سردیوں کے موسم میں ہم اپنے لڑکپن میں ہر جمعہ کو سرائیکی کے لازوال صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کی جنم بھومی چاچڑان شریف سے ان کے مدفن مٹھن کوٹ جایا کرتے تھے۔ یہ تاریخی قصبہ سردار مٹھن خان جتوئی نے اپنے نام سے اپنے پیر گھرانے کے لئے ایسی جگہ آباد کیا، جہاں پر دریاوٴں کا سنگم ہے۔ جب یہ سارے دریا اپنے جوبن پر ہوتے تھے تو بزرگ ہمیں بتاتے تھے کہ یہ مٹیالا پانی کس دریا کا ہے اور وہ نیلاب کہاں سے آیا ہے۔ ہمارا لڑکپن اِن پانیوں میں ڈوبتے، سنبھلتے، تیرتے اور ان سے عشق میں گزرا ہے۔ خواجہ فرید کہ ہم سے بہت پہلے اِنہی لہروں سے کھیلتے رہے۔” اشارات فریدی“ میں لکھا ہے کہ خواجہ اپنی جنم بھومی سے اپنے پرکھوں کی قبروں کی زیارت اور وہاں پر منعقد ہونے والے میلوں پر کس اہتمام سے جایا کرتے تھے۔ جب ہم یہ داستانیں سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں دریاوٴں کے اس حسین سنگم کا نام ”پیار کا مٹھن کوٹ“ آتا ہے اور ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک سینکڑوں مرتبہ ان دو تاریخی قصبوں کے درمیان سفر کر کے ہمیں یقین ہوگیا کہ یہاں پر محبت کے دریا موجزن ہیں۔ ہم تاریخ کی طویل اور افسانوی کہانیوں میں کھوئے بغیر اس”مقامِ اتصالِ عاشقاں“ کے عاشق ہوگئے۔ چار عشرے قبل جب بارہ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کر کے ہم مٹھن کوٹ پہنچتے تھے تو پہلی حاضری دربار فرید پر ہوتی تھی اور اس سے قبل چمن( پانی کا تالاب) پر وضو کرنا نہیں بھولتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک دفعہ تھکاوٹ کے باعث یہ”فرض“ ادا نہ کرسکے تو پاوٴں میں پڑنے والے آبلوں نے ہمیں اگلے جمعہ تک ایک پل بھی چین سے نہ رہنے دیا ۔ اس دوران ہم اپنے ہمدم دیرینہ اشفاق خواجہ کی والدہ کی پکائی ہوئی دیسی مٹر دھنیے کی روٹیاں بھی کھاتے تھے اور وہاں سے واپسی پر”الفرید“ کی آخری بس کے ذریعے بمشکل واپس پہنچتے تھے۔ ”پیار کے مٹھن کوٹ“ کے حسن ومحبت کی لازوال محبتیں ہمارے پاس امانت ہیں اور اگر زندگی اور وقت نے ساتھ دیا تو یہ تمثیلی شکل میں ضرور بیان کریں گے۔ لیکن اِس سنگین دور میں فی الحال رنگین داستانوں کا چھیڑنا مناسب نہیں لگ رہا۔ ابھی پچھلے دنوں بہت سارے لوگوں نے پروگرام بنایاتھا کہ ہم بذریعہ سڑک ملتان جائیں گے، جہاں قلعہ کہنہ پر واقع بہاوٴ الدین زکریا ملتانی اور انکے عظیم پوتے شاہ رکن عالم کے مزاروں پر جاکر وہاں پر ہزاروں کی تعداد میں دانہ چگتے(لٹھے) کبوتروں کو دانہ کھلائیں گے۔ پرہلادکے اس مندر کے آثار دیکھیں گے جو بھارت میں بی جے پی کے ہندو جنونیوں کے بابری مسجد کو شہید کرنے کے ردعمل کے طور پر گرادیا گیا۔ دم دمہ جاکر وہاں پر ہزاروں سال سے آباد اِس شہر بے مثال کا نظارہ کریں گے، شاہ شمس کے مزار پر جھومر ڈالتے ہوئے چراغ روشن کریں گے۔ حافظ جمال اللہ کے درپر حاضری دیں گے۔ النگ پر جاکر رفعت عباس کے” دور افتادہ ایک شہر“ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ماضی قریب کی خوشحال ریاست بہاولپور جائیں گے، سوکھے ستلج کے پُل پر کھڑے ہو کر اس میں پانی آنے کی دعا کریں گے۔ چولستان کے عظیم چنن پیر کے دربار پر ننگے پاوٴں حاضری دینے کے بعد قلعہ ڈیروار کے سائے میں عہد جدید کی عظیم الشان”جیپ ریلی“ دیکھتے ہوئے جہانگیر مخلص سے اس کی نظموں کی صورت میں معدوم ہوتے صادق گڑھ پیلس، مقبوضہ نور محل اور برباد ہوتی” روہی“ کے نوحے سنیں گے۔ ضلع وہاڑی میں تاریخی” جھنڈیرلائبریری“ اور اس کو آباد رکھنے والوں کی زیارت کر کے واپسی پر سنٹرل لائبریری بہاولپور کے علمی خزانے پر نظر دوڑا کر دِل کو تسلی دیں گے اور پھر اوچ شریف کا رُخ کریں گے۔ جہاں پر جلال الدین سرخ بخاری، حضرت راجن قتال، حسن دریا اور سرائیکی دھرتی کے ایک خوشدل، خوش بیان اور سچے ہیرو گامن سچار کی قبر کے سات پھیرے لیتے ہوئے نہ ہنسنے کی شرط پوری کرنے کی ناکام کوشش کریں گے۔بی بی جیوندی کے شکستہ مزار پر کھڑے ہو کر ایک بڑی سلطنت کے دارالسلطنت کی گم گشتہ تاریخ اور اس کے علمی وروحانی عروج کے ایام کو ذہن میں تازہ کریں گے۔ اس دوران کافی کے عظیم گائیک اُستاد حسین بخش خاں ڈاڈھی اور ان کے عظیم والد دین محمد قوال کے سروں کو یاد کریں گے۔ اوچ کی گیلانی لائبریری کے نادر ونایاب قلمی و مطبوعہ نسخوں کو دیکھ کر اپنی دھرتی اس کے علمی خزینے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے خان پور کا رُخ کریں گے، جہاں مرید حسین خان راز جتوئی کے مزار اور اس سے متصل ان کی یاد میں قائم لائبریری اور ریسرچ سنٹر میں کچھ وقت گزاریں گے۔ جہاں پر محققین کیلئے مفت قیام وطعام لائبریری اور کمپیوٹر و انٹرنیٹ کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس کا کریڈٹ مجاہد جتوئی اور ان کے بھائیوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی آبائی شہری جائیداد کواپنے والد کی یاد میں اجتماعی فائدے کے لئے وقف کر دیا ہے۔ ہمارا یہ بھی ارادہ تھا کہ ہم برصغیر کے عظیم روحانی، علمی اور سیاسی مرکز دین پور سے ہوتے ہوئے رحیم یار خان جاکر دو ہزار صفحات سے زیادہ پر محیط عظیم سرائیکی لغت مکمل کرنے والے اپنے بزرگ اور دوست میاں سراج سانول مرحوم کے صاحبزادوں سے ملیں گے اور ان سے عرض گزاریں گے کہ وہ اپنے مرحوم والد کی عمر بھر کی اس کمائی کو ضائع نہ ہونے دیں، اسے شائع کرکے ان کے روح کو سکون پہنچائیں۔ یہاں سے برصغیر کی ایک اور شاندار لائبیریری کو دیکھنے کیلئے تحصیل صادق آباد کے تاریخی قصبے محمد آباد جاکر”مبارک لائبیریری“ دیکھیں گے اور اس کے وارث انیس شاہ جیلانی کی خوبصورت گفتگو سنیں گے، پتن منارا کے تاریخی مقام کودیکھنے کے بعد رئیس غازی خان کی آغا خان ایوارڈ یافتہ مسجد بھونگ کو دیکھ کر اپنی اور خواجہ کی جنم بھومی میں تباہ ہوتے”فرید محل“ کو دیکھتے ہوئے دریاوٴں کے حسین سنگم کے سرسبز وشاداب نظاروں سے لطف اندوزہوں گے اور پیپلزپارٹی کا اس علاقے کیلئے ایک تاریخی کارنامہ”بے نظیر شہید پُل“ دیکھنا ایک شاندار تجربہ ہوگا۔ اس پُل کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جنرل ایوب خان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے میں اس کی تعمیر کااعلان شامل تھا، پھر دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں یہی مژدہ جانفزا دوبارہ سننے کو ملا، اس کے بعد ہر حکمران نے اس کی نوید سنائی لیکن اس کو پذیرائی یوسف رضا گیلانی نے بخشی، جس کے بعد کام کا آغاز ہوا لیکن عدالت عظمیٰ نے انہیں چلتا کیا اور عوام کے دیرینہ خواب کی تعبیر کا کام سست روی کا شکار ہوگیا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر خدانخواستہ آئندہ عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نہ آسکی تو یہ پُل بیچ میں معلق ہوجائے گا اور مٹھن کوٹ تک پہنچنے کیلئے وہی میلوں کی مسافت طے کرنا پڑے گی ۔ مٹھن کوٹ سے تھوڑا سا آگے جہاں پیر بخاری کی زیارت پر تین دِن کا میلہ لگتا ہے، عین ان دنوں میں جب گندم کی سنہری بالیاں کھلیانوں میں لگے ڈھیروں کی صورت اپنی ”بہار“ دکھاتی ہیں، وہاں جانے کا مصصم ارادہ تھا اور پھر”تخت لاہور“ سے شکوہ سنج سرائیکی وسیب کے مزاحمتی شاعر عاشق ہزارو کی میٹھی باتیں سننا بھی مقصود تھا۔ یہ سفر اختیار کرنے کیلئے موسم بھی سازگار تھا، ہمیں فرصت بھی میسر تھی۔ یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ وہیں سے کوئٹہ جاکر علی بابا تاج کا دُکھ بھی”سانجھا“ کریں گے کہ اس کا عزیز ازجان عزیز عرفان علی خودی علمدار روڈ پر ہونے والے دھماکے میں بہت سارے دوسروں کے ساتھ شہید ہوگیا تھا۔ وہی عرفان جسے زندگی میں کبھی نہ مل سکنے کا ہمیں افسوس رہے گا مگر یقین مانیں وہ ہمارے قلم قبیلے کی آنکھ کا تارا تھا، وہی قبیلہ جو نفرت کی آندھیوں میں کافیوں، دوہوں، غزلوں اور گیتوں کی تخلیق سے”پیار کے مٹھن کوٹ“ بساتا ہے، جہاں حاضری سے پتھر دِل موم ہوتے ہیں، کلیاں پھول بنتی ہیں اور ارضِ خدا پر رنگ ونور کی بارش ہوتی ہے۔ طبیعت میں گداز پید اہوتا ہے۔ آج ہمارے منقسم معاشرے کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے عفریت تباہ کرنے پر تُلے ہیں، کوئی دِن خالی نہیں جاتا جب آگ وخون کی بارش میں معصوم انسانوں کا قتل عام نہ ہوتا ہو۔ اس عالم میں پیار کے الوہی گیت گا کرہی اس بستی کو ”پیار کے مٹھن کوٹ“ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔