ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی خود ساختہ جلا وطنی کے خاتمے اور وطن لوٹنے پر ایئرپورٹ پر رونما ہونے والے ڈرامائی مناظر نے ہر محب وطن پاکستانی کو افسردہ کر دیا۔ خصوصاً جب انہوں نے بڑے دکھی لہجے میں آج کے حکمرانوں سے بالخصوص اور عوام سے بالعموم پانچ سال پہلے والے پاکستان کا پتہ پوچھا تو میں نے بھی اپنے دل پر کئی سوالات کی دستک سنی۔ وہ تمام سوال جن کی عبارت ہر باشعور اور درد مند پاکستانی کی آنکھوں میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ میں نے اپنی نسل کے لوگوں کی طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بہت سے ادوار سے آگاہی مختلف نقطہٴ نظر کے حامل دانشوروں کی تحریر کردہ فلسفہ و سیاسیات کی کتب پڑھ کر حاصل کی مگر پرویز مشرف کے دور کو لمحہ بہ لمحہ اس طرح جھیلا ہے کہ اس دور کے ہر روشن دن کے ماتھے پر لکھا ہوا سیاہ فیصلہ مجھے زبانی یاد ہے۔ میں پرویز مشرف سے سو فیصد متفق ہوں اور میرا بھی یہی سوال کہ میرا وہ خطہ ٴ زمیں کہاں گیا جو دنیا میں باعث فخر نہیں تو باعث شرمندگی بھی نہیں تھا؟ مجھے بھی میرا وہ پرانا پاکستان چاہئے جہاں ترقی کی ریل پیل آج کے مقابلے میں بہت کم تھی مگر زندگی زیادہ سہل اور آسودہ تھی، جہاں حالات و واقعات بھلے آئیڈیل نہیں تھے مگر پھر بھی اسے پُرامن لوگوں کا مسکن کہا جاتا تھا۔ جہاں کی فضائیں ہر وقت محبت اور اخوت کے گیت نہیں گنگناتی تھیں مگر جنون کی آندھی اور وحشت کے طوفان سے بھی ان کی آشنائی نہیں تھی۔ پرویز مشرف صاحب حساب 1999ء سے شروع کر کے بتائیے مجھے کہاں گیا میرا وہ پاکستان جس میں ایک منتخب حکومت معمول کے مطابق کارِ مملکت انجام دے رہی تھی اور طاقت کے توازن کا جھکاؤ اس قدر عوام کی جانب تھا کہ عوام کی خواہشات اور امنگوں نے وقت کے وزیر اعظم کو عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرنے کی جرأت بخشی، جب بحیثیت قوم پاکستانی دنیا میں ایک خاص شناخت، تہذیب اور ثقافت کے علمبردار مانے جاتے تھے، جب ترقی کی موٹر وے کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی، سفر آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ ایک فرد جس کی پروفائل میں اپنی زمین کی حفاظت کا عہد درج تھا، نادیدہ قوتوں کا پیامبر بن کر آیا اور سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ دوسروں کی غلطیوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے اپنوں کی ایسی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی کہ اقوامِ عالم میں سبز پاسپورٹ کا حامل ہر فرد مشکوک اور انسانیت دشمن قرار پایا۔ دیارِ غیر سے آنے والے ہر حکم پر سب سے پہلے پاکستان اور پاکستانیوں کو قربانی کے لئے پیش کرنے کی روایت عام ہوئی۔ سستے داموں قوم کی عزتِ نفس کا سودا کرنے کے بعد شب و روز پاکستان کا مقدر بدلنے کے لئے وقف ہوئے تو نتائج کی صورت میں فرد کو مضبوط اور مختارِ کل بنانے کے لئے اداروں کو کمزور اور ناتواں بنانے کا عمل شروع کیا گیا اور سب سے پہلے غیر آئینی حکومت کے قیام کے لئے ملک کے سب سے بڑے ادارے یعنی پارلیمینٹ کو بلاجواز توڑ دیا گیا جو اٹھارہ لاکھ لوگوں کی نمائندگی کا علمبردار تھا۔ فوج کے ڈسپلن میں خلل ڈال کر فوج کے مورال اور وقار کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا کہ تمام دفاعی ادارے ایک سوالیہ نشان بن گئے۔ آئین اور ضابطے کی علمبردار عدالتیں توڑ کر فرد کی مرضی مسلط کرنے کی راہ اپنائی گئی۔ عدل و انصاف کے پیامبر ججوں کو گرفتار کر کے قانون کے مقابلے میں طاقت کی سربلندی پر مہر ثبت کی گئی۔ ایک فرد کے الفاظ جب قانون کا درجہ اختیار کر گئے تو لاقانونیت نے شب و روز وحشت اور جنون کی تاریخ رقم کرنی شروع کر دی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث پاکستان میں تبدیلی اور شعور کا باعث بننے والے میڈیا پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو توڑنے اور تقسیم کرنے کا فریضہ سر انجام دیا گیا۔ غرض وہ تمام ادارے شکستہ کئے گئے جو جدید اور مہذب ریاست کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں، اداروں اور تنظیموں کی اس توڑ پھوڑ کے اثرات سے پوری زمین ایسی زہر آلود ہوئی کہ خوشبو دار پھولوں کے بیجوں نے آکاس بیل کا روپ دھار کر قوم کے پیڑ کو خزاں رسیدہ کر دیا۔ سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کی آڑ میں پاکستان کے اجزائے ترکیبی کا قلع قمع یوں کیا گیا کہ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی مقبول سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو یا قتل کروا دیا یا ملک سے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا جس کے باعث علاقائی سیاسی تنظیمیں متحرک ہو گئیں اور اس حرکت میں برکت ڈالنے کیلئے انہوں نے فرقہ واریت، لسانیت اور برادری ازم کی ایسی کانٹے دار فصل بوئی جس کی جڑیں اب ہماری زمین میں ایسے سرایت کر چکی ہیں کہ اب انہیں جدا کرنا بہت مشکل ہے۔ پتہ نہیں ہماری کتنی نسلیں اس فصل کی کٹائی میں صرف ہوں گی۔
اس لئے آج پانچ سال پہلے والا پاکستان کہاں گیا؟ کے سوال کا کوئی جواز نہیں بنتا کیوں کہ گزشتہ پانچ سالوں کا زیادہ وقت تو آمریت کی بوئی ہوئی نفرت کی فصلوں کی بیخ کنی اور ان کا مقابلہ کرنے میں صرف ہو گیا پھر اس حکومت میں بھی کچھ کالی بھیڑوں کی موجودگی سوالیہ نشان بنی رہی جو ہر حال میں ملکی ترقی کے بجائے لوٹ کھسوٹ کے پروگرام پر عمل پیرا رہیں اور ان کے باعث قومی مفادات پر ذاتی خوشحالی کو ترجیح دینے کا سلسلہ جاری رہا۔ بہرحال حیرت اس بات کی ہے کہ اتنی مہربانیوں کے بعد بھی پرویز مشرف اپنی قیمتی جان خطرے میں ڈال کر پاکستان کو بچانے آ گئے ہیں حالانکہ فی الحال انہیں اپنی قیمتی جان کے دفاع کے لئے بلٹ پروف گاڑی سمیت بہت سی سہولتیں درکار ہیں۔ جیسی سہولتیں فہمیدہ مرزا اور سندھ اسمبلی نے آخری ایام میں منظور کر کے نہ صرف جمہوریت کے خلاف بولنے والوں کو موقع فراہم کیا بلکہ ہر پاکستانی کو حیران کر دیا کیوں کہ پریشان تو وہ پہلے ہی ہے۔ تاعمر سہولتوں کے خواہشمند کروڑوں کے قرضے معاف کرانے والے ان لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ ایسے عمل ان کے حق میں دعا نہیں بلکہ بددعا کا روپ بھی دھار سکتے ہیں کیوں کہ ان کی زندگی قرضوں کے انبار تلے دبے ملک کی کمزور معاشی حالت پر ایک بوجھ تصور کی جائے گی۔ انہیں تو فی سبیل اللہ خدمت کا جذبہ لے کر اسمبلیوں میں آنا چاہئے۔ سلیم صافی کے کالم کے بعد توقع تھی کہ شاید اس حوالے سے کہیں کوئی نوٹس لے لیا جائے اور معاملہ رُک جائے مگر اپوزیشن سمیت فیصلہ کرنے اور بدلوانے والے سب مصروف ہیں، سب کو سہولتیں اور حفاظت درکار ہے۔ عوام کا کیا ہے وہ اس ملک کی خاطر ہر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار ہیں لیکن اس دفعہ وہ احتساب بھی کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس دفعہ یوم انتخاب یوم احتساب ہو گا۔