• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسرت کا لندن میں انتقال ہو گیا
آپ پوچھیں گے کون مسرت
شعیب سلطان خان کی بیوی
پھر پوچھیں گے کون شعیب سلطان
بالکل اس طرح پوچھیں گے کون پروین رحمن
پروین رحمن تو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ تھیں غیر ملکیوں کو اپنے پروجیکٹ دکھانے کے بعد واپس گھر آرہی تھیں کہ نامرادوں نے گاڑی کے دونوں اطراف سے گولیاں چلا کر اس بے قرار روح کو آرام دے دیا، جو دن رات کام کر کے بھی تھکتی نہیں تھی۔ دراصل کام کرنے اور غریبوں کے لئے پروجیکٹ بنانے کی جرأت اور ہمت ہم سب کو اختر حمید خان اور شعیب سلطان خان نے دی تھی۔ اب ہمارے درمیان اختر حمید خان اور پروین رحمن نہیں ہیں۔ سلامت رکھے اللہ شعیب سلطان خان کو جو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو گھروں میں صحت، تعلیم، زراعت کے شعبوں میں نہ صرف تربیت دے رہے ہیں بلکہ اب تو بہاولپور میں غریبوں کے لئے بینک کھول کر بنگلہ دیش کے یونس خان کی طرح، غریبوں کے گھروں تک آسان زرعی قرضوں کی مد میں وہ سہولتیں فراہم کر رہے ہیں کہ غیر ملکی بھی متوجہ ہوتے ہیں۔ کہانی کوٹھوں چڑھی ہندوستان تک پہنچی۔ راہول گاندھی نے خود فون کر کے، ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ احوال واقعی پوچھا اور پوچھا کیا ہمارے ملک کے آندھرا پردیش میں ایسا پروجیکٹ شروع کریں گے۔ پوچھا ”آپ کے لوگ بھی بے لوث کام کرنے کو تیار ہوں گے“۔ راہول نے کہا ”یہ میرا وعدہ“۔ اب شعیب صاحب کا ایک پیر آندھرا پردیش میں ایک پاکستان میں اور ایک لندن میں۔ پوچھئے لندن میں کیوں۔ پاکستان میں مسلسل خونریزی اور بربریت سے نفسیاتی مریض ہو کر، مسرت نے لندن رہنے کا فیصلہ کیا۔ شعیب سلطان مگر پاکستانی عوام اور اپنی دھرتی سے دور نہیں رہ سکتے تھے یوں آنا جانا لگا رہتا ہے۔
برطانیہ کے معروف سوانح نگار نویل کوسنس نے تذکرہ سنا تو آن پہنچا پاکستان میں۔ گزارش کی میں آپ کی زندگی اور انتھک کام کا احوال لکھنا چاہتا ہوں۔ بولے ”یہ سب گھر میں بیٹھ کر نہیں ہو سکتا ہے۔ چلنا پڑے گا گاؤں گاؤں اور وہ عورتیں جو کبھی گھر سے نہیں نکلی تھیں ان کو قرض کا حساب کتاب رکھتے، منصوبے بناتے اور قدیم روایتوں کو توڑتے دیکھنا پڑے گا۔ نویل کوسنس نے کچھ دیر تو سوچا پھرکہا یہ سارا کام ایک پھیرے میں نہیں ہو سکے گا۔ چلو دو ایک برس میں یہ کام کر لوں گا مگر کروں گا ضرور۔ اب جو ماضی کو ٹٹولنا شروع کیا تو کہیں کوہاٹ کی ڈپٹی کمشنری ٹپک پڑی تو کہیں کراچی کی کمشنری کا رعب دبدبہ نظر آیا۔ یہیں کہیں آغا خان نے اس ہیرے کو پہچان لیا۔ بولے ”چھوڑو فائلوں کو آؤ میرے ساتھ شمالی علاقہ جات میں کام کرو“ ساتھ کام کرنے والوں کی تلاش شروع ہوئی تو ان جیسے فقیر منش طارق صدیقی نے ہاتھ بڑھایا۔ نوجوان آصف باجوہ نے اور پھر شندانہ خان نے کہاکہ ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان سارے سر پھروں نے ان علاقوں کی دریافت کی کہ جہاں نہ پینے کا پانی تھا، جہاں نہ کوئی ڈسپنسری تھی اور نہ کہیں زراعت کے لئے بیج فراہم کرنے کے علاوہ فصل کے وقت قرضے دینے کا کوئی بندوبست تھا۔ پہلے تو آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کو گاؤں گاؤں پھیلایا۔ آج جو آپ کو گلگتی ٹوپیاں، خشک خوبانیاں اور کہیں سوکھا گوشت کے علاوہ کڑھائی کے مردانہ اور زنانے نمونے دکھائی دیتے ہیں وہ اسی تربیت کے طفیل ہیں۔ اب آغا خان کو سلام کیا اور رخ موڑا پاکستان کی جانب۔ لیہ، خوشاب، سرگودھا، میانوالی سے لیکر مستونگ، کوئٹہ، تربت اورخضدار تک کام کو پھیلایا۔ مسرت نے ٹالسٹائی کی طرح شعیب سلطان کو کہا ”جاؤ اپنے جنون کو پورا وقت دو۔ میں کونسی فہمیدہ مرزا ہوں کہ میرے اوپر حکومت کے20 لاکھ ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔ علاوہ ازیں تم نے بھلا فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا کی طرح 50کروڑ قرض لیکر معاف کرانا ہے تم اسپیکر قومی اسمبلی بھی نہیں رہے کہ ان کے مفادات اور پنشن کے علاوہ نوکروں کی مراعات بھی لیتے مگر اختر حمید خان سے جو کچھ سیکھا وہ قناعت، محبت اور عوام کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر لائحہ عمل مرتب کرنا اور اس کا فائدہ بھی عوام ہی کو پہچانا تھا اور یہ کام جاری رکھو۔
اورنگی ٹاؤن میں اور خدا کی بستی بنانے میں بنیادی کام تو تسنیم صدیقی نے شروع کیا تھا مگر1998ء سے لیکر آج تک سارا کام پروین رحمن نے کیا۔ لوگوں نے شکایت کی کہ غسل خانے نہیں ہیں، سب غلاظت گلیوں میں جاتی ہے۔ پروین نے عوام کے ساتھ مل کر خرچہ اٹھانے کا وعدہ کیا اور کام کردکھایا۔ صبح سے رات گئے تک اپنے استاد شعیب سلطان کی ہدایت کے مطابق تندھی سے کام کیا۔ کراچی کی عورتیں لان خریدنے میں مصروف تھیں اور پروین کھڈیوں پرکام کرنے والوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں لگی ہوتی تھیں۔
نویل کوسنس نے شعیب سلطان کی سوانح حیات لکھنے کا حق ادا کردیا ان کی بیٹی فلک ناز اور اس کے دوبچے گیس سے دم گھٹ جانے میں فوت ہوگئے تھے۔ نویل نے اس کا بھی تذکرہ کیا ہے اور آندھرا پردیش کے ترقیاتی کاموں کی تعریف جیسے جے رام رمیش، وزیر بلدیات نے کی ہے۔ اس کا بھی حوالہ دیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے سربراہ نے بھی شعیب سلطان کی کارکردگی کی تعریف کی ہے۔ ریمن میگ سا سے ایوارڈ فلپائن میں بھی دیا گیا۔
زندگی مگر ان انعامات سے مزین نہیں ہوتی ہے۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں تو قربتوں کے رشتوں اور محبتوں کی دھنک سے آراستہ ہوتی ہے۔ شعیب صاحب نے مسرت کے توسط سے زندگی کا سکھ چین کمایا، اپنی62 سالہ ازدواجی رفاقت میں چار بچیوں کا سکھ بھی دیکھا اور پاکستان کی غریب بچیوں کو مسکراتا ہوا بھی دیکھا۔ آج ایک اور بیٹی پروین رحمن کی رخصتی بھی شعیب صاحب اور ہم سب کو دکھی کرگئی ہے مگر ابھی بہت کام کرنے کو ہیں۔ ابھی دیکھتے ہیں جن عورتوں کے شناختی کارڈ نہیں بننے دیئے گئے تھے ان کا کام نادرا کرے گی کہ شعیب صاحب کو ہی یہ کام کرنا پڑے گا۔ اب مشکل زمانہ ہے اللہ کرے کام کرنے والے جتنے پروین اور شعیب ہیں ان کو استقامت ملے، سیاست سے بے نیاز یہ سر پھرے کام کرتے رہیں۔ ہمارا سرمایہ تو فیلڈ ورکرز ہیں کبھی پولیو کا خاتمہ کرنے کو قطرے پلانے نکلتے ہیں اور کبھی قرضے دینے۔ خدا ان کو اپنی امان میں رکھے!
تازہ ترین