن میں پروجیکٹس کی منظوری ہو جانی چاہیے جیسا کہ بھارت میں ہے۔ ممبئی ماڈل کو ہم بھی اپنا سکتے ہیں۔ ای پروسیس کا دور ہے۔ کرپشن اور تاخیر دونوں سے نجات مل جائے گی۔ اس برس دس لاکھ مکانوں کا ہدف ہے۔ پنجاب سے آغاز کر دیا ہے۔ لارج اسکیل ڈیولپمنٹ اور ہائی رائز کے منصوبے بنیں گے۔ ہائی رائز پر پنجاب میں تو پابندی ختم ہو گئی ہے سندھ میں ابھی ہے ختم ہو تو پروجیکٹس تیار ہیں۔
جنگ: محسن کم لاگت کے منصوبوں سے کیا مراد ہے۔ ان کا علاقہ، کورڈ ایریا، لاگت، سہولتیں کیا ہوں گی؟
محسن شیخانی: کم لاگت سے مراد ایک ایسا گھر جو ہر آدمی خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہو، خواہ وہ نیا گھر لے رہا ہو خواہ وہ کچی آبادی میں رہتا ہو۔ خواہ وہ بے گھر ہو ایک عام مزدور، دیہاڑی دار بھی افورڈ کر کے۔ اس کی لاگت زیادہ سے زیادہ تیس لاکھ ہوگی۔ چھ لاکھ ایڈوانس، 24 لاکھ کی فنانسنگ جو چھ فی صد شرح سود پر ادا کرنا ہوگا۔ ماہانہ قسط بارہ سے پندرہ ہزار روپے تک ہوگی۔ سات سو اسوائر فٹ پر گھر ہوگا۔ دو کمرے لائونج کے ساتھ، ایریا نادرن بائی پاس، ہاکس بے، نیشنل یا سپرہائی وے ہو سکتے ہیں۔ کراچی اسلام آباد اور حیدرآباد کے لیے ہمارے منصوبے تیار ہیں۔ بس حکومت کی سہولتیں اورقانون کا انتظار ہے۔
بڑی اسکیموں کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ لو کاسٹ ٹیکنالوجی اور میٹریل استعمال کیا جا سکے گا۔ اس پر این ای ڈی یونی ورسٹی اور نسٹ سے رابطہ میں ہیں۔ بس سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، ایف آئی اے، نیب کی رُکاوٹیں دُور کی جائیں۔ ایک وقت میں تین چار حکومتیں کام کر رہی ہوں تو کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا۔ حکومت بھی کام نہیں کر پاتی۔ نجی شعبہ بھی گھبراتا ہے اور دونوں اشتراک سے بھی منصوبہ تیار نہیں کر پاتے۔ فنانسنگ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انٹرنیشنل ادارے بھی کام کرنا چاہتے ہیں بس رُکاوٹیں ختم کی جائیں۔
جنگ: حکومت نے کنسٹرکشن انڈسٹری کو صنعت کا درجہ دے دیا ہے اس حوالے سے آپ پر کیا ذمہ داریاں بڑھیں گی؟
محسن شیخانی: صنعت کا درجہ دینے سے کارپوریٹ سیکٹر ترقّی کرے گا۔ فنانسنگ آئے گی، رینکنگ آئے گی، ٹرن اوور ہوگا، کنسٹرکشن لان ہوں گے، کنسٹرکشن بینک قائم ہوں گے، دُنیا بھر میں کنسٹرکشن بینکس ہوتے ہیں لیکن یہاں کوئی تصوّر نہیں، کنسٹرکشن سے وابستہ لیبر، ورکرز کی رجسٹریشن ہوگی۔ انہیں صنعتی مراعات، سہولتیں، جاب سیکورٹی، انشورنس سب مہیا کی جائیں گی۔
ضیغم رضوی: فنانسنگ کے حوالے سے میرا کہنا ہے کہ عام آدمی کے پاس سرمائے یا مالی کاغذات نہیں ہوتے۔ دُنیا بھر میں انفارمل انکم اسسٹ کیا جاتا ہے۔ زمین اور گھر کو بنیاد بنا کر لان جاری کئے جاتے ہیں۔ زمین اور گھر کے کاغذ دُرست ہیں تو مالیات کے کاغذ کی ضرورت نہیں۔ اسٹیٹ بینک ایسی پالیسی بنائے تو عام آدمی گھر بنا سکے گا۔
محسن شیخانی: بدقسمتی سے ہماری پہنچ اور رسائی پارلیمان تک نہیں ہے۔ ہم اسمبلیوں میں نہیں ہوتے نہ ہماری نمائندگی اس لیے انڈسٹری کا درجہ لینے میں ستّر برس لگے۔ لوگ تعمیراتی صنعت کو مدر انڈسٹری تسلیم نہیں کرتے۔ سب سے زیادہ جاب یہ سیکٹر فراہم کرتا ہے لیکن کوئی اس کی اہمیت تسلیم نہیں کرتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مقامی انڈسٹری کے فروغ کے لیے مقامی پالیسی تیار کی جائے۔