• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت مولانا طارق جمیل (جو جنت کی رعنائیوں اور دوزخ کی حشر سامانیوں کے بیان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے) نے احساس پروگرام کا ٹیلی میلا لوٹ لیا جو دراصل وزیراعظم عمران خان کی دیانتداری کی دھاک بٹھانے کے لئے سجایا گیا تھا۔

 ٹیلی تھون کی اس خود ستائشی دوڑ میں ہمارے سب ہی چوٹی کے اینکر اِس زعم میں شامل تھے جیسے یہ محفل اُنہی کی امامت میں سجائی گئی تھی، لیکن اسٹیج پر دو معصوم بچیوں کو بطور اینکرز دیکھ کر وہ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔

 پھر وزیراعظم تشریف لائے اور اُنکے ہمراہ اُنکے روایتی اسٹیج سیکریٹری۔ وزیراعظم بڑے ریلیکسڈ موڈ میں تھے ،اُنہوں نے لاک ڈائون کرنے کیخلاف اپنے دلائل دہرائے اور سندھ کے وزیراعلیٰ کے قدرے سخت لاک ڈائون کو خوفزدگی کا ردِعمل قرار دیا۔ 

وزیراعظم نے کروناوائرس سے نبردآزما ہونے کی اپنی لاچارگی کا اعتراف کرتے ہوئے لاک ڈائون کو وبا کے مراکز تک محدود اسمارٹ لاک ڈائون کی وکالت کی، جس میں آئی ایس آئی کا نگرانی کا نظام مریضوں کی نشاندہی میں مددگار ہوگا۔ لیکن جانے کیسے بغیر بڑے پیمانے کی ٹیسٹنگ کے شہریوں کی نگرانی کا یہ پُراسرار نظام وبا کے مریضوں کی نشاندہی کرے گا؟ قومی اتحاد پر زور دینے کے باوجود وزیراعظم نے شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی تجویز کو حقارت سے ردّ کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ ریزنگ میں اُن کی شمولیت سے عطیات نیچے گر جائینگے۔

 یہ علیحدہ بات ہے کہ ٹیلی تھون میں عمران خان کے لئے ان کے منتخبہ دوستوں اور مداحوں کے توصیفی بیانات عطیات سے زیادہ تھے اور صرف 55کروڑ 75لاکھ روپے جمع کیے جا سکے۔ ٹیلی تھون کا کلائمکس یا اینٹی کلائمکس تب ہوا جب ہمارے محترم مولانا طارق جمیل جلوہ افروز ہوئے۔ 

اپنے معذرت خواہانہ خطاب میں آپ نے فرمایا کہ کروناوائرس عذابِ الٰہی ہے اور اس سے لڑا نہیں جا سکتا اور لوگ رب العزت سے اپنے گناہوں کی گڑگڑا کر معافی کے طلبگار ہوں اور مرنے والے شہادت کا درجہ پائیں۔ کوئی بھلا پوچھے کہ دوا بنا موذی امراض کا علاج کیونکر ہو سکتا ہے اور گناہوں کی سزا پانے والے گنہگار مقامِ شہادت کیوں پانے لگے؟ پھر اپنی رقعت آمیز دُعا میں مولانا نے نہایت تاسف سے ارشاد فرمایا کہ عمران خان کو اُجڑا چمن ملا ہے اور وہ تنہا ایماندار شخص اسے کہاں تک آباد کر پائے گا۔

 افسردگی اور لاچارگی کے ماحول میں یہ احساس ٹھیلی تھون تمام ہوئی۔ اور ہمارے اینکر صاحبان مولانا کے میڈیا پر کذب بیانی کا بوجھ لئے سدھارے۔ اگلے روز ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نے رہی سہی کسر یہ کہہ کر پوری کر دی کہ میڈیا کو پیسہ لگا کر کرپشن کے دفاع کیلئے ڈھال بنایا گیا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ  سیاستدانوں کی بدنامی اور خود ان کی پذیرائی میڈیا ہی کی مرہونِ منت ہے۔

صرف مولانا طارق جمیل ہی نہیں، تقریباً تمام ادیان اور عقائد کے پیشوائوں نے کروناوائرس کے بارےمیں اپنی لاعلمی کے باعث طرح طرح کی بے پرکیوں پہ اصرار کیا اور اپنے معتقدین کو خطرے سے دوچار کیا۔ اس کے باوجود کہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں باجماعت نماز پر بندشیں عائد ہیں، ہمارے علما اور صدرِ مملکت کے مابین ایک 20نکاتی فارمولے پر ’’اجماعِ اُمت‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے جس پر ماسوا چند بڑی مسجدوں کے کہیں عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ 

پاکستان کا صرف اسلام ہی نرالا نہیں بلکہ اس میں دینی تجربات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ کوئی پوچھے صحت کے معاملات پر ڈاکٹروں کی رائے مانی جائے یا مولویوں کی؟ پاکستان کے ڈاکٹروں کی تمام تنظیمیں تمام صوبوں میں پریشان ہو کر میدان میں اُترنے پر مجبور ہوئیں اور اُنہوں نے لاک ڈائون نرم کرنے اور ہر طرح کے اجتماع کے خلاف سخت وارننگ دی ہے۔

 اُنہوں نے مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ اگر ڈھیل دی گئی تو کرونا کی وبا لاکھوں کو لپیٹ میں لے لے گی اور اُن کیلئے مریضوں کو سنبھالنا ناممکن ہو جائیگا۔

 ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے لاک ڈائون نرم کرنے کے اقدام پر ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ اگر سخت اور ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو جولائی تک پاکستان میں وائرس کے شکار لوگوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ وزیراعظم کے لاک ڈائون ڈھیلا کرنے کے اگلے ہی روز وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں نے حکومتِ سندھ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لاک ڈائون میں توسیع کا اعلان کیا ہےلیکن وزیراعظم کے لاک ڈائون مخالف بیانیے کے باعث لاک ڈائون اب تقریباً ختم ہو چلا ہے اور جو تھوڑا بہت ہو رہا ہے، وہ کورونا کے خوف سے۔

 دُنیا بھر کے ماہرین وبا کے پھیلائو کو روکنے اور اس کا تریاق ڈھونڈ نکالنے کی فکر میں ہیں جبکہ سیاستدانوں اور مذہبی پیشوائوں نے بہت کنفیوژن پھیلائی ہے۔ عالمی سطح پر صدر ٹرمپ اور پاکستان میں ہمارے دیانتدار وزیراعظم اس میں  سب سے آگے ہیں۔ یقیناً انسانی زندگی کو جو عظیم خطرہ درپیش ہے اس سے نپٹنا اول ذمہ داری ہے۔ 

جہاں دُنیا میں 3ارب لوگوں کو صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت میسر نہیں اور بھوک کے ماروں کی آبادی اس بحران میں دُگنی ہونے کو ہے وہاں صحتِ عامہ کی پھٹیچر حالت کی باعث لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بننے جا رہے ہیں۔

 یہاں سوال یہ ہے کہ لوگوں کو وبا کے ہاتھوں مرنے دیا جائے یا جتنا ممکن ہے بچایا جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ کورونا نے جو صحت عامہ کیلئے خوفناک صورتِ حال پیدا کی ہے، وہ ہمارے ہی سیاسی و معاشی گناہوں کا ثمر ہے۔ اب پورے سرمایہ داری نظام اور اس کے انسان دشمن اور دھرتی شکن کردار کی قلعی کھل گئی ہے، اس کا سب سے زیادہ شکار محنت کش طبقات اور دست نگر پسماندہ ممالک ہونے جا رہے ہیں۔

 رہی احساس پروگرام کیلئے خیرات کی اپیل، اس سے غریبوں کی غربت کے جہنم کا پیٹ بھرنے سے رہا۔ جب تک ملک کے معاشی و سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی نہیں کی جاتی لوگ یونہی مرتے کھپتے رہیں گے اور خدا سے اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی کے طلبگار!

تازہ ترین