پاکستان ایک عظیم ملک ہے، جس کی بنیادوں میں ہزاروں پاکیزہ روحوں کا خون شامل ہے، بے پناہ قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ حسین ملک دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال ہے۔ ہر قسم کا موسم، غذا، پھل، سبزی، پہاڑ، دریا، صحرا، گائوں، قصبے، شہر نعمت خداوندی ہیں مگر اس کے باوجود ہم ایک متحد اور منظم قوم نجانے کیوں نہ بن سکے۔ ہم نے کوئی قابل فخر معاشرتی،سیاسی اور سماجی درخشندہ روایات بھی قائم نہیں کیں۔ مشکل کی گھڑی میں قوم یکجا ہوتی ہے لیکن وہ بھی بکھری بکھری، ہر ادارہ، ہر پارٹی اپنا اپنا منشور اور علم بلند کرتی اور خود تک محدود رہتی ہے۔دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ تباہی،آفت، مشکل اور وبا کے دوران متحد و متفق ہو کر ملک و قوم کو بچانا ہے۔گزشتہ دو صدیوں میں مختلف وبائوں اور جنگوں کے بعد انسانوں نے کافی حد تک انسانیت کا درس سیکھ لیا اور فیصلہ کیا کہ مشکلات میں متفق اور متحد کوششیں ہی بار آور ہوں گی۔
بدقسمتی سے پاکستان جو قدرت کی تمام نعمتوں سے مالا مال ہے اس کے ساتھ ہی اس کا شمار دنیا کے ٹاپ 10آفت آشنا ملکوں میں ہوتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں بھی سرفہرست ہے۔ غربت، بے روزگاری، بدانتظامی، نااہلی، تعلیم و صحت کی ناکافی سہولتیں ہمارا مقدر ہیں۔ ان مسائل کے علاوہ ہم قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی اپنا نقطہ نظر، اپنا فلسفہ اور قائدین کے خیالات کی تفسیر بھول گئے۔ جمہوریت کے نام پر میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا۔ پھر سیاسی رہنمائوں کو غدار، بے ایمان اور ابن الوقت یا موقع پرست قرار دینے کی مہم شروع کی گئی جو 1956ء سے آج تک جاری ہے۔ ہمارے عوام سادہ لوح ہیں، باتیں بھول جاتے ہیں اور پھر بار بار اسی جال کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک میں نہ تو سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں اور نہ ہی پارلیمانی روایات ہماری زندگی کا حصہ بن سکیں،نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
قائداعظم کے ساتھی اور جانثار اپنی بیماری اور مشکلات میں قرضے اور چندہ تک حاصل کرتے رہے مگر ہم نے انہیں ولن و لٹیرے کے طور پر پیش کیا۔ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیںان کے ذاتی گھر کاروبار اور اہل خانہ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔ سابق صدر جنرل ایوب خان نے اپنے ہی محسن اسکندر مرزا کو جلاوطن کیا اور انہیں کوئے یار میں دفن کے لئے دو گز زمین بھی نہ ملی۔ پھر ایوب خان مکافات عمل کا نشانہ بنے، بھٹو صاحب جو انہیں ڈیڈی کہتے تھے انہی کے خلاف صف آرا ہو گئے اور گلی گلی میں انہیں نازیبا الفاظ سے پکارا۔بھٹو صاحب بالآخر اپنے ہی انتخاب جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں تختہ دار پر جھول گئے۔پھر ان کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ دی گئی اور چند افرادنے یہ مذہبی فریضہ انجام دیا۔ضیاالحق فضائی حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ جنرل صاحب کا جسد خاکی جھلس گیا اور محض باقیات دفن کی گئیں۔مشرف اب تک جلا وطن ہیں اور شدید بیماری میں مبتلا ہیں۔ میاں نوازشریف 99میں جلاوطن ہوئے قید کے دوران ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز وفات پا گئیں اب وہ خود لندن میں شدید بیمار ہیں لیکن مریم نواز ان کی تیمار داری کرنے نہ جا سکیں۔ یہ مختصر درد ناک داستان ہے کہ ہر آنے والا جانے والے پر تمام الزام دھرتا اور کردارکشی کرتا ہے۔ اس سے غیر انسانی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری غلط روایت ہے جس میں ہم اپنے پیش رو سے اس قسم کا رویہ اپناتے ہیں۔ ان کے انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کرتے اور خود بھی بالآخر اس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔اس غیر انسانی روایت کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ تازہ ترین مثال میر جاویدرحمٰن کی ہے جو جنگ کے پبلشر اور چیئرمین تھے وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا رہے، کئی ماہ علاج ہوتا رہا، کیموتھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزرے۔ اسی دوران ان کے چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمٰن کو 35سال پرانے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ نیب کی حراست میں ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بھائی کے ساتھ آخری لمحات بھی نہ گزارسکے اور بالآخر میر جاوید نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا قانون یا مشق ضرور ہونی چاہیے کہ سنگین بیمار افراد کے بہن بھائی والدین،بچوں کو مریض تک رسائی کا حق حاصل ہو۔